ہر سال کا وہی رونا

آج یہ شور مچا ہوا ہے کہ کچھ لوگ میڈیا میں بیٹھ کر جان بوجھ حقائق کو تبدیل کر رہے ہیں۔


انیس منصوری April 26, 2018
[email protected]

WASHINGTON: یہ دائروں میں گھومتی ہوئی دنیا ہے، یہاں کوئی بات بھی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں روز ہونے والا ڈراما کسی نہ کسی پرانے اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ دامن میں آگ چھپا کر خود کو بچانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ سب کسی نہ کسی ڈرامے کا حصہ ہے۔ ایک بار پھر نئے صوبے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ یہ الیکشن سے پہلے ہی کیوں سب کو نیا صوبہ یاد آتا ہے۔

کراچی کے ایک شہری نے تو سندھ کو آزاد 7 ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے گزشتہ الیکشن سے پہلے نئے صوبے کا معاملہ اپنے عروج پر تھا۔ پورے چھ سال پہلے 9 مئی 2012ء کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد منظورکی تھی کہ بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے اور جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جائے۔کسی کو معلوم ہے کہ کون سی ردی کے ڈھیر میں اس وقت یہ قرار داد موجود ہے؟

کیا پچھلی بار سنجیدہ کوشش کی گئی تھی؟کیا اس بار سارے کھلاڑی سچے دل سے کسی کو حق دلانا چاہتے ہیں؟ وہ ہی پرانے نعرے نئے جھنڈوں کے سائے میں کیا سکون دے سکیں گے؟

کون سی بات نئی ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ نواز شریف صاحب کو یاد ہے کہ نہیں یاد ہے۔گزشتہ الیکشن سے پہلے نواز شریف صاحب عدالت کے حق میں کالا کوٹ پہن کر جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سندھ میں ممتاز بھٹوکی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) میں ملایا جا رہا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کے جرم میں عدالت سزا دے چکی تھی۔ نواز شریف نے ممتاز بھٹو کے ساتھ مشترکہ جلسہ کیا تھا۔

میں اُس تقریب میں موجود تھا جب نواز شریف صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام مجھے بتائیں کہ کیا کسی سزا یافتہ شخص کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا چاہیے؟ انھوں نے اسی جلسے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو جب مجرم قرار دے دیا تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔کیا بدلہ ہے صرف چہرہ؟ پہلے نوازر شریف یہ کہتے تھے کہ سیاسی فیصلے جو عدالتوں میں ہوتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ آج ان کے مخالفین کہتے ہیں ، یہ 90ء کی بات نہیں ہے۔ یہ میثاق ِ جمہوریت کے بعد کا وقت ہے۔ اُس وقت وہ عدالتی فیصلے پر منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کی حمایت میں تھے۔ آج ان کے مخالفین وہ ہی کچھ کر رہے ہیں، بدل کیا رہا ہے؟ صرف چہرے؟ نعرے وہی پرانے۔ الیکشن سے پہلے اُسی طرح صوبے کا نعرہ، اُسی طرح عدالتی معاملہ؟ کیا چیزوں کو ایک ہی دائرے میں گھومتے رہنا ہے؟

آج یہ شور مچا ہوا ہے کہ کچھ لوگ میڈیا میں بیٹھ کر جان بوجھ حقائق کو تبدیل کر رہے ہیں۔ آج مختلف طاقتورگروپ یہ کہتے ہوئے سنُائی دے رہے ہیں کہ چند لوگ کسی کے اشارے میں چل رہے ہیں ۔ ہر حکومت کو سچ کے پیچھے کوئی سازش نظر آجاتی ہے۔ میری صحافت کے ابتدائی دن تھے۔ یہ بات ہے 30 نومبر 1996ء کی جب بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا۔ ہر طرف حکومت کی کرپشن کی کہانیاں عام تھی۔

اسلام آباد میں ادیبوں اور دانشوروں کی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم کی حیثیت سے اس میں خصوصی خطاب کرنا تھا۔ بینظیر حکومت کا ججز کے ساتھ معاملہ بگڑتا جارہا تھا۔ اس بات کی بھی اطلاعات آنا شروع ہو چکی تھی کہ صدر پاکستان فاروق لغاری جو کسی زمانے میں بینظیرکے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے اب دور دور رہتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کو یقیناً اس کانفرنس میں صحافیوں سے بات کرنی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں مکمل طور پر سیاسی استحکام ہے۔کوئی نیا وزیر اعظم باہر سے نہیں آرہا۔ انھوں نے کرپشن کے الزامات کی اُسی طرح سے وضاحت کی جیسے موجود حکومت کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میراج 2000 طیاروں کی خریداری سے قبل ہی آصف علی زرداری پر کمیشن کا الزام لگا دیا گیا۔ فرانس میں نہ تو میرا کوئی محل ہے اور نہ ہی آصف علی زرداری نے 6 ملین ڈالرکے گھوڑے خریدے ہیں۔

بینظیر بھٹو نے مزید کہا کہ اخبارات من گھڑت خبریں شایع کرکے اقتصادی خوف پھیلا رہے ہیں۔ یہی الزامات آج کے صحافیوں پر لگائے جاتے ہیں کہ وہ اگرکوئی خبر دیں، تو کوئی کہے گا کہ غداری کر رہے ہیں کوئی کہے گا کہ جمہوریت کے دشمن ہیں اور کوئی کہے گا کہ مارشل لا کی حمایت کر رہے ہیں۔ مزید سنیں کہ اُس وقت بینظیر بھٹو نے کیا کہا تھا۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے آج کی بات ہو اور صرف فرق یہ آگیا ہے کہ اب یہ باتیں نواز شریف یا پھر ان کی حکومت کر رہی ہے۔

صحافیوں اور دانشوروں کی اس عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بینظیر بھٹو نے مزید کہا کہ آج کے صحافی اپنے قلم کا بندوق سے بھی بد تر استعمال کر رہے ہیں۔ یہی بات آج کہی جارہی ہے کہ اگر کوئی بھی خبر آجائے تو لگتا یوں ہے کہ قلم یا پھر زبان سے بات کرنے والوں نے بارود کے ڈھیر اٹھا کر رکھے ہوئے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے میڈیا پر کہا تھا کہ اخبار والے کون ہوتے ہیں جو حکومت گرائیں اور بنائیں، یہی بات آج کہی جارہی ہے۔ عدلیہ کے معاملے ہوں، سیاسی معاملات کا عدالتی حل ہو یا پھرکرپشن کے الزامات۔ نئے صوبے کی تحریک ہو یا پھر پانی اور بجلی کا مسئلہ۔ ہر پانچ سال بعد ہم اُسی دلدل میں کھڑے ہوتے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ سب ایک مدار میں گردش کرتے رہتے ہیں۔

وہی جمہوریت کو بچانے کے دعوے، وہی ملک دشمن عناصر اور وہ ہی غریب کی آمدن میں روزکی کمی۔ روز تاریخ پر تاریخ اور پھر ایک لمبی تاریخ۔ جب موقعہ ملا اُس لمبی تاریخ کو قریب لے آئے۔وہی امریکا کی دھمکیاں وہی چین ہمارا دوست ہے۔ وہی روس سے تعلقات بہترکرنے کی کوشش۔ میرے خیال سے یہ فروری 1996ء کی بات ہے ۔ پاکستان میں امریکی سفیر کا نام تھا ''تھامس سائمنز'' انھوں نے پاکستان میں بیٹھے ہوئے دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا کہ اگر پاکستان ہمارے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہتا تو ہمیں بھی ان کی ضرورت نہیں ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انھوں نے مزید دھمکی بھرے انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کے لیے مناسب ہے کہ وہ امریکا کی بجائے کسی دوسرے دوست کو تلاش کر لے۔ اس خبر کے آنے کے بعد ہر طرف باتیں شروع ہو چکی تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ امریکا پاکستان سے خوش نہیں ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت اب جانے والی ہے۔ اس لہجے میں سارے سفارتی آداب کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے سال کی ابتدا میں ٹرمپ نے کہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے اگلے دن بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ ہمیں امریکا اور مغرب کی بجائے مشرق پر انحصارکرنا چاہیے۔ جس طرح سے آج کل ہم کر رہے ہیں۔

سب اُسی طرح سے ہے ۔ 20 سال پہلے بھی امریکا بہادر کا وہی رویہ تھا جو آج ہے۔ ہم آج سے 20 سال پہلے بھی مشرق میں اپنے دوستوں کی تلاش میں نکلے تھے آج بھی ہمیں کسی چارہ گر کی تلاش ہے۔

میں کہانی کو لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ بس ایک نکتے پر مرکوز ہوں۔ ہمارے اندرونی مسائل 20 سال میں وہیں کھڑے ہیں۔ اس میں سرد جنگ بھی ہو گئی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ بھی۔ اس میں فوجی آمریت بھی آچکی اور جمہوری حکومتیں بھی ۔ اس میں عدلیہ کے فیصلے بھی دیکھیں اور میثاق جمہوریت بھی۔ اس میں صوبے کے نام پر قرارداد بھی دیکھی اور ہزارہ جیسے علاقے میں ایک خونی مہم بھی، مگرکیا ہم اپنے مسائل سے آگے بڑھ سکے؟ اندرونی معاملات ہوں، سیاسی چالیں ہوں یا پھر خارجہ امور۔ ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں اور لگتا یوں ہے کہ 2018 ء کا الیکشن ہمیں پھر ایک دائرے کی طرف لے کر جا رہا ہے، نعرے وہی پرانے ہیں۔

اکثر پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھرنے والا معاملہ لگتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے احتساب پھر الیکشن۔ لیکن میں یہ ضرورکہتا ہوں کہ اگر ہمیں اسی دائروں کا غلام رہنا ہے تو پھر کب پرانے ''بھوت'' کے ساتھ دوستی رکھیں گے؟ نئے کپڑے بدل کر، پرانے نعروں کے ساتھ نئی جماعت کو ہی حکومت دینی ہے تو پھر ہم اگلے پانچ سال بعد کے ماتم کا آج سے آغاز کردیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔