سوات NA30 پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں اختلافات کا شکار
این اے 30 سے امیدوار انجینئر امیر مقام کو’’سبق‘‘ سکھانے کے لیے پی ایم ایل ن ہی کے ناراض کارکنان کوشش کررہے ہیں۔
SUKKUR:
ملک کے دیگرعلاقوں کی طرح سوات کے حلقہ این اے 30 اور پی کے 85 میں بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پرپہنچ گئی ہیں۔
ٹکٹ نہ ملنے پر مسلم لیگ (ن) میں شدید اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، حلقے میں مسلم لیگ (ن) واضح تین گروپوں میں بٹ گئی ہے، این اے 30 سے امیدوار انجینئر امیر مقام کو''سبق'' سکھانے کے لیے پی ایم ایل ن ہی کے ناراض کارکنان کوشش کررہے ہیں، اس حلقے سے جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فضل سبحان'اے این پی کے خورشید علی'پی ٹی آئی کے عدالت خان' کیوڈبلیوپی کے امجد خان'جے یوآئی کے مولانا حفیظ الرحمان،پی ایم اے پی کے مختیارخان یوسف زئی پی پی پی کے سید علاؤ الدین اور آزاد امیدوار شیربہادرایڈووکیٹ کے درمیان ٹاکرا ہوگا۔
پی کے 85 سے جماعت اسلامی کے بخت امین، اے این پی کے سید جعفر شاہ ' مسلم لیگ ن کے شرافت علی'پی پی پی کے ملک خورشید'پی ٹی آئی کے ملک نثار' جے یوآئی کے ملک آفتاب'کیوڈبلیوپی کے ملک دیدار حصہ لے رہے ہیں، جب کہ ملک جہانگیرکے مطابق امیر مقام نے پی کے 85 کا ٹکٹ میرٹ کے برعکس دیا ہے جوکہ ہمارا حق تھا اس سلسلے میں ہم چند دنوں میں اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔
ایک طرف پی کے 85 میں مسلم لیگ کے ناراض ملک برادران نے امیر مقام کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) ہی کے الحاج نیروز میاں بھی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے میدان میں کود پڑے ہیں اور امیر مقام کے خلاف بھرپور مہم شروع کر دی ہے۔اسی طرح پی پی پی کے ضلعی صدر سلیم الرحمان نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے پی پی پی بھی این اے 30 اور پی کے 85 میں شدید اختلافات کا شکار ہو گئی ہے، سلیم الرحمان کو ٹکٹ نہ ملنے پرکارکنوں میں شدیدغم وغصہ پایاجاتاہے، تحصیل کالام کی پارٹی تنظیم نے بھی سلیم الرحمان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔
یاد رہے کہ سلیم الرحمان سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر محبوب الرحمان کے فرزند ہیں جو این اے 30 سے مسلسل چار مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔دوسری جانب بعض پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ علاؤ الدین نے 2008ء کے الکیشن میں منتخب ہو کر علاقے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا اور پانچ سالہ اقتدار کے دوران حلقے سے غائب رہے، این اے 30 ہی میں پی ٹی آئی کے امیدوارعدالت خان کے خلاف بھی کارکن احتجاج پراترآئے ہیں، جبکہ پی کے 85 کا ٹکٹ ملک نثار خان کومل گیاہے۔ خالد خان'اورملک محمد اقبال ٹکٹ سے محروم ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ عدالت خان کامذکورہ حلقے سے کوئی تعلق نہیں لہذا ٹکٹ کسی متعلقہ حلقے کے امیدوارکودیناچاہیے۔
یاد رہے کہ 2002ء کے الیکشن میں این اے تیس سے ایم ایم اے کے مولانا فضل سبحان اور پی کے 85 سے ملک امیر زادہ (مرحوم) کامیاب ہوئے تھے۔ اب بھی دونوں حلقوں میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک موجود ہے اور پی پی پی، پی ٹی آئی اورمسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کا فائدہ بھی جماعت اسلامی ہی کوجائے گا، اس حلقے سے اے این پی میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات موجود تھے لیکن قائدین نے ناراض امیدواروں کو منا کر معاملہ حل کرلیاہے جس کی وجہ سے اب اے این پی بھی مضبوط پوزیشن میں آگئی ہے۔
قومی اسمبلی کے امیدوار خورشید خان اور صوبائی کے سید جعفر شاہ حلقے میں 27 ارب کی لاگت سے ترقیاتی منصوبوں کے دعوے کر رہے ہیں اور پر امید نظر آرہے ہیں، لیکن دوسری طرف مخالفین بھی سابق حکمران جماعتوں پر مہنگائی' کرپشن'بدعنوانی اورلوڈشیڈنگ، کے الزامات لگا رہے ہیں۔کالام روڈ کی عدم تعمیر' متاثرین سیلاب کو وطن کارڈز کی عدم فراہمی، تباہ شدہ تعلیم اورصحت کے مراکز کی تعمیرنو، اے این پی کے امیدواران کو لے ڈوبیں گے۔
اس طرح جے یوآئی (ف) نے این اے 30 کے لئے مولانا حفیظ الرحمان جبکہ پی کے 85 کے لئے ملک آفتاب آف اتروڑ کو ٹکٹ جاری کیا ہے ان حلقوں میں جے یوآئی کا ووٹ بنک بھی موجود ہے اور پی کے 85 کے امیدوار ملک آفتاب کا تعلق بھی تحصیل کالام سے ہے جس کی وجہ سے وہ مقابلے کی دوڑمیں شامل ہیں، جبکہ این اے 30 میں جے یوآئی کی پوزیشن کمزور دکھائی دے رہی۔
قومی وطن پارٹی نے این اے 30 سے امجد خان اور پی کے 85 سے سابق صوبائی وزیر ملک دیدار کو امیدواران نامزد کر دیا ہے، ملک دیدار کا تعلق بحرین سے ہے اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کی ہیٹرک بھی مکمل کرلی ہے وہ 1997ء کے الیکشن میں اے این پی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پی پی پی میں شامل ہوئے تھے اورصوبائی وزیر برائے آثار قدیمہ رہے۔ بعد میں پی پی پی (ش) میں شمولیت اختیارکی اور حال ہی میں چند ہفتے قبل مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔
اب ٹکٹ نہ ملنے پر قومی وطن پارٹی میں شمولیت اختیارکرلی اور پی کے 85 سے کیو ڈبلیو پی کے امیدوار نامزد ہوگئے ہیں، حلقہ این اے 30 میں آزاد سمیت سیاسی پارٹیوں کے نامزد 40 امیدواروں اور پی کے 85 میں آزاد سمیت 23 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔این اے 30 اور پی کے 85 کے حلقے پہاڑی اور دشوار گزار علاقے ہیں،مگر سیاحت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں اصل مقابلہ جماعت اسلامی، اے این پی ' مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان ہوگا۔
ملک کے دیگرعلاقوں کی طرح سوات کے حلقہ این اے 30 اور پی کے 85 میں بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پرپہنچ گئی ہیں۔
ٹکٹ نہ ملنے پر مسلم لیگ (ن) میں شدید اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، حلقے میں مسلم لیگ (ن) واضح تین گروپوں میں بٹ گئی ہے، این اے 30 سے امیدوار انجینئر امیر مقام کو''سبق'' سکھانے کے لیے پی ایم ایل ن ہی کے ناراض کارکنان کوشش کررہے ہیں، اس حلقے سے جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فضل سبحان'اے این پی کے خورشید علی'پی ٹی آئی کے عدالت خان' کیوڈبلیوپی کے امجد خان'جے یوآئی کے مولانا حفیظ الرحمان،پی ایم اے پی کے مختیارخان یوسف زئی پی پی پی کے سید علاؤ الدین اور آزاد امیدوار شیربہادرایڈووکیٹ کے درمیان ٹاکرا ہوگا۔
پی کے 85 سے جماعت اسلامی کے بخت امین، اے این پی کے سید جعفر شاہ ' مسلم لیگ ن کے شرافت علی'پی پی پی کے ملک خورشید'پی ٹی آئی کے ملک نثار' جے یوآئی کے ملک آفتاب'کیوڈبلیوپی کے ملک دیدار حصہ لے رہے ہیں، جب کہ ملک جہانگیرکے مطابق امیر مقام نے پی کے 85 کا ٹکٹ میرٹ کے برعکس دیا ہے جوکہ ہمارا حق تھا اس سلسلے میں ہم چند دنوں میں اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔
ایک طرف پی کے 85 میں مسلم لیگ کے ناراض ملک برادران نے امیر مقام کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) ہی کے الحاج نیروز میاں بھی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے میدان میں کود پڑے ہیں اور امیر مقام کے خلاف بھرپور مہم شروع کر دی ہے۔اسی طرح پی پی پی کے ضلعی صدر سلیم الرحمان نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے پی پی پی بھی این اے 30 اور پی کے 85 میں شدید اختلافات کا شکار ہو گئی ہے، سلیم الرحمان کو ٹکٹ نہ ملنے پرکارکنوں میں شدیدغم وغصہ پایاجاتاہے، تحصیل کالام کی پارٹی تنظیم نے بھی سلیم الرحمان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔
یاد رہے کہ سلیم الرحمان سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر محبوب الرحمان کے فرزند ہیں جو این اے 30 سے مسلسل چار مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔دوسری جانب بعض پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ علاؤ الدین نے 2008ء کے الکیشن میں منتخب ہو کر علاقے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا اور پانچ سالہ اقتدار کے دوران حلقے سے غائب رہے، این اے 30 ہی میں پی ٹی آئی کے امیدوارعدالت خان کے خلاف بھی کارکن احتجاج پراترآئے ہیں، جبکہ پی کے 85 کا ٹکٹ ملک نثار خان کومل گیاہے۔ خالد خان'اورملک محمد اقبال ٹکٹ سے محروم ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ عدالت خان کامذکورہ حلقے سے کوئی تعلق نہیں لہذا ٹکٹ کسی متعلقہ حلقے کے امیدوارکودیناچاہیے۔
یاد رہے کہ 2002ء کے الیکشن میں این اے تیس سے ایم ایم اے کے مولانا فضل سبحان اور پی کے 85 سے ملک امیر زادہ (مرحوم) کامیاب ہوئے تھے۔ اب بھی دونوں حلقوں میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک موجود ہے اور پی پی پی، پی ٹی آئی اورمسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کا فائدہ بھی جماعت اسلامی ہی کوجائے گا، اس حلقے سے اے این پی میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات موجود تھے لیکن قائدین نے ناراض امیدواروں کو منا کر معاملہ حل کرلیاہے جس کی وجہ سے اب اے این پی بھی مضبوط پوزیشن میں آگئی ہے۔
قومی اسمبلی کے امیدوار خورشید خان اور صوبائی کے سید جعفر شاہ حلقے میں 27 ارب کی لاگت سے ترقیاتی منصوبوں کے دعوے کر رہے ہیں اور پر امید نظر آرہے ہیں، لیکن دوسری طرف مخالفین بھی سابق حکمران جماعتوں پر مہنگائی' کرپشن'بدعنوانی اورلوڈشیڈنگ، کے الزامات لگا رہے ہیں۔کالام روڈ کی عدم تعمیر' متاثرین سیلاب کو وطن کارڈز کی عدم فراہمی، تباہ شدہ تعلیم اورصحت کے مراکز کی تعمیرنو، اے این پی کے امیدواران کو لے ڈوبیں گے۔
اس طرح جے یوآئی (ف) نے این اے 30 کے لئے مولانا حفیظ الرحمان جبکہ پی کے 85 کے لئے ملک آفتاب آف اتروڑ کو ٹکٹ جاری کیا ہے ان حلقوں میں جے یوآئی کا ووٹ بنک بھی موجود ہے اور پی کے 85 کے امیدوار ملک آفتاب کا تعلق بھی تحصیل کالام سے ہے جس کی وجہ سے وہ مقابلے کی دوڑمیں شامل ہیں، جبکہ این اے 30 میں جے یوآئی کی پوزیشن کمزور دکھائی دے رہی۔
قومی وطن پارٹی نے این اے 30 سے امجد خان اور پی کے 85 سے سابق صوبائی وزیر ملک دیدار کو امیدواران نامزد کر دیا ہے، ملک دیدار کا تعلق بحرین سے ہے اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کی ہیٹرک بھی مکمل کرلی ہے وہ 1997ء کے الیکشن میں اے این پی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پی پی پی میں شامل ہوئے تھے اورصوبائی وزیر برائے آثار قدیمہ رہے۔ بعد میں پی پی پی (ش) میں شمولیت اختیارکی اور حال ہی میں چند ہفتے قبل مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔
اب ٹکٹ نہ ملنے پر قومی وطن پارٹی میں شمولیت اختیارکرلی اور پی کے 85 سے کیو ڈبلیو پی کے امیدوار نامزد ہوگئے ہیں، حلقہ این اے 30 میں آزاد سمیت سیاسی پارٹیوں کے نامزد 40 امیدواروں اور پی کے 85 میں آزاد سمیت 23 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔این اے 30 اور پی کے 85 کے حلقے پہاڑی اور دشوار گزار علاقے ہیں،مگر سیاحت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں اصل مقابلہ جماعت اسلامی، اے این پی ' مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان ہوگا۔