اوکاڑہ NA147 میاں منظور وٹو اور معین وٹو میں ملی بھگت کی قیاس آرائیاں
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ این اے 147 پر ملک وقار احمد نول اور پی پی 193 پر میاں جاوید مہار متوقع امیدوار ہیں
حلقہ این اے 147 ضلع اوکاڑہ کے قصبہ حویلی لکھا اورنواحی دیہات پرمشتمل ہے۔
ملک بھر میں جو ں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ، سیاسی ماحول میں گرماگرمی آتی جارہی ہے۔مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یہاں ون ٹو ون مقابلہ ہوگا ۔جبکہ تحریک انصاف صرف فرسٹ انٹری کی حد تک محدود رہے گی۔اس حلقے میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدرسابق وزیراعلیٰ میاں منظوروٹوامیدوارہیں،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن دھڑے بندی کا شکارہے ۔
این اے 147 اور پی پی 193 کی نشستیں ایسی ہیں جہاں سے میاں منظور احمد وٹو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا جبکہ دوسری طرف ان کے سیاسی حریف سابق وفاقی وزیرمیاں یاسین وٹو مرحوم کے جان نشین میاں معین احمد وٹو ہیں جو 2008ء کے انتخابات میں این اے 147سے میاں منظوراحمدوٹوکے بیٹے خرم جہانگیر وٹو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر79 ہزار195ووٹ لیکرمنتخب ہوئے تھے ان کے قریب ترین حریف میاں ظفریاسین وٹورہے تھے جنہیں 15ہزار965ووٹ ملے تھے۔
2002 کے انتخابات میں اس حلقے سے میاں منظوروٹوکی صاحبزادی روبینہ شاہین وٹونے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی تھی۔انہیں 70ہزار774ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مدمقابل قریب ترین حریف نیشنل پیپلزپارٹی ورکرزگروپ کے زرین اخترقادری رہے تھے جنہیں دو ہزار 199ووٹ ملے تھے۔ اس حلقے میں پنجاب اسمبلی کے دوحلقے پی پی193 اورپی پی 188 آتے ہیں۔ 2008 ء کے انتخابات میں پی پی193 سے میاں معین وٹو ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں۔این اے 147 پرعلاقہ کے وڈیرے زمیندار کافی اہم کر دار ادا کرتے ہیں جو زیادہ ترمیاں منظور احمد وٹو کے ساتھ ہیں۔
ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن گروپ بندی کا شکار ہے۔ سابق ایم پی اے دیوان اخلاق پی پی 193 پر ن لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں لیکن میاں معین وٹو انہیں قبول نہیں کررہے بلکہ اس نشست پربھی خود الیکشن لڑناچاہتے ہیں یااپنی مرضی کا امیدوارلاناچاہتے ہیں۔دیوان اخلاق علاقہ کی مشہور سیاسی شخصیت ہیں اور ایک ریڑی بان سے لیکر کارخانہ دار تک کی خواہش ہے کہ پی پی 193 پر اگر کوئی امیدوار فٹ آتا ہے یا جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ دیوان اخلاق احمد ہیں جو میاں منظور احمد وٹو کا سخت مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کی جگہ کوئی اور امیدوار لایا جاتا ہے یا میاں معین احمد وٹو خود الیکشن لڑتے ہیں تو منظور احمد وٹو کیلئے یہ نشست جیتنا آسان ہو جائیگا۔دیوان اخلاق احمد دو مرتبہ پی پی193 پر الیکشن لڑ چکے ہیں جس میں ایک بار انہوں نے منظور احمد وٹو کے کزن نسیم احمد وٹو کو ہرایا اور دوسری بار 1998ء کے الیکشن کے الیکشن میں منظور احمد وٹو اورمعین احمد وٹو دونوں کا مقابلہ کیا اور 18151 ووٹ حاصل کئے،اب اگر ن لیگ ان کو ٹکٹ نہیں دیتی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے آسانی ہوجائیگی کیونکہ دیوان اخلاق احمد سرنڈر کرنے کے بجائے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔
اگر وہ الیکشن جیتتے نہیں تو ن لیگ کے لیے پریشانی اور پیپلز پارٹی کے لیے آسانیاں ضرور پیدا کریں گے۔دوسری طرف شاہ مقیم گروپ اور یاسین وٹو گروپ میں صلح تو ہو گئی لیکن یہ صرف دکھلاوے اور اپنی اپنی ضرورتوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ شاہ مقیم گروپ کو اپنی آبائی نشست پی پی 187 پر میاں منظور احمد وٹو کی صاحبزادی جہاں آراء کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے میاں معین احمد وٹو کی سیاسی حمایت کی ضرورت ہے اگر معین وٹو گروپ ،اس نشست پرشاہ مقیم گروپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو یہ نشست بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیت سکتی ہے جو کہ سید افضال علی شاہ گیلانی کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ بالکل اسی طرح شاہ مقیم گروپ پی پی 188 میں کافی اثرو رسوخ رکھتا ہے اور معین وٹو کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسی لئے انہوں نے پہل کرتے ہوئے معین احمد وٹو کو یہ یقین دلایا ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ چاہیں تو این اے 147 اور اس کے دونوں صوبائی ونگزپی پی 193پی پی ,188 پر اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔دوسری طرف شاہ مقیم گروپ نے اپنے دیرینہ سیاسی ساتھی دیوان اخلاق احمد کو بھی یقین دلایا کہ آپ پی پی 193 پر الیکشن لڑیں گے اور اس کی سفارش بھی شریف برادران سے کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان نشستوں پر اپنے امیدواروں کااعلان کردیاہے،این اے 147 پر منظور احمد وٹو، پی پی 193 پر ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو جبکہ پی پی 188 پربھی منظور احمد وٹو ہی لڑیں گے، روبینہ شاہین وٹو اور نواب خان کلس کورنگ امیدوار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ این اے 147 پر ملک وقار احمد نول اور پی پی 193 پر میاں جاوید مہار متوقع امیدوار ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ان نشستوں پر ابھی تک اپنے امیدوار فائنل نہیں کیے جس کی وجہ سے نہ تو کوئی امیدوار انتخابی مہم کیلئے نکلا ہے اور نہ ہی ووٹرز کیلئے کوئی صورتحال واضح ہورہی ہے۔انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق منظور احمد وٹو اور معین احمد وٹو بظاہر تو ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں لیکن بیک ڈور چینل کے ذریعے ان کی کمٹمنٹ ہوچکی ہے کہ معین احمد وٹو قومی سیٹ پر منظور وٹو کو ووٹ دلوائیں گے جبکہ منظور وٹو صوبائی سیٹ پر ووٹ معین وٹو کو دلوائیں گے تاکہ دونوں کامیاب رہیں اور علاقہ میں کوئی تیسرا دھڑا قائم نہ ہونے پائے۔
تیسری طاقت کا خوف ہی دونوں حریفوں کو معاہد کا پابند رکھے گا۔لیکن اگر منظور وٹو اور معین وٹو ایمانداری سے اپنی اپنی پارٹی کی جیت کیلئے میدان میں نکلے تو ان کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور دونوں امیدوار 35000 سے زائد ووٹ نہ لے پائیں گے اور یوں دیوان اخلاق احمد آسانی سے یہ نشست جیت جائیں گے کیونکہ 1988 کے الیکشن میں منظور وٹو اور معین وٹو اکٹھے تھے تو دیوان اخلاق نے ان کے مقابلہ میں 18000 سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔
پی پی 188 پر 1998 کے الیکشن کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ ن کیلئے صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔سابقہ الیکشن میں منظور وٹو کی بیٹی محترمہ روبینہ شاہین وٹو آزاد حیثیت سے میدان میں اتریں تھیں جبکہ ان کے مدمقابل موجودہ امیدوار افتخار حسین چھچھر، فیاض وٹو، علی رضا بیگ اپنی نا اتفاقی کی وجہ سے ہار گئے تھے۔روبینہ شاہین وٹو نے 29252 ووٹ لئے جبکہ ان کے مدمقابل افتخار حسین چھچھر نے 16248، فیاض وٹو 15904 ،علی رضا بیگ8782 ووٹ حاصل کر پائے تھے اگر تینوں ا امیدوار اتحاد کرلیتے تو بڑی لیڈ سے جیت جاتے لیکن ایک پارٹی ہونے کے باوجود الگ الگ کھڑے ہو کر ہزیمت سے دوچار ہوئے۔
اب بھی صورتحال وہی ہے صرف تبدیلی یہ آئی ہے کہ روبینہ شاہین وٹو کی جگہ منظور احمد وٹو خود الیکشن لڑیں گے اور مدمقابل امیدوار اپنا متفقہ امیدوار نہیں لاتے تو پہلے سے بھی زیادہ مارجن سے ہاریں گے۔عوامی رائے کے مطابق اس حلقہ سے افتخار حسین چھچھر کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو یونین کونسل ڈھلیانہ، یونین کونسل موجوکے، یونین کونسل گڈرملکانہ،اور اسکی ملحقہ آبادیاں کھرل کلاں ،وجلانہ، فتیانہ، رام پرشاد، حصو کے نو آباد کے ووٹرز زیادہ تر جٹ برادری، کھرل برادری، اور آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں جوکہ افتخار حسین چھچھر کو سپورٹ کریں گے۔
اگر انہیں ٹکٹ نہیں ملتا تو یہ کونسلز منظور احمد وٹو کے ساتھ ہونگی،معتبر ذرائع کے مطابق فیاض خان کسی بھی وقت منظور وٹو گروپ کے ساتھ جا سکتے ہیں۔مبصرین کے مطابق اگر معین احمد وٹو تینوں نشستوں پر خود لڑنے کی ضد پر قائم رہے تو منظور احمد وٹو کیلئے سیٹیں جیتنا آسان ہو جائیگا کیونکہ نہ تو دیوان اخلاق احمد سرنڈر کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی افتخار حسین چھچھر۔اس صورتحال میں ووٹ تقسیم ہو جائیگا جو پیپلز پارٹی کی فتح اور ن لیگ کی شکست کا باعث ہوگا۔لیکن اگر قومی اسمبلی پر معین وٹو اور صوبائی ونگز پر دیوان اخلاق احمداور افتخار حسین چھچھر آ جاتے ہیں تو بڑے عرصے کے بعدعلاقے سے منظور وٹو کو ہرانے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
ملک بھر میں جو ں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ، سیاسی ماحول میں گرماگرمی آتی جارہی ہے۔مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یہاں ون ٹو ون مقابلہ ہوگا ۔جبکہ تحریک انصاف صرف فرسٹ انٹری کی حد تک محدود رہے گی۔اس حلقے میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدرسابق وزیراعلیٰ میاں منظوروٹوامیدوارہیں،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن دھڑے بندی کا شکارہے ۔
این اے 147 اور پی پی 193 کی نشستیں ایسی ہیں جہاں سے میاں منظور احمد وٹو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا جبکہ دوسری طرف ان کے سیاسی حریف سابق وفاقی وزیرمیاں یاسین وٹو مرحوم کے جان نشین میاں معین احمد وٹو ہیں جو 2008ء کے انتخابات میں این اے 147سے میاں منظوراحمدوٹوکے بیٹے خرم جہانگیر وٹو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر79 ہزار195ووٹ لیکرمنتخب ہوئے تھے ان کے قریب ترین حریف میاں ظفریاسین وٹورہے تھے جنہیں 15ہزار965ووٹ ملے تھے۔
2002 کے انتخابات میں اس حلقے سے میاں منظوروٹوکی صاحبزادی روبینہ شاہین وٹونے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی تھی۔انہیں 70ہزار774ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مدمقابل قریب ترین حریف نیشنل پیپلزپارٹی ورکرزگروپ کے زرین اخترقادری رہے تھے جنہیں دو ہزار 199ووٹ ملے تھے۔ اس حلقے میں پنجاب اسمبلی کے دوحلقے پی پی193 اورپی پی 188 آتے ہیں۔ 2008 ء کے انتخابات میں پی پی193 سے میاں معین وٹو ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں۔این اے 147 پرعلاقہ کے وڈیرے زمیندار کافی اہم کر دار ادا کرتے ہیں جو زیادہ ترمیاں منظور احمد وٹو کے ساتھ ہیں۔
ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن گروپ بندی کا شکار ہے۔ سابق ایم پی اے دیوان اخلاق پی پی 193 پر ن لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں لیکن میاں معین وٹو انہیں قبول نہیں کررہے بلکہ اس نشست پربھی خود الیکشن لڑناچاہتے ہیں یااپنی مرضی کا امیدوارلاناچاہتے ہیں۔دیوان اخلاق علاقہ کی مشہور سیاسی شخصیت ہیں اور ایک ریڑی بان سے لیکر کارخانہ دار تک کی خواہش ہے کہ پی پی 193 پر اگر کوئی امیدوار فٹ آتا ہے یا جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ دیوان اخلاق احمد ہیں جو میاں منظور احمد وٹو کا سخت مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کی جگہ کوئی اور امیدوار لایا جاتا ہے یا میاں معین احمد وٹو خود الیکشن لڑتے ہیں تو منظور احمد وٹو کیلئے یہ نشست جیتنا آسان ہو جائیگا۔دیوان اخلاق احمد دو مرتبہ پی پی193 پر الیکشن لڑ چکے ہیں جس میں ایک بار انہوں نے منظور احمد وٹو کے کزن نسیم احمد وٹو کو ہرایا اور دوسری بار 1998ء کے الیکشن کے الیکشن میں منظور احمد وٹو اورمعین احمد وٹو دونوں کا مقابلہ کیا اور 18151 ووٹ حاصل کئے،اب اگر ن لیگ ان کو ٹکٹ نہیں دیتی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے آسانی ہوجائیگی کیونکہ دیوان اخلاق احمد سرنڈر کرنے کے بجائے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔
اگر وہ الیکشن جیتتے نہیں تو ن لیگ کے لیے پریشانی اور پیپلز پارٹی کے لیے آسانیاں ضرور پیدا کریں گے۔دوسری طرف شاہ مقیم گروپ اور یاسین وٹو گروپ میں صلح تو ہو گئی لیکن یہ صرف دکھلاوے اور اپنی اپنی ضرورتوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ شاہ مقیم گروپ کو اپنی آبائی نشست پی پی 187 پر میاں منظور احمد وٹو کی صاحبزادی جہاں آراء کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے میاں معین احمد وٹو کی سیاسی حمایت کی ضرورت ہے اگر معین وٹو گروپ ،اس نشست پرشاہ مقیم گروپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو یہ نشست بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیت سکتی ہے جو کہ سید افضال علی شاہ گیلانی کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ بالکل اسی طرح شاہ مقیم گروپ پی پی 188 میں کافی اثرو رسوخ رکھتا ہے اور معین وٹو کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسی لئے انہوں نے پہل کرتے ہوئے معین احمد وٹو کو یہ یقین دلایا ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ چاہیں تو این اے 147 اور اس کے دونوں صوبائی ونگزپی پی 193پی پی ,188 پر اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔دوسری طرف شاہ مقیم گروپ نے اپنے دیرینہ سیاسی ساتھی دیوان اخلاق احمد کو بھی یقین دلایا کہ آپ پی پی 193 پر الیکشن لڑیں گے اور اس کی سفارش بھی شریف برادران سے کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان نشستوں پر اپنے امیدواروں کااعلان کردیاہے،این اے 147 پر منظور احمد وٹو، پی پی 193 پر ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو جبکہ پی پی 188 پربھی منظور احمد وٹو ہی لڑیں گے، روبینہ شاہین وٹو اور نواب خان کلس کورنگ امیدوار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ این اے 147 پر ملک وقار احمد نول اور پی پی 193 پر میاں جاوید مہار متوقع امیدوار ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ان نشستوں پر ابھی تک اپنے امیدوار فائنل نہیں کیے جس کی وجہ سے نہ تو کوئی امیدوار انتخابی مہم کیلئے نکلا ہے اور نہ ہی ووٹرز کیلئے کوئی صورتحال واضح ہورہی ہے۔انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق منظور احمد وٹو اور معین احمد وٹو بظاہر تو ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں لیکن بیک ڈور چینل کے ذریعے ان کی کمٹمنٹ ہوچکی ہے کہ معین احمد وٹو قومی سیٹ پر منظور وٹو کو ووٹ دلوائیں گے جبکہ منظور وٹو صوبائی سیٹ پر ووٹ معین وٹو کو دلوائیں گے تاکہ دونوں کامیاب رہیں اور علاقہ میں کوئی تیسرا دھڑا قائم نہ ہونے پائے۔
تیسری طاقت کا خوف ہی دونوں حریفوں کو معاہد کا پابند رکھے گا۔لیکن اگر منظور وٹو اور معین وٹو ایمانداری سے اپنی اپنی پارٹی کی جیت کیلئے میدان میں نکلے تو ان کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور دونوں امیدوار 35000 سے زائد ووٹ نہ لے پائیں گے اور یوں دیوان اخلاق احمد آسانی سے یہ نشست جیت جائیں گے کیونکہ 1988 کے الیکشن میں منظور وٹو اور معین وٹو اکٹھے تھے تو دیوان اخلاق نے ان کے مقابلہ میں 18000 سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔
پی پی 188 پر 1998 کے الیکشن کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ ن کیلئے صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔سابقہ الیکشن میں منظور وٹو کی بیٹی محترمہ روبینہ شاہین وٹو آزاد حیثیت سے میدان میں اتریں تھیں جبکہ ان کے مدمقابل موجودہ امیدوار افتخار حسین چھچھر، فیاض وٹو، علی رضا بیگ اپنی نا اتفاقی کی وجہ سے ہار گئے تھے۔روبینہ شاہین وٹو نے 29252 ووٹ لئے جبکہ ان کے مدمقابل افتخار حسین چھچھر نے 16248، فیاض وٹو 15904 ،علی رضا بیگ8782 ووٹ حاصل کر پائے تھے اگر تینوں ا امیدوار اتحاد کرلیتے تو بڑی لیڈ سے جیت جاتے لیکن ایک پارٹی ہونے کے باوجود الگ الگ کھڑے ہو کر ہزیمت سے دوچار ہوئے۔
اب بھی صورتحال وہی ہے صرف تبدیلی یہ آئی ہے کہ روبینہ شاہین وٹو کی جگہ منظور احمد وٹو خود الیکشن لڑیں گے اور مدمقابل امیدوار اپنا متفقہ امیدوار نہیں لاتے تو پہلے سے بھی زیادہ مارجن سے ہاریں گے۔عوامی رائے کے مطابق اس حلقہ سے افتخار حسین چھچھر کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو یونین کونسل ڈھلیانہ، یونین کونسل موجوکے، یونین کونسل گڈرملکانہ،اور اسکی ملحقہ آبادیاں کھرل کلاں ،وجلانہ، فتیانہ، رام پرشاد، حصو کے نو آباد کے ووٹرز زیادہ تر جٹ برادری، کھرل برادری، اور آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں جوکہ افتخار حسین چھچھر کو سپورٹ کریں گے۔
اگر انہیں ٹکٹ نہیں ملتا تو یہ کونسلز منظور احمد وٹو کے ساتھ ہونگی،معتبر ذرائع کے مطابق فیاض خان کسی بھی وقت منظور وٹو گروپ کے ساتھ جا سکتے ہیں۔مبصرین کے مطابق اگر معین احمد وٹو تینوں نشستوں پر خود لڑنے کی ضد پر قائم رہے تو منظور احمد وٹو کیلئے سیٹیں جیتنا آسان ہو جائیگا کیونکہ نہ تو دیوان اخلاق احمد سرنڈر کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی افتخار حسین چھچھر۔اس صورتحال میں ووٹ تقسیم ہو جائیگا جو پیپلز پارٹی کی فتح اور ن لیگ کی شکست کا باعث ہوگا۔لیکن اگر قومی اسمبلی پر معین وٹو اور صوبائی ونگز پر دیوان اخلاق احمداور افتخار حسین چھچھر آ جاتے ہیں تو بڑے عرصے کے بعدعلاقے سے منظور وٹو کو ہرانے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔