بھارتی چیف جسٹس کے مواخذے کی تحریک
کسی چیف جسٹس کے خلاف اس سے پہلے مواخذے کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
یہ محض تکبر اور غرور کی بات ہے۔ درست کہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نارائن شکلا کو لکھنو میں قائم پراسد ایجوکیشن ٹرسٹ پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ٹرسٹ ایک میڈیکل کالج بھی چلاتا ہے۔ لیکن یہ قانون کی کوئی ایسی خلاف ورزی نہیں ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے چیف جسٹس کا مواخذہ کیا جائے۔
کانگریس پارٹی اس معاملے میں تقسیم کا شکار ہے لیکن چونکہ اس کے صدر راہول گاندھی نے چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے حتٰی کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ' پی چدم برم اور ابھیشک منوسنگھوی جو تینوں وکیل بھی ہیں انھوں نے مواخذے کی تحریک پر دستخط نہیں کیے۔
ایک اور سینئر کانگریسی لیڈر غلام نبی آزاد نے راجیہ سبھا میں راہول گاندھی کی جانب سے مواخذے کی تحریک پڑھ کر سنائی اور اراکین کے دستخط حاصل کیے۔ یہ روایت ہے کہ اس قسم کی تحریک کو ایوان بالا میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔
یہ حقیقت کہ حکمران بی جے پی کی راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے لہٰذا وہ بھی بہ آسانی کانگریس کے ساتھ مل گئی نیز چھ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان کی حمایت کر دی۔ اب چونکہ تحریک پر دستخط کرنے والوں کی مطلوبہ تعداد پوری ہو گئی تھی اس کے باوجود راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکٹا نائیڈو نے جن کا تعلق بی جے پی سے ہے فوراً ہی یہ تحریک مسترد کر دی۔
نائب صدر نائیڈو نے اپنے 10صفحات پر مشتمل نوٹ میں فیصلے کی عجلت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا چونکہ الزام بہت سنجیدہ ہے جس کے بارے میں غیر ضروری طور پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ تحریک میں جو حقائق پیش کیے گئے ہیں ان کی بنیاد پر کوئی مضبوط کیس نہیں بنتا جس کی بنا پر چیف جسٹس پر خراب طرز عمل کاالزام لگایا جا سکے۔ نائیڈو نے کہا کہ انھوں نے قانونی اور آئینی ماہرین سے بھی صلاح مشورہ کیا ہے اور میڈیا کے طرز عمل کو بھی پیش نظر رکھا ہے جس نے مواخذے کی تحریک کی شدت سے مخالفت کی ہے۔
مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے مواخذے کے نوٹس کو ''انتقامی کارروائی'' قرار دیا ہے اور کانگریس کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کانگریس اور اس کے ہم نواؤں پر الزام لگایا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کے نوٹس کو استعمال کر رہے ہیں حالانکہ چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے میں صرف 6 ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو صرف برے برتاؤ کی بنیاد پر مواخذے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا عدم قابلیت کی بنا پر۔ اپوزیشن نے اس مطالبے کی حمایت کی ہے اور اس کے حق میں 5 وجوہات بیان کی ہیں جن کے بارے میں کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ ''برے برتاؤ'' کے مترادف ہیں۔
ان میں مقدمات کو اپنی مرضی کے مخصوص ججوں کے حوالے کرنا ان میں مزید برآں خاص نوعیت کے مقدمات جو جنوری کے مہینے میں4 چوٹی کے ججوں سپرد کیے گئے تھے جنہوں نے چیف جسٹس پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے بعد اگلے پانچ چوٹی کے ججوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے پریس کانفرنس کی تھی جس میں جج بی ایچ جوئیہ کی موت کے واقعے کا ذکر کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ معاملہ کسی اور جج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ مزید برآں کسی چیف جسٹس کے خلاف اس سے پہلے مواخذے کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ چیئرمین نے اس قسم کے نوٹس کو راجیہ سبھا میں بھجوا دیا تاکہ دو معاملات کی تصدیق کروائی جا سکے۔-1 کیا جن اراکین نے پٹیشن پر دستخط کیے ہیں وہ انھی کے دستخط ہیں اور -2کیا اس حوالے سے قوانین و ضوابط کی پوری پابندی کی گئی ہے؟ ظاہر ہے کہ نائیڈو اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے۔ آئین ساز اسمبلی میں جو بحث ہوئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین سازی کرنے والے جن میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین شامل تھے مواخذے کی شق شامل کرتے ہوئے حد سے زیادہ محتاط تھے۔ آئین سازی کرنیوالے یہ نہیں چاہتے تھے کہ مواخذے کی کارروائی کو سرسری طور پر لیا جائے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ کانگریس پارٹی نے تمام احتیاطی تدابیر کو ہوا میں اڑا دیا حالانکہ یہ پارٹی اس حوالے سے بہت محتاط تھی۔ راہول گاندھی کے طرز عمل سے کانگریس کے چوٹی کے لیڈروں کی خواہشات کے بارے میں عدم تکریم کا شائبہ ابھرتا ہے لیکن ایک چیز ساتھ ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی پوزیشن اور اپنے عہدے کے وقار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جیسے کہ 5 چوٹی کے جج حضرات نے کہا ہے کہ اس معاملے میں اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کیا گیا کیونکہ نہایت حساس معاملات کو مخصوص بنچوں کے سپرد کر دیا گیا جس سے چیف جسٹس کی اتھارٹی پر حرف آتا ہے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے جب وہ وکیل تھے تو انھوں نے غلط بیان حلفی پیش کر کے اراضی حاصل کی تھی۔
لیکن 2012ء میں جب انکو ترقی دیکر سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تو انھوں نے زمین حکومت کو واپس کر دی مگر انھوں نے اس کام کے لیے بہت زیادہ وقت لیا حالانکہ یہ الاٹمنٹ کئی سال پہلے منسوخ کر دی گئی تھی۔ یہ درست ہے کہ بعض معاملات میں ہائی کورٹ کے ججوں کے خلاف مواخذے کی تحریک چلائی گئی لیکن اس تحریک کے پیش ہونے سے پیشتر ہی انھوں نے استعفے دیدیے۔ مثال کے طور پر کلکتہ ہائی کورٹ کے سمترا سین جن کا تعلق کلکتہ ہائی کورٹ سے تھا وہ پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے والے پہلے جج بن گئے چنانچہ انھوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ یہ انھوں نے اس وقت کیا جب راجیہ سبھا نے ایوان بالا میں مس کنڈکٹ کے الزام میں کارروائی کی۔ جسٹس سین پر33,23لاکھ روپے کے غبن کا الزام لگایا گیا جو انھوں نے 1983ء میں کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر وصول کیے۔
بعینہ جسٹس پی ڈی دینا کرن جو سکم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ان کے خلاف راجیہ سبھا کے چیئرمین نے کرپشن کے الزام میں جوڈیشل پینل تشکیل دیا جس پر انھوں نے جولائی 2011ء میں مواخذے کی کارروائی سے قبل ہی استعفیٰ دیدیا۔ علاوہ ازیں عدالتی افسر کے طور پر جسٹس دینا کرن کے خلاف کرپشن کے 16دیگر الزامات بھی عائد تھے تاہم جسٹس راما سوامی واحد مثال ہیں جن کے خلاف 1993ء میں مواخذے کی کارروائی شروع ہوئی۔ یہ تحریک لوک سبھا میں پیش ہوئی لیکن اس کے حق میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی اس لیے یہ تحریک ناکام ہو گئی۔
جسٹس راما سوامی پر اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بہت زیادہ اخراجات کا الزام بھی لگا جب وہ 1990ء میں پنجاب اور ہریانہ کے چیف جسٹس تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کے مواخذے کی قرارداد منظور کی۔ مواخذے بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے لیکن اس کو کبھی سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے جب کہ راہول گاندھی نے ایسا کیا ہے اور یوں اس نے عدلیہ کو کمزور کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔ چونکہ وہ ایک بااثر آل انڈیا پارٹی کے سربراہ ہیں لہٰذا انھیں اپنے اعمال میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی کو بھارتی سیاست کے پیچ و خم سے کچھ زیادہ آگاہی نہیں لیکن کم از کم وہ اپنے بیٹے کو یہ نصیحت تو کر ہی سکتی ہیں کہ وہ ملک کے آئین کا مکمل طور پر احترام کرے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)