وادی نیلم میں احتجاج
صدر زرداری نے ممبئی دہشت گردی میں غیر ریاستی اداکاروں Non State Actors...
وادی نیلم کشمیر کی ایک خوبصورت وادی ہے، سیاحت کے بعض ماہرین وادی نیلم کو دنیا کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ وادی نیلم 240 کلومیٹر طویل ہے۔ کاغان وادی کے متوازی مظفر آباد کے جنوب اور جنوبی مشرقی حصے سے شروع ہوتی ہے اور بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس وادی کے اطرف برف سے ڈھکے پہاڑوں کا منظر دل کو لبھانے والا ہوتا ہے۔
اس وادی میں بہنے والے دریائے نیلم میں پیدا ہونے والی مچھلیاں شکار کے اچھے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اس علاقے کا مظفر آباد سے فاصلہ صرف 155 کلومیٹر ہے، اس بنا پر سیاحت کا بہترین مرکز بن سکتا ہے۔ اس وادی میں 10 کے قریب سیاحی مراکز ہیں جن میں کندال، کوٹون، اسلکالہ آٹھ مقام ، اپرنیلم، لوئر نیلم قابل ذکر ہیں۔ وادی نیلم کی آبادی سوا لاکھ کے قریب ہے۔ وادی نیلم کے لوگوں نے گزشتہ اتوار انتہاپسند عناصر کی وادی میں دوبارہ سرگرمیوں کے خلاف ہڑتال کی۔
اس احتجاج کے دوران علاقے میں بازار اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں۔ نیلم وادی بار ایسوسی ایشن کے صدر میر گوہر رحمن اور آزادکشمیر کے سابق وزیر مفتی منصور الرحمن کی قیادت میں ایک سرکاری ٹیم کو انتہاپسند گروپوں کی خطرناک سرگرمیوں سے وادی میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کے مضمرات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ سرکاری ٹیم نے اعلیٰ حکام کو اس بارے میں کیا مشورے دیے مگر وادی نیلم کے شہریوں کا احتجاج کشمیر میں شہریوں کی سلامتی اور کنٹرول لائن کی صورتحال اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں انتہائی اہم حیثیت رکھتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور محکمہ وزارت دفاع پینٹا گون کے تیارکردہ روڈ میپ کے تحت افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں قائم ہونے والی عوامی حکومت کے خلاف بغاوت کے منصوبے میں شریک تھی۔
اس مقصد کے لیے پاکستان میں مذہبی تنظیموں کو رضاکار بھرتی کرنے کے لیے خطیر رقم فراہم کی گئی۔ دنیا بھر کے انتہا پسند مسلمانوں کو پاکستان اور افغانستان میں جمع کیاگیا، امریکی منصوبے کے تحت افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور افغان مجاہدین نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ جب افغانستان میں عوامی حکومت ختم ہوئی اور سوویت یونین تحلیل ہوگیا تو امریکا کی افغانستان میں دلچسپی ختم ہوگئی مگر پاکستانی پالیسی سازوں نے ان انتہاپسندوں کے ذریعے دنیا بھر پر غلبے کی حکمت عملی اپنائی۔
اس حکمت عملی کے تحت عرب، ازبک اور دوسرے انتہا پسند عرب ممالک امریکا، یورپ اور مشرق بعید کے ممالک میں پھیل گئے۔ پاکستانی جنگجوئوںکو بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کی آزادی کے مشن پر لگادیا گیا۔ لشکر طیبہ، جماعت اسلامی اور حرکۃ الانصار اور دوسری تنظیموں کے خیبر پختونخوا، پنجاب اور آزاد کشمیر کیمپ قائم ہوگئے اور ان کیمپوں سے تربیت یافتہ نوجوان کشمیر میں لڑائی لڑنے لگے۔ ان نوجوانوں کو پہاڑوں کو عبور کرکے اور دریائے نیلم پار کراکے مقبوضہ کشمیر میں داخل کرادیا جاتا تھا۔
بھارتی فوج نے اس مداخلت کو روکنے کے لیے بمباری اور فائرنگ کا طریقہ کار اختیار کیا، اب وادی نیلم دھماکوں اور موت کی وادی میں تبدیل ہوگئی اور وادی نیلم کے شہر اور گائوں میں ہر طرف موت کا راج ہوگیا۔ اس علاقے کے باشندے بتاتے ہیں کہ بھارتی فوج کئی کئی دنوں تک مسلسل بھاری توپ خانے سے بمباری کرتی تھی جس سے مکانات، سڑکیں، مساجد اور اسپتال تباہ ہوجاتے تھے۔ روزانہ کوئی دیہاتی اس فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوجاتا۔
اس علاقے کے لوگوں کا انحصار زراعت، غلہ بانی پر ہے۔ اس علاقے کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت پاکستان کے مختلف علاقوں، خلیجی ممالک، برطانیہ اور یورپ میں آباد ہیں۔ وادی میں بوڑھے بچے، ناخواندہ مرد اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ وادی کی خوبصورتی کی بنا پر سیاحوں کے لیے یہاں بڑی کشش تھی، بہت سے لوگوں کے ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کا انحصار باہر سے آنے والے سیاحوں پر تھا،
نوجوان ان سیاحوں کے گائیڈ کے طور پر کچھ کماتے تھے مگر انتہا پسندوں کی کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوششیں اور بھارتی فوج کی فائرنگ اور بمباری اور بارودی سرنگوں کے جال نے سب کچھ تباہ کردیا۔ بھارت مختلف بین الاقوامی فورمز پر اس دخل اندازی کے معاملے کو اٹھا کر پاکستان کو بدنام کرتا تھا۔
جنرل پرویز مشرف جب آگرہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو بھارتی وزیراعظم واجپائی نے اس دخل اندازی کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی کہ آگرہ کانفرنس آخری مرحلے میں ناکام ہوگئی۔ پرویز مشرف کو اجمیر شریف میں درگاہ پر حاضری دینے کے بعد ملک میں مایوس لوٹنا پڑا۔ جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو بھارت نے اس کا الزام ان مداخلت کاروں پر عائد کردیا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
جنرل پرویز مشرف نے پاکستان اور کشمیر میں انتہا پسندوں کے کیمپ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 26 نومبر 2003 کا دن وادی نیلم کے لوگوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس دن بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان کنٹرول لائن پر جنگ بندی ہوگئی۔ اس کا سب سے زیاد ہ فائدہ وادی نیلم کو ہوا۔ بھارتی فوج نے بمباری بند کردی، بارودی سرنگوں کو ناکارہ کردیا گیا، وادی نیلم میں زندگی دوبارہ معمول پر آگئی، بچے سکون سے اسکول جانے لگے اور بازار بلاخوف کھلنے لگے۔
بارودی سرنگیں ناکارہ کرنے سے چرواہوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے والے واقعات ختم ہوئے۔ جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے۔ اسی اثنا میں ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا۔ صدر زرداری نے ممبئی دہشت گردی میں غیر ریاستی اداکاروں Non State Actors کو ملوث قرار دیا۔ بعد میں بعض تحقیقات کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق سے صدر زرداری کے اس بیان کی تصدیق ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی کی انتہائی سطح کو عبور کرگئے۔
بھارت نے پاکستان سے بات چیت کے تمام چینلز بند کردیے۔ امریکا نے ممبئی دہشت گردی کے بارے میں بھارت کے موقف کی حمایت کی۔ شرم الشیخ میں وزیر اعظم من موہن سنگھ اور وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات میں دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے پر تیار ہوگئے۔ بھارت اور پاکستان میں دوبارہ رشتے استوار ہونے لگے، بھارت نے تو بہت عرصے پہلے پاکستان کو تجارتی میدان میں سب سے پسندیدہ ملک قرار دے دیا تھا، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو سہل بنانے اور دونوں ممالک کے شہریوں کی آمدورفت کے لیے آزاد ویزہ پر اتفاق ہوا۔
بھارت نے پاکستان کو بجلی کا بحران ختم کرنے میں مدد دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ گزشتہ مہینے دونوں ممالک کے افسروں نے ایک اجلاس میں اتفاق کیا کہ اکتوبر میں ان مقامات کا تعین کیا جائے گا جہاں سے بھارت پاکستان کو بجلی فراہم کرے گا، پاکستانیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی بھی اجازت دی گئی اور معاملات کو بہتر بنانے کے لیے دو پاکستانی بینکوں کو بھارت میں شاخیں قائم کرنے کی بھی اجازت مل گئی۔
اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس سال کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ اس مجموعی صورتحال میں جب بھارت اور پاکستان کے عوام کے رابطے بڑھ رہے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آگئے، اس تناظر میں وادی نیلم میں انتہا پسندوں کی سرگرمیاں اور وہاں کے عوام کا احتجاج ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ بات اس تناظر میں بھی اہم ہے کہ بھارت ممبئی کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔
ہمارے دوست سعودی عرب نے ابوجندال نامی بھارتی شہری کو بھارت کے حوالے کیا ہے جو مبینہ طور پر پاکستانی اداروں پر الزام عائد کررہا ہے اور امریکا مسلسل بھارت کے موقف کی حمایت کررہا ہے۔ اگر وادی نیلم میں کوئی گڑبڑ ہوئی تو بھارت اور امریکا کے مشترکہ موقف سے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ وادی نیلم کو امن کی وادی بنانا چاہیے، یہاں انتہا پسندوں کے مراکز کے بجائے سیاحتی مقامات قائم ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور خوشحالی آئے۔