کراچی

ایک طویل داستان ہے کراچی کے ٹوٹے پھوٹے نصیب کی۔

Jvqazi@gmail.com

ISLAMABAD:
شہباز شریف کا آج کل کراچی کی سمت کافی جھکاؤ ہے، چلو الیکشن کے بہانے ہی سہی کوئی تو آیا اور جب الیکشن کے مرحلے گزر جائیں گے تو بس پھر ہم ہوں گے اور ہمارے ادھورے خواب یا پھرکراچی کی قسمت۔ ایک طویل داستان ہے کراچی کے ٹوٹے پھوٹے نصیب کی۔ اس چھوٹے سے مضمون میں سمونے کی کوشش کر رہا ہوں۔

شروعات کرتے ہیں شہر لاہور اور کراچی کے موازنے سے۔ کیا وجہ ہوگی کہ لاہور پورے پنجاب کے نوے فیصد بجٹ کوکھا جاتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ کراچی کو اتنا بھی میسر نہیں جتنا اکثر چھوڑ دیا جاتا ہے پیمانوں میں۔

پچاس کی دہائی تک کراچی اقتدارکا مرکز تھا۔ پاکستان کی اکثریت بیوروکریسی کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی باقی تھی۔ جناح چلے گئے، لیاقت علی چلے گئے لیکن اقتدار میں کراچی کی شرکت بھرپور تھی۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا اور اس شراکت داری سے ٹکراؤ میں تھی۔

مشرقی پاکستانی کی قیادت جیسا کہ شیر بنگال فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب۔ متحدہ ہندوستان میں بنیادی طور پر دو قوتیں تھیں جنہوں نے پاکستان کے بننے میں بھرپورکردار ادا کیا، ایک تھے یوپی کے مسلمان اور دوسرے بنگال کے مسلمان اور پھر ان دونوں کا ہوا ٹکراؤ کہ کون ہوگا اس ملک کے اقتدار کا محور۔ یہ تنازعہ اتنا بڑھ گیا کہ لیاقت علی خان نے بنگال کی پوری مسلم لیگ قیادت کو دھکیل دیا۔ خواجہ ناظم الدین کو آگے کیا اور فضل الحق، حسین شہید سہروردی وغیرہ کو پیچھے۔ مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئی اس اکثریت نے عوامی مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی جو آگے جا کر عوامی لیگ بنی۔

ہندوستان میں نہرو تھے جو مسلسل تین انتخابات تک ملک کے وزیراعظم رہے تا وقتیکہ وہ دنیا سے چلے گئے اور یہاں ہر چوتھے مہینے وزیر اعظم تبدیل ہوتے تھے۔ 1954 ء کے ریاستی انتخابات میں بنگالیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیا اور مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی۔ ایک ہی جھٹکے میں بنگال سے مسلم لیگ ماضی ہوئی۔ مغربی پاکستان میں بھی مسلم لیگ کچھ ہواؤں میں تھی، یو پی سے آئی ہوئی قیادت تھی تو مرکزی قیادت لیکن یہاں کے لوگوں میں ان کی جڑیں نہ تھیں۔ اس سول قیادت کو سول بیوروکریسی نے replace کیا اور سول بیوروکریسی کو ملٹری بیوروکریسی نے replace کیا۔دارالحکومت بھی کراچی سے نارتھ کی طرٖف transfer ہوا کیونکہ ملٹری بیوروکریسی کی بنیادیں نارتھ میں تھیں یوں اقتدار راولپنڈی منتقل ہوا ۔

جنرل ایوب کو پہلا مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے راولپنڈی سے امریکی سفیر کے چارٹر جہاز میں راولپنڈی سے کراچی آنا پڑا۔ بعد کے مارشل لاء جب نافذ ہوئے تو ان کو پنڈی کے ایک کونے میں پلان کیا گیا اور دوسرے کونے میں نافذ کیا گیا۔


دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ کراچی کی قیادت کو جمہوریت سمجھ نہ آئی۔ جب مسلم لیگ میں تھے تو آئین نہ دیا لیکن ایوب کی پہلے مارشل لاء کے خلاف کراچی کی قیادت خوب لڑی، یہ لوگ ذہین اور میرٹ کے لوگ تھے۔ یہ لوگ یو پی کی بڑی مہذب تاریخ کے وارث تھے اور یہاں پر بھی ان کو ملک کا بہترین انفرا اسٹرکچر ملا۔ بھٹو کی جمہوریت اور بیانیے نے پوری کایا پلٹ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے چاروں صوبوں میںکوٹہ سسٹم روشناس کروایا اور سندھ میں اربن اور رورل کوٹہ سسٹم بنایا گیا۔

اس کوٹہ سسٹم نے کراچی کی قیادت کو سندھ کے اندر ایک ڈرکی کیفیت میں مبتلا کردیا، یہی وجہ ہے کہ کراچی کی قیادت نے ضیاء الحق کے نافذ کردہ مارشل لاء کو خوش آمدید کہا، جب بھٹو رخصت ہوئے اور یوں کراچی میں ایک مخصوص بیانیے نے جنم لیا جس کی بنیاد ایم کیو ایم نے ڈالی۔ اسی بیانیے کی بنیاد پر ایم کیو ایم نے تیس سال تک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اقتدار میں شراکت کی۔ یہ بد نصیبی کی بات ہے کہ اس بیانیے کے وارثوں میں اقلیتی قوم ہونے کا شدید احساس تھا اور اس اقلیتی قوم ہونے کے احساس نے اس قوم کو مختلف لسانی لڑائیوں میں ڈال دیا۔

بڑی قتل وغارت ہوئی۔ کراچی کی سیاست میں اس اقلیتی احساس نے تشدد (violence) کی فضا قائم کی۔ جس میں اندرونی اور بیرونی طاقتیں بھی شامل ہوئیں اور یوں کراچی کا بیانیہ مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اگر ہم فرض کر بھی لیں کہ کراچی ایک الگ صوبہ بن جائے تو بھی اس شہرکی ڈیموگرافی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ شہر مختلف لسانی و مذہبی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا اس کی ایک شکل اس وقت حیدرآباد کا نقشہ ہے جہاں ایک طرف قاسم آباد ہے اور دوسری طرف لطیف آباد۔

پچاس سے ستر کی دہائی تک سندھ کے وڈیرے اقتدار میں ایک چھوٹے partner کی حیثیت سے شراکت دار تھے یہ بھٹو تھے جن کو پاکستان کے اقتدار کی dynamics سمجھ میں آئیں اور دیہی سندھ کو پاکستان کے اقتدار میں بھرپور شراکت ملی، اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو بنیادی طور پر پنجاب کے پاپولر لیڈر تھے، لیکن زرداری کے آتے آتے پیپلز پارٹی پنجاب میں ماضی بن گئی۔ پہلا دور 2008ء سے 2013 ء تک کسی حد تک بھٹوکے نام پر حاصل کیا گیا اور مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کی ابھرتی طاقت نے دیہی سندھ میں جو ڈر پیدا کیا پیپلز پارٹی نے اس کو بھی capatalize کیا۔ ایم کیو ایم کی کراچی میں تیس سالہ طاقت بالآخر سال 2016 ء میں اختتام کو پہنچی۔ دوسری طرف اگر ہم غورکریں تو لاہور اور سینٹرل پنجاب کا معاملہ کچھ اور ہے وہاں پر ایسے تضادات نہیں۔ پنجاب میں دیہی پنجابی بھی پنجابی ہے اور اربن پنجاب بھی پنجابی ہے اور وہاں پر ایسٹ پنجاب سے آنے والا مہاجر بھی پنجابی تھا۔

ایم کیو ایم کا وجود جنرل ضیاء الحق کے دور میں منظم ہوا۔ اس کے پیچھے جنرل ضیاء کی تھیوری یہ تھی کہ وہ سندھ میں، اربن سندھ اور رورل سندھ کے درمیاں دراڑیں ڈالنا چاہتے تھے تاکہ بینظیر بھٹوکی جمہوری قوت کو پیچھے دھکیلا جا سکے اور ایم کیو ایم نے اس تمام scenario میں بھرپورکردار ادا کیا۔

اس وقت بد نصیبی نہ صرف دیہی سندھ بلکہ کراچی پر بھی منڈلارہی ہے۔ سندھ میں آنیوالی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہے اورکراچی کی قیادت سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی بینچز پر بیٹھے گی۔ وفاقی حکومت پنجاب سے ہوگی اور لاہور کی قسمت پھر چمکے گی۔ سندھ اپنے ہی دیہی اور شہری معاملوں میں الجھا رہے گا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی خواہش آنیوالے الیکشن میں یہ ہے کہ دیہی سندھ کو مہاجر طاقت سے خوفزدہ کر کے اپنا ووٹ محفوظ کیا جائے اور کراچی کی (منتشر)قیادت یہ چاہے گی کہ اپنے پرانے بیانیے کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیا جائے۔ ان تمام سازشوں میں نہ صرف دیہی سندھ بلکہ کراچی کے ترقیاتی کام بھی التواء کا شکار ہیں۔ شہر کھنڈر بنا ہوا ہے، شائننگ کراچی کی دھندلی سی تصویر بھی نظر نہیں آتی جب کہ اس تمام منظر نامے scenario میں بھاری نقصان کراچی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
Load Next Story