فخرو بھائی کا لیپ ٹاپ
اس واردات کی تفصیل جاننے کے بعد محض یہی کہا جا سکتا ہے کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔
جس ملک میں دن دہاڑے ڈاکے پڑتے ہوں وہاں ایک لیپ ٹاپ چوری ہونے پر اتنا ہنگامہ کیوں ہوا؟ اس کی واحد وجہ تھی بریکنگ نیوز کی مشقِ ستم۔ ''چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کا لیپ ٹاپ چوری ہو گیا۔'' ایک نیوز چینل نے یہ خبر چلائی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے نیوز چینلز کی اسکرین پر یہی خبر چلنے لگی، چند منٹ میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے ایک بیان میں اس چوری کو بہت بڑا ''سانحہ'' قرار دے دیا، کچھ اور وقت گزرا تو جناب نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے بھی اس کا سخت نوٹس لیا اور متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔ انھوں نے یہیں پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ وزارتِ داخلہ اور صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حفاظتی انتظامات سخت کرنے اور مناسب تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کر دی۔ چوری کی اس ''سنگین'' واردات کی خبر پڑھنے، دیکھنے اور سننے کے بعد میرے دل سے ایک ہی دعا نکلی ''یا اللہ... الیکشن چوری ہونے سے بچا لے۔''
گھنٹے ڈیڑھ میں سارا منظر ہی بدل گیا۔ نگراں وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے بیان کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ واردات کی سنگینی میں کمی ہونے لگی۔ ٹی وی چینلوں پر خبر کچھ یوں تبدیل ہوئی۔ ''لیپ ٹاپ چیف الیکشن کمشنر کے صاحبزادے کا تھا۔'' ایک چینل نے تو یہ خبر بھی چلا دی کہ چوری ہونے والا لیپ ٹاپ چیف الیکشن کمشنر کا تھا نہ ان کے بیٹے کا بلکہ اس کا مالک ان کے بیٹے کا ملازم تھا۔'' اس خبر کے حوالے سے میں جتنی دیر چینل دیکھتا رہا، کنفیوژن بڑھتی رہی۔ یعنی درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ میری کنفیوژن اس وقت دور ہوئی جب کراچی سے رپورٹر نے خبر فائل کی۔ یہ خبر آپ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
''کلفٹن میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے بیٹے کے دفتر سے نامعلوم افراد لیپ ٹاپ چوری کر کے فرار ہو گئے، تفصیلات کے مطابق کلفٹن دو تلوار کے قریب چیف الیکشن کمشنر کے صاحبزادے طفیل ابراہیم کے دفتر میں چند نامعلوم افراد گھسے اور وہاں سے ایک لیپ ٹاپ اور 40 ہزار سے زائد رقم لے کر فرار ہو گئے۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ایس پی کلفٹن نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ طفیل ابراہیم کی لاء فرم کے دفتر میں یہ واردات ہوئی، اس دفتر کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق ہے نہ یہاں الیکشن کے حوالے سے کوئی حساس دستاویزات تھیں۔''
اس واردات کی تفصیل جاننے کے بعد محض یہی کہا جا سکتا ہے کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔ میڈیا ایسے چوہے روز نکالتا ہے ،حکومت نوٹس لیتی ہے اور سیاستدان دھواں دار بیان داغتے ہیں، شرمندہ کوئی نہیں ہوتا۔ یہ واردات شہرِ کراچی میں ہوئی جہاں کے لوگ امن اور سکون کو ترس گئے ہیں۔ اسی شہرِ قائد میں اتوار کے روز ہی معروف گلوکار علی حیدر کے گھر نامعلوم افراد نے فون کر کے 10 لاکھ روپے بھتہ طلب کر لیا یعنی بھتہ دو یا جان۔
بتایا گیا ہے کہ وزیرستان سے ایک فون آیا اور گلوکار کے اہلخانہ کو فوری طور پر رقم کا بندوبست کرنے کی دھمکی دی گئی۔ فون کرنے والے نے کہا اگر رقم کا فوری انتظام نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علی حیدر ان دنوں بھارت میں ہیں۔ کراچی میں قتل وغارت کا جو بازار گرم ہے اس کے سامنے یہ دو وارداتیں انتہائی معمولی نوعیت کی ہیں۔ جس شہر میں روزانہ لوگ مار دیئے جاتے ہوں، دن بھر کہیں نہ کہیں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہو وہاں اس طرح کی وارداتیں Routine Matter ہی قرار دی جا سکتی ہیں۔ میڈیا نے اتوار کو ہی لاہور میں ایک واردات کرکٹر شاہد آفریدی کے ساتھ بھی کر ڈالی۔
شاہد آفریدی نے نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کے بھائی عباس شریف کے انتقال پر تعزیت کے لیے شاہد آفریدی ان سے ملے ۔ چینلوں تک جیسے ہی اس ملاقات کی خبر پہنچی اسکرینوں پر یہ نیوز الرٹ چلنے لگا کہ شاہد آفریدی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ بے چارے کرکٹر کو ملاقات کے بعد یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ن لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور حکمران خواہ نگراں ہی ہوں کسی بھی واقعہ پر فوری ردعمل دینا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں، کبھی تفصیلات جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ ایک طرف چینل بریکنگ نیوز میں بازی لے جانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں تو دوسری طرف یہ ردعمل دینے والے بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے دوسروں سے پہلے نوٹس لیتے اور اظہار خیال کرتے ہیں۔ انھیں شاید یہ ڈر ہوتا ہے کہ کسی اور نے ان سے پہلے ردعمل دے دیا تو وہ آگے نکل جائے گا۔
فخرو بھائی کے لیپ ٹاپ چوری کا راز جلد کھل گیا ورنہ آپ دیکھتے کہ ہراینکر اپنے ٹاک شو میں تین چار سیاستدان بیٹھا کر ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لاتا کہ دل خوش ہوجاتا۔چند اینکرز اور سیاستدانوں نے بے دھڑک ایجنسیوں پر چڑھائی کردینی تھی۔کسی نے لیپ ٹاپ کا ڈیٹا بھارت، امریکا اور اسرائیل پہنچا دینا تھا۔ یوں ملک کی سالمیت خطرے میں پڑنے کے پورے امکانات تھے۔ چینلوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں ریٹنگ بڑھانے پر زیادہ بزنس ملنا ہوتا ہے۔
مگر یہ ارباب اختیار اور سیاستدان حضرات گناہِ بے لذت کیوں کرتے ہیں، یہ میری سمجھ سے باہر ہے... ہاں یاد آیا جب 2010 میں دورہ انگلینڈ کے دوران سلیمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگا تھا تو ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا یہ خبرسنتے ہی سرشرم سے جھک گیا تھا۔ ایک سینٹر ہوا کرتے تھے، اقبال محمد علی، وہ تواتنے غضبناک ہوئے ، فرمایا، یہ کھلاڑی پاکستان آئیں تو انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر ایئر پورٹ سے باہر لایا جائے۔ گیلانی صاحب جو ان دنوں پنجاب میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو لیڈ کر رہے ہیں۔
تب انھوں نے حقائق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ انھوں نے اپنا سر شرم سے جھکا کر آئی سی سی اور برطانیہ کو پیغام دے دیا کہ وہ تحقیقات کے بغیر ہی اپنے کھلاڑیوں کو مجرم تسلیم کرتے ہیں، بعد میں وہ خود بھی توہین عدالت کے مجرم ڈیکلئر کردیے گئے۔ سربراہ کسی پارٹی کا ہو یا ملک کا اس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ حقائق جانے بغیر اپنا ردعمل ظاہر کردے گا۔ ٹی وی چینلوں کو ریٹنگ کی دوڑ سے نکلنے میں ابھی وقت لگے گا۔
سیاستدانوں اور نگرانوں کو البتہ ردعمل دینے سے پہلے حقائق جاننے کی عادت ضرور ڈالنی پڑے گی۔لیپ ٹاپ کراچی سے چوری ہوا، ہر چوری کی ایک ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے، اگر ٹی وی کا رپورٹر اس مصدقہ ایف آئی آر کو پڑھ کر خبر دیتا تو سنسنی نہ پھیلتی۔نگراں وزیراعظم فوری نوٹس لینے سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ یا آئی جی سندھ سے رابطہ کرلیتے تو اچھا ہوتا، اسی طرح سیاستدان بھی سوچیں کہ ہر معاملے پر بیان جاری کرنا ، سیاست کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
لیپ ٹاپ کے چور کب پکڑے جاتے ہیں، پکڑے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ سیاست دان اور نگراں تحمل کا مظاہرہ کر پاتے ہیںیا نہیں، یہ انھیں پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ فی الحال اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ ''اللہ... الیکشن چوری ہونے سے بچائے!''
گھنٹے ڈیڑھ میں سارا منظر ہی بدل گیا۔ نگراں وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے بیان کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ واردات کی سنگینی میں کمی ہونے لگی۔ ٹی وی چینلوں پر خبر کچھ یوں تبدیل ہوئی۔ ''لیپ ٹاپ چیف الیکشن کمشنر کے صاحبزادے کا تھا۔'' ایک چینل نے تو یہ خبر بھی چلا دی کہ چوری ہونے والا لیپ ٹاپ چیف الیکشن کمشنر کا تھا نہ ان کے بیٹے کا بلکہ اس کا مالک ان کے بیٹے کا ملازم تھا۔'' اس خبر کے حوالے سے میں جتنی دیر چینل دیکھتا رہا، کنفیوژن بڑھتی رہی۔ یعنی درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ میری کنفیوژن اس وقت دور ہوئی جب کراچی سے رپورٹر نے خبر فائل کی۔ یہ خبر آپ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
''کلفٹن میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے بیٹے کے دفتر سے نامعلوم افراد لیپ ٹاپ چوری کر کے فرار ہو گئے، تفصیلات کے مطابق کلفٹن دو تلوار کے قریب چیف الیکشن کمشنر کے صاحبزادے طفیل ابراہیم کے دفتر میں چند نامعلوم افراد گھسے اور وہاں سے ایک لیپ ٹاپ اور 40 ہزار سے زائد رقم لے کر فرار ہو گئے۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ایس پی کلفٹن نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ طفیل ابراہیم کی لاء فرم کے دفتر میں یہ واردات ہوئی، اس دفتر کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق ہے نہ یہاں الیکشن کے حوالے سے کوئی حساس دستاویزات تھیں۔''
اس واردات کی تفصیل جاننے کے بعد محض یہی کہا جا سکتا ہے کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔ میڈیا ایسے چوہے روز نکالتا ہے ،حکومت نوٹس لیتی ہے اور سیاستدان دھواں دار بیان داغتے ہیں، شرمندہ کوئی نہیں ہوتا۔ یہ واردات شہرِ کراچی میں ہوئی جہاں کے لوگ امن اور سکون کو ترس گئے ہیں۔ اسی شہرِ قائد میں اتوار کے روز ہی معروف گلوکار علی حیدر کے گھر نامعلوم افراد نے فون کر کے 10 لاکھ روپے بھتہ طلب کر لیا یعنی بھتہ دو یا جان۔
بتایا گیا ہے کہ وزیرستان سے ایک فون آیا اور گلوکار کے اہلخانہ کو فوری طور پر رقم کا بندوبست کرنے کی دھمکی دی گئی۔ فون کرنے والے نے کہا اگر رقم کا فوری انتظام نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علی حیدر ان دنوں بھارت میں ہیں۔ کراچی میں قتل وغارت کا جو بازار گرم ہے اس کے سامنے یہ دو وارداتیں انتہائی معمولی نوعیت کی ہیں۔ جس شہر میں روزانہ لوگ مار دیئے جاتے ہوں، دن بھر کہیں نہ کہیں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہو وہاں اس طرح کی وارداتیں Routine Matter ہی قرار دی جا سکتی ہیں۔ میڈیا نے اتوار کو ہی لاہور میں ایک واردات کرکٹر شاہد آفریدی کے ساتھ بھی کر ڈالی۔
شاہد آفریدی نے نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کے بھائی عباس شریف کے انتقال پر تعزیت کے لیے شاہد آفریدی ان سے ملے ۔ چینلوں تک جیسے ہی اس ملاقات کی خبر پہنچی اسکرینوں پر یہ نیوز الرٹ چلنے لگا کہ شاہد آفریدی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ بے چارے کرکٹر کو ملاقات کے بعد یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ن لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور حکمران خواہ نگراں ہی ہوں کسی بھی واقعہ پر فوری ردعمل دینا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں، کبھی تفصیلات جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ ایک طرف چینل بریکنگ نیوز میں بازی لے جانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں تو دوسری طرف یہ ردعمل دینے والے بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے دوسروں سے پہلے نوٹس لیتے اور اظہار خیال کرتے ہیں۔ انھیں شاید یہ ڈر ہوتا ہے کہ کسی اور نے ان سے پہلے ردعمل دے دیا تو وہ آگے نکل جائے گا۔
فخرو بھائی کے لیپ ٹاپ چوری کا راز جلد کھل گیا ورنہ آپ دیکھتے کہ ہراینکر اپنے ٹاک شو میں تین چار سیاستدان بیٹھا کر ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لاتا کہ دل خوش ہوجاتا۔چند اینکرز اور سیاستدانوں نے بے دھڑک ایجنسیوں پر چڑھائی کردینی تھی۔کسی نے لیپ ٹاپ کا ڈیٹا بھارت، امریکا اور اسرائیل پہنچا دینا تھا۔ یوں ملک کی سالمیت خطرے میں پڑنے کے پورے امکانات تھے۔ چینلوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں ریٹنگ بڑھانے پر زیادہ بزنس ملنا ہوتا ہے۔
مگر یہ ارباب اختیار اور سیاستدان حضرات گناہِ بے لذت کیوں کرتے ہیں، یہ میری سمجھ سے باہر ہے... ہاں یاد آیا جب 2010 میں دورہ انگلینڈ کے دوران سلیمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگا تھا تو ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا یہ خبرسنتے ہی سرشرم سے جھک گیا تھا۔ ایک سینٹر ہوا کرتے تھے، اقبال محمد علی، وہ تواتنے غضبناک ہوئے ، فرمایا، یہ کھلاڑی پاکستان آئیں تو انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر ایئر پورٹ سے باہر لایا جائے۔ گیلانی صاحب جو ان دنوں پنجاب میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو لیڈ کر رہے ہیں۔
تب انھوں نے حقائق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ انھوں نے اپنا سر شرم سے جھکا کر آئی سی سی اور برطانیہ کو پیغام دے دیا کہ وہ تحقیقات کے بغیر ہی اپنے کھلاڑیوں کو مجرم تسلیم کرتے ہیں، بعد میں وہ خود بھی توہین عدالت کے مجرم ڈیکلئر کردیے گئے۔ سربراہ کسی پارٹی کا ہو یا ملک کا اس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ حقائق جانے بغیر اپنا ردعمل ظاہر کردے گا۔ ٹی وی چینلوں کو ریٹنگ کی دوڑ سے نکلنے میں ابھی وقت لگے گا۔
سیاستدانوں اور نگرانوں کو البتہ ردعمل دینے سے پہلے حقائق جاننے کی عادت ضرور ڈالنی پڑے گی۔لیپ ٹاپ کراچی سے چوری ہوا، ہر چوری کی ایک ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے، اگر ٹی وی کا رپورٹر اس مصدقہ ایف آئی آر کو پڑھ کر خبر دیتا تو سنسنی نہ پھیلتی۔نگراں وزیراعظم فوری نوٹس لینے سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ یا آئی جی سندھ سے رابطہ کرلیتے تو اچھا ہوتا، اسی طرح سیاستدان بھی سوچیں کہ ہر معاملے پر بیان جاری کرنا ، سیاست کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
لیپ ٹاپ کے چور کب پکڑے جاتے ہیں، پکڑے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ سیاست دان اور نگراں تحمل کا مظاہرہ کر پاتے ہیںیا نہیں، یہ انھیں پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ فی الحال اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ ''اللہ... الیکشن چوری ہونے سے بچائے!''