نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کا رابطہ بڑھائیں

کیا ووٹرز اپنی برادری کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد کو ترجیح دینے پر آمادہ ہو جائیں گے؟


Editorial April 15, 2013
الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو غیر جانبدار‘ پرامن بنانے اور فرقہ وارانہ اثر کو زائل کرنے کے لیے اب تک بہت اچھا کردار ادا کیاہے۔ فوٹو: فائل

SUKKUR: جیسے جیسے عام انتخابات قریب آرہے ہیں،الیکشن کمیشن کی ذمے داریوں میں اضافہ ہورہا ہے، ادھر الیکشن کمیشن نے ایک نیا ہدایت نامہ بھی جاری کیا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے اپنا ضابطہ اخلاق پہلے ہی جاری کرچکا ہے' بہرحال یہ سچ ہے کہ الیکشن میں فرقہ پرستی کو ہوا دینا اچھی بات نہیں ہے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اگر کوئی بات کی ہے تویہ مثبت ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔ بعض قوتیں پاکستان کے عوام کو قوم ، مسلک اور زبان کے ایشو پر تقسیم کرنے کے لیے عرصہ سے کوششیں کر رہی ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو تفرقہ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ووٹروں کو بھی چاہیے کہ وہ جمہوری نظام کو کامیاب بنانے کے لیے اہل امیدواروں کا انتخاب کریں اور کسی تعصب کی بنیاد پر ووٹ نہ دیں۔ پاکستان میں عام انتخابات میں برادری ازم بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پنجاب میں یہ کلچر زیادہ مضبوط ہے۔ یہاں بااثر افراد کامیابی کے لیے برادری کا کارڈ استعمال کرتے ہیں۔

ادھر قوم پرستی اور قبائلیت کے عنصر کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ کلچر بہت زیادہ ہے۔ سندھ میں وڈیرے بھی یہ کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں قوم پرست جماعتیں اپنے قوم پرستانہ نظریات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ کرتی ہیں اور ان کے حامی انھیں نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں ووٹ دیتے رہے ہیں۔ اس سے باہمی نفرتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں برادری کے نام پر بدعنوان امیدوار بھی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آتے رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو غیر جانبدار' پرامن بنانے اور فرقہ وارانہ اثر کو زائل کرنے کے لیے اب تک بہت اچھا کردار ادا کیاہے۔ الیکشن کمیشن اپنے ذمہ جو کام ہے، اسے احسن طریقے سے ادا کررہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن لڑنے والے امیدوار اور ووٹرزالیکشن کمیشن کی ہدایات کو فوری طور پر تسلیم کر لیں گے؟ کیا ووٹرز اپنی برادری کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد کو ترجیح دینے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ شاید فوری طور پر ایسا نہ ہو سکے۔

یہ ایک طویل المدتی منصوبہ ہے جس کے تحت ووٹرز کی اس حوالے سے باقاعدہ تربیت کی جانی چاہیے جس کے بعد ہی فرقہ واریت، قوم پرستی اور برادری ازم کے مضبوط جال سے باہر نکلنا ممکن ہو سکتا ہے۔ دیہات میں تو زیادہ تر امیدوار کارکردگی کے بجائے برادری کی بنیاد پر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں اب جب انتخابات کے انعقاد میں تھوڑا عرصہ باقی رہ گیا ہے کیا امیدوار اور ووٹر برادری ازم سے ہٹ کر کوئی دوسرا فیصلہ کر پائیں گے۔یہاں اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ لسانیت،قومیت اور صوبائیت کے نام پر امیدوار منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے اور آج بھی وہ اپنے حلقوں میں ہردلعزیز ہیں۔

کیا وہ اپنے انتخابی نعروں اور نظریات سے فوری طور پر منہ موڑ لیں گے۔ الیکشن کمیشن عام انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے مگر یہ تب ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب نگراں انتظامیہ قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرے۔ عام انتخابات کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے الیکشن کمیشن اور نگراں انتظامیہ کو اپنا باہمی رابطہ بڑھانا ہوگا۔ پولنگ عملے اور انتظامیہ کے درمیان بروقت رابطہ ہو اور جہاں کوئی گڑبڑ ہو وہاں سیکیورٹی اہلکار فوراً پہنچے تو عام انتخابات کا پرامن اور شفاف انعقاد ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ادھر ووٹرز کی تربیت کرتے ہوئے اس کا سیاسی شعور بلند کیا جائے۔

ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرنابھی جرم قرارہے۔ ملک بھر میں ہزاروں حلقے ہیں جہاں ٹرانسپورٹ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ مفت ہے یا نہیں ایک مشکل امر ہو گا۔ دوسری جانب خواتین کی ایک بڑی اکثریت کے پاس ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی موجود نہیں۔ بہت سے مرد اور خواتین بوڑھے اور کچھ معذور ہیں جو بذات خود پولنگ اسٹیشن تک جانے کی سکت نہیں رکھتے لہٰذا امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اگر انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ملے تو ووٹروں کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن تک جانے سے رہ جائے۔

اس لیے مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت کا تعین کرنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔ غربت اور معاشی مسائل بھی امیدواروں کی جیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں بعض حلقوں میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے امیدواروں کی حمایت اور پشت پناہی کی شکایات منظر عام پر آئیں اس لیے بدعنوانی کے اس عمل کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن نے یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ کسی امیدوار کے انتخاب میں کوئی سرکاری اہلکارمدد نہ کر سکے گا۔ الیکشن میں دہشت گردی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ دہشت گردوں نے سوات اور چار سدہ میں اے این پی کے رہنماؤں پر بم حملے کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

دہشت گردی کا سب سے زیادہ ممکنہ خطرہ بھی صوبہ خیبر پختون خوا میں ہے۔ اے این پی آج ان حملوں پر سراپا احتجاج ہے مگر اسے یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بم حملے اس کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا ہی ایک تسلسل ہیں۔ وہ اپنے دور حکومت میں تو تمام تر اختیارات کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو نہیں پاسکے اب نگراں حکومت یا الیکشن کمیشن کے لیے فوری طور پر ان پر قابو پانا کیسے ممکن ہے۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام کے تسلسل اور اس کی بقاء کے لیے آمدہ انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدار ہونا ناگزیر ہے ورنہ جمہوری اثرات عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ووٹروں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی طمع' لالچ یا دباؤ میں آئے بغیر حقیقی قیادت کا انتخاب کریں ورنہ ملک معاشی' توانائی کے بحران اور انتہا پسندی کے عفریت سے نجات نہیں حاصل کر سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں