اسلام کا انسانیت پر احسان

معاشی سطح پر اسلام نے تمام دولت کو خدا کی طرف سے ایک امانت قرار دیا اور معاشرے میں اس کی منصفانہ تقسیم کا حکم دیا۔


[email protected]

آج ہماری لغت میں احترام انسانیت اور آزادی مساوات کی اصلاحات کس کثرت سے استعمال ہوتی ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ان تصورات کے ارتقا میں کتنی صدیاں صرف ہوئی ہیں اور یہ کہ ظہور اسلام تک دنیا انسان کی بطور انسان قدر ومنزلت کے مفہوم تک سے یکسر نا آشنا تھی ۔ آقا و غلام، رنگ و نسل اور مذہبی عقائد کی تفریح و تقسیم نے انسان کو انسان سے جدا کر رکھا تھا اور جہل و استبداد نے انسانیت کو قصر مذلت میں دھکیل دیا تھا ۔

ایسے میں رب العالمین نے اپنے نبی و رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اس بوجھ سے مظلوم انسانیت کو نجات دلائیں جسے فراعنہ زمین نے ان پر مسلط کر رکھا تھا ۔ درحقیقت اسلام کا ظہور ذہن انسانی کی آزادی کی ابتدا تھی۔ رحمت عالم ﷺ نے تمام انسانیت کو خبردارکرتے ہوئے برملا اعلان فرمایا کہ خدا کی نظر میں نہ کوئی ذلیل ہے نہ شریف، نہ آقا ہے نہ غلام، نہ امیر ہے نہ فقیر، انسان اور انسان کے درمیان منزل و رتبے اور طبقوں کا فرق ایک نا انصافی ہے۔ جس کا تدارک لازمی ہے۔ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور کسی فرد کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں بجز اس کے اعمال کے۔

یہ انقلابی پیغام جہاں اکابر قوم کے لیے باعث غیض وغضب تھا وہاں صدیوں کے ٹھکرائے ہوئے مظلوم انسانوں کے لیے ایک نئی زندگی کا مژدہ بھی جس نے ان کی عزت نفس کو بحال کیا اور انھیں شرفِ انسانی سے نوازا کوئی تعجب نہیں ، رسول اﷲؐ پر ایمان لانے والوں میں بڑی تعداد غلاموں اور غریبوں کی تھی جنھوں نے قبول اسلام سے اشاعت اسلام تک دشمنان اسلام کے ہر طرح مظالم اور صعوبتیں برداشت کیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہاں تک کہ بالآخر حق باطل پر غالب آکر رہا اور باطل مٹ گیا۔

غلامی کا نظام انسانیت کی کھلی توہین تھی یہ نظام صدیوں میں مشرق ومغرب میں اس طرح جڑ پکڑگیا تھا کہ ارسطو جیسے عظیم مفکر نے بھی اسے ایک قدرتی ادارہ قرار دیا۔ اگرچہ اس مروجہ نظام کو یک لخت ختم کرنا ممکن نہ تھا تاہم اسلام نے اس پر ایسی حدود و قیوم لازم کردی جس سے اس کا ختم ہونا لازم ہوگیا۔ غلاموں کو آزاد کرنے اور اس مقصد کے لیے زکوٰۃ میں سے صرف کرنے کی ہدایت اور جنگی قیدیوں کو فدیہ دے کر رہا کرنے کی سنت یہ سب اس کے متقاضی تھے کہ اس نظام کو جلد از جلد بنیادی طور پر ختم کردیاجائے۔ رسول کریمؐ کی غلاموں پر شفقت محتاج بیان نہیں۔ آپؐ اور صحابہؓ ان کو آزاد کرانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔

جب آپؐ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تو آپؐ نے نہ درہم و دینار چھوڑے، نہ بکریاں اور اونٹ اور نہ کسی چیز کی وصیت کی اور آپؐ کے بعد حضرات ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی اس سنت کا اتباع کیا۔ لیکن غریبوں سے محبت اور ہمدردی کا منشا اسلام میں راہبانہ زندگی کی تائید نہ تھی بلکہ اس کا مقصد غریبوں اور امیروں کے درمیان تفاوت کو ختم کرنا تھا۔ اسلام میں نجس کا کوئی تصور نہیں جیساکہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ساری دنیا میرے لیے مسجد بنائی گئی ہے۔

اسلام میں چونکہ دین ودنیا دونوں کی فلاح مضمر ہے، لہٰذا ایک ایسے معاشرے کا تصور پیش کیا گیا جو حقیقی مساوات پر مبنی ہے اور یہی اسلامی ریاست کا بنیادی مقصد ہے۔ اس اجتماعی انصاف پر قائم اسلامی معاشرے کے سیاسی و معاشی خدوخال ہمیں واضح طور پر قرآن و سنت میںملتے ہیں ، اسلام نے موروثی بادشاہت کو ختم کرکے امت کی خلافت کا نظریہ پیش کیا اسلام میں ذاتی اقتدار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ انفرادی آزادی کی ضمانت قانون الٰہی ہے اور قانون الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے تمام مسلمان حاکم اور شہری برابرکے حقوق سے مستفید ہوتے ہیں۔

معاشی سطح پر اسلام نے تمام دولت کو خدا کی طرف سے ایک امانت قرار دیا اور معاشرے میں اس کی منصفانہ تقسیم کا حکم دیا۔ زکوٰۃ اور خیرات سے متعلق احکامات کسب حلال پر اصرار، وراثت کی تقسیم اور سود اور جوئے کی ممانعت ان سب کا مقصد زر پرستی کے رجحان اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے روکنا اور ایک منصفانہ نظام کی تشکیل تھی۔

رسول اکرمؐ کو اس بات کا احساس تھاکہ معاشی تحفظ کے بغیر حرمت انسانی کا تصور ناممکن ہے اور اخوت انسانی کی تکمیل کے لیے معاشرتی مساوات کے ساتھ مادی مساوات بھی لازمی ہے ۔ مہاجر اور انصار کے درمیان مواخات اسی اصول پر قائم کی گئی تھی۔ رسول اﷲؐ نے فرمایا ''خدا کی قسم تم مومن نہیں کہلاسکتے جب تک تم اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو'' اسلام میں احترام انسانی کا یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کل نوع انسانی کے لیے تھا اور ہمارے نبیؐ کو اﷲ تعالیٰ نے سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا۔ (الانبیا 107)

اسلام کے نزدیک صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انسان اﷲ کے بندے ہیں اور بحیثیت انسان ان کا احترام ہم پر اتنا ہی واجب ہے جتنا کہ مسلمانوں کا، ''آدمیت'' اسلام کی نظر میں احترامِ آدمی ہے قرآن کی رو سے غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت مسلمانوں کے مساوی حیثیت رکھتی ہے اور خدا نے بار بار تنبیہ فرمائی کہ کہیں دشمن کی زیادتی مسلمانوں کو عدل و انصاف کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہ کردے۔

غیر مسلموں سے رواداری اور مساوات کے ضمن میں مسلمانوں کا سلوک انسانیت کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔ اسلام طرح توحید کے پیغام نے انسانیت کی وحدت کے لیے انجمن اقوام، اقوام متحدہ کے قیام سے صدیوں پیشتر ایک عالمی بنیاد پیش کی اسلام نے قوموں کے اس متفرق مجموعے کو ایک ایسی امت میں تبدیل کرکے جس کا اپنا مقام تھا، پہلی مرتبہ وحدت انسانی کا نمونہ پیش کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں