ہیٹ اسٹروک

 فوری طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں متأثرہ فرد کی موت واقع ہوسکتی ہے


 فوری طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں متأثرہ فرد کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

موسم گرما شروع ہوچکا ہے۔ کراچی اور کئی دوسرے علاقوں میں درجۂ حرارت چالیس ڈگری کو چُھو رہا ہے۔

ہرگزرتے دن کے ساتھ دھوپ کی شدت بڑھ رہی ہے۔ سخت گرم موسم دوسرے مسائل کے علاوہ اپنے ساتھ کئی امراض بھی لے کر آتا ہے۔ بیماریوں کے علاوہ شدید گرم موسم میں ہیٹ اسٹروک یعنی لُو لگ جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ لُو اس وقت لگتی ہے جب جسم کا درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس یا اس سے بڑھ جائے۔ لُو لگ جانے کے بعد متأثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

بروقت طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں متأثرہ فرد کے دماغ، دل، گُردوں اور پٹھوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اور اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ تین سال قبل کراچی میں آنے والی شدید گرمی کی لہر کے دوران ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے چالیس ہزار سے زائد شہری متأثر ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ موت کے منھ میں چلے گئے تھے۔

علامات

٭ لُو لگنے کی سب سے اہم علامت جسم کے اندرونی درجۂ حرارت ( کور باڈی ٹمپریچر) کا 40 ڈگری سیلسیئس یا اس سے بڑھ جانا ہے۔

٭ متأثرہ فرد کنفیوژن، اشتعال آمیز رویے، چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے الفاظ کی درست طور پر ادائیگی میں دقت پیش آتی ہے اور ہذیان طاری ہوجاتا ہے۔ دورہ پڑنا اور غشی طاری ہوجانا بھی ہیٹ اسٹروک کی علامات میں شامل ہیں۔

٭ چلچلاتی دھوپ میں زیادہ وقت گزارنے کے باعث لُو لگ جائے تو اس صورت میں متأثرہ فرد کو چُھونے پر جلد گرم اور خشک محسوس ہوتی ہے۔ اگر لُو لگ جانے کی وجہ شدید گرمی میں جسمانی مشقت ہو تو پھر چُھونے پر جلد خشک اور کسی قدر نم محسوس ہوتی ہے۔

٭ متأثرہ فرد کو متلی اور قے ہوسکتی ہے۔

٭ جسم کا درجۂ حرارت بڑھ جانے سے جلد کی رنگ سُرخی مائل ہوسکتی ہے۔

٭ متأثرہ فرد کے سانس لینے کی رفتار بڑھ جاتی ہے، یعنی وہ جلدی جلدی سانس لیتا ہے۔

٭ نبض کی رفتار بڑھ جاتی ہے کیوں کہ لُو لگنے کی وجہ سے دل پر جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دباؤ بڑھ جاتا ہے اور وہ تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔

٭ سر میں شدید درد ہوتا ہے۔

اسباب

گرم ماحول میں رہنا لُولگ جانے کی وجہ بنتا ہے۔ ہیٹ اسٹروک کی دو اقسام ہوتی ہے۔ پہلی قسم وہ ہے جس میں گرم اور مرطوب ماحول میں طویل وقت تک رہنے کی وجہ سے جسم کا درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ ہیٹ اسٹروک کی اس قسم سے عام طور پر معمر افراد متأثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سخت بیمار افراد بھی اس سے متأثر ہوسکتے ہیں۔ عمررسیدہ اور بیمار، دونوں کے لیے گرم موسم میں جسمانی مشقت ممکن نہیں ہوتی۔ وہ بس گرمی میں گھر کے اندر بیٹھے یا لیٹے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر گرمی کی شدت میں کمی کا انتظام نہ ہو تو پھر انھیں لُو لگ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ہیٹ اسٹروک کی دوسری قسم ہے جس کا شکار شدید گرمی اور دھوپ میں جسمانی مشقت کرنے والے محنت کش ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو شدید گرم موسم میں جسمانی مشقت کے عادی نہیں ہوتے۔

لُو سے متأثرہ فرد کے لیے فوری طور پر کیا کیا جائے؟

٭ فوری طور پر سائے میں لے جائیں۔

٭ اضافی کپڑے اتار دیے جائیں۔

٭ جسم کا درجۂ حرارت گھٹانے کے لیے اقدامات کریں مثلاً اسے پانی سے بھرے ٹب میں لٹائیں یا اوپر ٹھنڈا پانی ڈالیں۔ ٹھنڈے پانی میں کپڑا بھگوکر جسم پر ملیں اور سر، گردن، بغلوں اور پیٹ پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں یا تولیہ رکھ دیں۔ اس دوران پنکھا بھی چلادیں۔ برقی پنکھا دستیاب نہ ہو تو دستی پنکھے سے ہوا دیں۔

لوُ کن کو لگ سکتی ہے؟

یوں تو لُو کسی بھی عمر کے فرد کو لگ سکتی ہے مگر چند صورتوں میں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں:

٭شدید گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کا انحصار ہر فرد کے مرکزی اعصابی نظام کی مضبوطی پر ہوتا ہے۔ بچوں میں اعصابی نظام اپنی تکمیل کو نہیں پہنچتا، اسی طرح 65 برس سے زائد عمر کے افراد میں اعصابی نظام زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتا ہے، چناں چہ ان میں جسمانی درجۂ حرارت میں تغیر کو سہنے کی صلاحیت کم زور پڑجاتی ہے۔ بچوں اور عمررسیدہ افراد، دونوں کو جسم میں پانی کی مقدار برقرار رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے، جس کی وجہ سے لُو لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

٭ گرم موسم اور تیز دھوپ میں جسمانی مشقت بھی ہیٹ اسٹروک کا باعث بن سکتی ہے۔ خاص طور سے سخت گرمی میں ٹریننگ کرنے والے فوجی، اور فٹبال اور طویل فاصلے کی دوڑ جیسے کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی ہیٹ اسٹروک کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

٭ درجۂ حرارت میں اچانک تبدیلی سے بھی لُو لگ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ جیسے اچانک گرمی کی لہر آجائے یا پھر آپ سرد سے گرم علاقوں کی جانب سفر کررہے ہوں۔ سرد سے گرم علاقے میں پہنچنے کے بعد چند روز تک باہر نکلنے سے گریز کیا جائے تاکہ جسم درجۂ حرارت میں اس تبدیلی کو قبول کرلے۔ اس کے باوجود طویل وقت تک دھوپ اور گرمی میں رہنے سے گریز کرنا چاہیے۔

٭ جو لوگ ایئرکنڈیشنڈ میں رہنے کے عادی ہوں، ان کے لیے سخت گرمی برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر انھیں چلچلاتی دھوپ اور حبس زدہ موسم سے واسطہ پڑجائے تو پھر وہ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوسکتے ہیں۔

٭ کچھ دواؤں کے استعمال سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ گرم موسم میں خاص طور سے ان ادویہ کا استعمال کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے جو خون کی نالیوں کو تنگ کردیتی ہوں، ایڈرینالین سے ہارمون کا اخراج روک دیتی ہوں، اور جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کا سبب بنتی ہوں۔

٭ دل اور پھیپھڑوں کے امراض اور دوسری پیچیدہ بیماریاں ہیٹ اسٹروک کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔

ہیٹ اسٹروک سے جُڑی پیچیدگیاں

لُو لگنے کی صورت میں اگر فوری طبی امداد نہ ملے تو پھر بہت سی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں:

٭ ہیٹ اسٹروک کی صور ت میں جسمانی درجۂ حرارت میں کمی کے لیے فوری اقدامات نہ کیے جائیں تو پھر دماغ اور دوسرے اعضائے رئیسہ متورم ہوکر مکمل طور پر ناکارہ بھی ہوسکتے ہیں۔

٭فوری اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے متأثرہ فرد کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

سخت گرم موسم میں لُو سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی اقدامات اختیار کریں:

٭ ہلکے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں۔ اضافی اور تنگ کپڑے پہننے سے گریز کریں جن کی وجہ سے جسم کو ٹھنڈا ہونے میں رکاوٹ کا سامنا ہو۔

٭ تیز دھوپ میں نکلتے ہوئے احتیاط کریں۔ دھوپ کی وجہ سے جسم کی خود کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت متأثر ہوتی ہے لہٰذا دھوپ میں نکلتے ہوئے چوڑا ہیٹ پہن لیں، سن گلاسز لگائیں اور سن اسکرین استعمال کریں۔

٭ مشروبات کا زیادہ مقدار میں استعمال کریں تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ پانی کی مقدار برقرار رہنے سے پسینہ آتا رہتا ہے جس سے جسم کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

٭ موسم گرما میں ان ادویہ کا استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتیں جو جسم کی آبیدہ رہنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

٭ پارکنگ میںگاڑی کھڑی کرتے ہوئے دیکھ لیں آپ اپنے بچے کو اندر بند کرکے تو نہیں جارہے۔ اگر گاڑی دھوپ میں کھڑی کی جائے تو درجۂ حرارت دس ڈگری سے بھی کم ہونے کے باوجود اندر بیٹھا ہوا بچہ موت کا شکار ہوسکتا ہے۔

٭ گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں باہر نکلنے کے بجائے گھر پر آرام کرنے کو ترجیح دیں۔ اگر سخت گرمی میں محنت مشقت کا کام کرنا ناگزیر ہو تو پھر وقفے وقفے سے پانی یا شربت وغیرہ پیتے رہیں اور ہر کچھ دیر کے بعد سائے میں یا ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر آرام کریں۔ بہتر یہ ہے کہ سخت گرمی اور لُو کے دنوں میں صبح اور شام کے اوقات میں کام کرنے کی ترتیب بنالی جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اوپر مذکور طریقہ اپنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں