حکومتی کارکردگی محض تشہیر
سرکاری اسپتالوں کی حالت بدلی ہے نہ لوگوں کا وہاں علاج ہو رہا ہے بلکہ قوم کو بیمار کردیا گیا ہے۔
ملک بھر میں پنجاب کی جس ترقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی کا ذکر حمایت اور مخالفت میں ہوتا آرہا ہے، اس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ان ریمارکسنے سوال پیدا کر دیا ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی بد ترین قرار دی گئی ہے اور یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ 14 آنے کا کام نہیں کیا اورکہتے ہیں ہماری تعریف کرو ۔ چیف جسٹس نے پنجاب کے محکمہ صحت کو فلاپ قرار دیا اورکہا کہ ہم جس اسپتال میں گئے، اس کی حالت ابتر دیکھی ۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت بدلی ہے نہ لوگوں کا وہاں علاج ہو رہا ہے بلکہ قوم کو بیمار کردیا گیا ہے ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سرکاری اراضی سے متعلق ایک منتقلی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی کی صورتحال پر پورا ملک ہنستا ہے اور ہم کراچی کی وجہ سے شرمندہ ہوتے ہیں ۔ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ کا کہنا تھا کہ محکمہ روینیو میں بڑے بڑے ڈاکو بیٹھے ہیں اگر ہم نے سرکاری اراضی سے پابندی ہٹالی تو افسران جشن منائیں گے پھر حصہ بندیاں ہوں گی۔
اس موقعے پر جب ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کچھ کہنا چاہا تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کا ہر سرکاری افسر بادشاہ ہے جن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور آپ ہی ان کے دفاع کے لیے کھڑے ہوں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ جو سرکاری افسر اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے دو دو جہاز چارٹرڈ کرکے بیرون ملک جاتے ہیں۔
ان کے خلاف حکومت سندھ نے کیا کارروائی کی؟ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی درخواست کی سماعت کے دوران غیر قانونی تعمیرات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس باقر نے کہا کہ فٹبال گراؤنڈ پر عمارتیں بن گئیں ایک چائنا گراؤنڈ ہوتا تھا جہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کشمیر روڈ پر قائم شادی ہالز مسمار اور شہر کے تمام پارکوں سے تجاوزات اور سیاسی دفاتر ختم کرکے کھیلوں کے میدانوں کو بحال کیا جائے۔
سپریم کورٹ میں صرف کراچی اور لاہور کے معاملات پر فاضل ججوں کے اتنے سخت ریمارکس میڈیا میں آئے ہیں جب کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں میڈیا میں اپنی تشہیری مہم میں قوم کو اپنی مرضی کا رخ ہی دکھاتی رہی ہیں اور سپریم کورٹ نے دونوں حکومتوں کی خود ساختہ کارکردگی کا دوسرا رخ قوم کو دکھا دیا ہے جس کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور چیف جسٹس پاکستان کو کہنا پڑا ہے کہ جب ہم اسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں تو حکومتی اعتراض ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے کام کرنے چاہئیں جب کہ ہم اپنے کاموں کے ساتھ عوام کی خدمت کے دعویداروں کے بھی کام دیکھ رہے ہیں ۔
سندھ و پنجاب میں سرکاری معاملات میں جب سپریم کورٹ نے متعلقہ ذمے داروں کی سرزنش اور سرکاری وکیلوں کی جواب دہی شروع کی ہے تو حیرت انگیز معاملات سامنے آئے اور سپریم کورٹ کے ججوں کی سخت برہمی نظر آنے پر حکومت کی طرف سے جھوٹی صفائی پیش کیے جانے پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کارکردگی جلسوں میں پیش کی جاتی ہے مگر حقائق اس کے برعکس اور سرکاری دعوے غلط ہیں ۔ سپریم کورٹ سندھ ،کے پی کے،بلوچستان اور پنجاب کے حکومتی معاملات دیکھ رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے کے پی کے، کے معاملات بھی دیکھے ، ہر علاقے سے اتنے بگڑے معاملات سامنے آرہے ہیں کہ چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کی دیگر رجسٹریوں میں جانے کا موقعہ ہی نہیں مل رہا۔
سندھ اور پنجاب میں دس سالوں سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور عوام کے پی کے میں تحریک انصاف کی پانچ سالہ کارکردگی کے حقائق منظر عام پر آنے پر حیران ہیں کہ پنجاب و سندھ پر تنقید کرنے والے عمران خان کا بھی عوام کو پتا چل گیا ہے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ قوم کو پہلے کے پی کے میں بلین ٹریز کے معاملے کا ہی پتا چلا تھا جس کی تحقیقات شروع نہیں کی گئیں۔ سپریم کورٹ جب پشاور جاکر صوبائی معاملات دیکھتی ہے تو پی ٹی آئی حکومت کے اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بدلنے کے حقائق منظر عام پر آ گئے ہیں جب کہ بلوچستان میں تو نئی حکومت ہے جس کا سربراہ خود کو گزشتہ دونوں حکومتوں سے لاتعلق قرار دے سکتا ہے مگر نئی حکومت میں بھی وہی چہرے موجود ہیں جو ڈاکٹر مالک اور ثنا اللہ زہری حکومت میں شامل تھے ۔
حکومتی کارکردگی کی تشہیر ہر حکومت اپنا حق سمجھتی ہے کہ اس نے جو کام کیے ہیں ان کا عوام کو بتایا جاسکے اسی لیے اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات سرکاری خرچ پر دیے جاتے ہیں۔ وفاقی، پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اس میں پیش پیش رہی ہیں۔ وفاقی اشتہارات میں پہلے نواز شریف کی تصویر ہوتی تھی مگر اب موجودہ وزیر اعظم کی نہیں ہوتی جب کہ سندھ کے اشتہاروں میں بھٹو اور زرداری خاندان کی تصویروں کی بھرمار ہوتی تھی اور کے پی کے اشتہاروں میں عمران خان ضروری ہوتے تھے جب کہ بلوچستان حکومت والے میڈیا میں تشہیر کی بجائے صرف مال بنانے اور چھپانے پر یقین رکھتے ہیں جس کے سیکریٹری خزانہ ہی اپنے گھر میں کروڑوں روپے سمیت پکڑے گئے تھے اور وہاں ویسے بھی میڈیا کا اثر کم اور سرداروں اور قبیلوں کا زیادہ ہے۔
(ن) لیگی حکومت نومبر میں لوڈ شیڈنگ ختم ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی جس کی پول کھل گئی تو چیف جسٹس کے استفسار پر بتایا گیا کہ لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کم ہوئی ہے۔ سندھ حکومت خدمت میں سب سے آگے ہونے کے دعوے کر رہی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر پتا چلا کہ سندھ میں حکومتی کارکردگی کی تشہیر کم مگر بھٹو اور زرداری خاندان کی تشہیر زیادہ تھی۔ پنجاب میں خادم اعلیٰ کی تصویروں کے ساتھ کارکردگی نظر آتی تھی مگر وہ بھی اب سپریم کورٹ کی برہمی کی نذر ہوگئی ہے۔