سیاست کو اپنے فطری بہائو پر بہنے دیں
تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ ن ، ہماری کسی سے ہمدردی ہے نہ بیزاری۔
KARACHI:
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے لیڈروں کے مابین تند وتیز پریس کانفرنسوں سے سیاسی ماحول خاصا مکدر ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح کے ذاتی الزامات تک معاملہ جا پہنچا،وہ افسوسناک ہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں جب خیراتی ادارے سال بھر کی امداد اور عطیات وصول کرتے ہیں ،
جان بوجھ کر ان دنوں میں شوکت خانم اسپتال پر حملہ کر کے عمران خان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اصل نقصان تو نادار مریضوں کا ہوگا۔ ہمارے ایڈیٹر اور سینئر کالم نگار ایاز خان نے درست لکھا کہ ن لیگ اب نوے کے عشرے کی طرح کی اینٹی عمران مہم چلا رہی ہے۔ سیاسی مصلحتیں کس قدر کوتاہ اندیش بنا دیتی ہیں۔
تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ ن ، ہماری کسی سے ہمدردی ہے نہ بیزاری۔ ہر ایک کی اپنی اہمیت اوراپنا کردار ہے۔ مسلم لیگ ایک اہم قومی جماعت ہے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے، اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے علاوہ ن لیگ ہی دوسری قومی جماعت ہے، اسی طرح بلوچستان میں اس کا ایک خاص کردار ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات مگر ضروراسے سمجھنی ہوگی کہ اب وقت بدل گیا ہے، اپنے سیاسی مخالفین کو صرف میڈیا مہم اور ''تیر اندازوں'' کی مدد سے نہیں دبایا جا سکتا، اس کے لیے سیاسی حربے ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ایک دوسرے پر عامیانہ سطح تک تنقید کرنا نامناسب ہے ،مگر اس غلط (شر) میں سے خیر یہ برآمد ہوا کہ ان دونوں جماعتوں کے غیر فطری اتحاد پر تلے افراد پسپا ہوگئے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے یہ بات بعض حلقوں کی جانب سے بار بار کہی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ مختلف سروے اور پولز کے علاوہ پچھلے انتخابات کے تجزیوںسے یہ ثابت کیا جاتا تھا کہ ہر انتخاب میں بھٹوکے حامیوں کے ووٹ تو متحد رہتے ہیں ،مگر مخالفوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔
اگر آنے والے انتخابات میں ایک بڑا اینٹی بھٹو اتحاد نہ بنا تو پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ جائے گی... وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات اتنی بار پڑھی اور سنی کہ کان پک گئے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے تجزیہ کار ہمیشہ ماضی میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں۔ نوے کے عشرے کا وسط آ چکا تھا، مگر وہ ستر کے عشرے میں ذہنی طور پر سفر کر رہے تھے، پرویز مشرف نے ان کے اس دائرے کو توڑا ، مگر اب دوبارہ سے وہ چالیس سال پرانی سیاست میں لوٹنا اور پوری قوم کو اپنے ساتھ دوبارہ اسی سیاسی تقسیم میں الجھانا چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے تین دلائل دیے جا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ رائٹ ونگ کا اتحاد بننا وقت کی ضرورت ہے۔ دوسرا وہی پرو بھٹو، اینٹی بھٹو والی رام کہانی، تیسرا پوائنٹ جو اب ذرا زیادہ زور شور سے بیان ہو رہا ہے، وہ یہ کہ محب وطن جماعتیں متحد ہو کر باصلاحیت، دیانت دار محب وطن امیدواروں کا انتخاب کریں تاکہ'' اچھے لوگ'' اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ رمضان میں اس قدر لمبے سیاسی تجزیے مناسب تو نہیں ،مگر ایک نظر ان تینوں نکات پر ڈال لیتے ہیں۔
٭ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں روایتی رائٹ لیفٹ کی سیاست ہی ختم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ کسی بھی اعتبار سے رائٹسٹ پارٹی ہے نہ تحریک انصاف۔ رائٹ ونگ ایک نظریے اور سوچ کا نام تھا ، جو اب ان مین اسٹریم پارٹیوں میں تو کم ازکم غائب ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن تینوں بڑی جماعتیں کم وبیش ایک جیسی نظریاتی سوچ کی حامل ہیں۔اگر چاہیں تو ان میں مسلم لیگ ق، ایم کیوایم اور اے این پی وغیرہ کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
نظریاتی انفرادیت اب کہیں پر نہیں بچی۔ ہماری تمام بڑی جماعتیں دل وجاں سے بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتی ہیں، ہمارے رائٹسٹ ہمیشہ اس کے مخالف رہے۔ یہ سب جماعتیں سیکولر لائف اسٹائل کی حامی ہیں، طالبانائزیشن کو کم کرنا چاہتی ہیں، اس مقصد کے لیے مغرب سے آنے والے ہر فارمولے کو آزمانے میں انھیں کوئی باک نہیں۔
اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا نظریہ جو ماضی میں رائٹسٹوں کو مرغوب تھا، اب اس سے تمام جماعتیں بیزار ہوچکیں۔ پروامریکا یا پروویسٹ سوچ کم وبیش ان سب میں جھلکتی ہے۔ تحریک انصاف البتہ پوری قوت سے افغانستان میں امریکی قبضے کے مخالف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تصور کو وہ بدلنا چاہتی ہے ،مگر باقی چیزوں میں ورکنگ ریلیشن رکھنا اس کی بھی مجبوری ہے۔
کیپیٹل ازم کی مخصوص تجارتی اور اکنامک پالیسیاں یہ سب جماعتیں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔کسی کے پاس کوئی ایسا فارمولہ نہیں کہ نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوں کو کس طرح آئوٹ آف دی وے جا کر ریلیف دیا جائے۔ مسلم لیگ ن نے اب نیا نعرہ ایجاد کیا ہے ، تبدیلی نہیں بہتری۔ تحریک انصاف البتہ تبدیلی کا نعرہ پورے زور شور سے لگاتی ہے،
مگر کیا کسی قسم کی ریڈیکل تبدیلی اس کے منشور میں ہے...؟ اس پر ابھی تیقن سے بات نہیں کی جا سکتی۔اس وقت معروف معنوں میں رائیٹ کی جماعت صرف جماعت اسلامی ہے یا پھر دفاع پاکستان کونسل کے بعض دھڑوں کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔اس لیے رائیٹ ونگ کے اتحاد والی بات تو خیالی ہی ہے۔
٭ پرو بھٹو ووٹ والی بات کا بھی اس بار حقیقی معنوں میں ٹیسٹ ہونا ہے۔ پہلے بھی کئی بار عرض کیا کہ آنیو الے انتخابات کا پچھلے الیکشنزکی بنیاد پر تجزیہ کرنا مناسب نہیں۔ اس الیکشن کی اپنی ڈائنامکس ہیں۔ جس طرح ستر کے الیکشن کی اپنی انفرادیت تھی، اس سے پہلے ویسا ہوا نہ بعد میں۔ اسی طرح اگلے انتخابات میں کئی فیکٹرزنئے ہوں گے۔
پہلی بار بھٹو خاندان کا کوئی فرد پیپلز پارٹی کو نہیں چلا رہا، پہلی بار پارٹی کوحکومت کرنے کو پانچ سال مل رہے ہیں، پہلی بار اس کی گورننس کے ''ثمرات '' پوری طرح عوام تک پہنچے ہیں۔ پھر کئی ملین نیا نوجوان ووٹر میدان میں آ چکا ہے۔ آنے والے انتخابات کا ٹرن آئوٹ بھی پچھلوں سے بہت زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ پہلی بار ایسے پڑھے لکھے طبقات بھی فعال ہوئے ہیں،جو برسوں سے الیکشن کا دن سو کر گزارتے تھے کہ ان کے خیال میں سیاست دان اس قابل ہی نہیں کہ انھیں ووٹ ڈالا جائے۔
اب یہ لوگ جلسوں میں آنے لگے ہیں۔ تحریک انصاف یہ کریڈٹ بہرحال لے سکتی ہے کہ اس نے ان طبقات کو متحرک کر دیا۔ ملتان کے انتخاب سے یہ نتیجہ نکالناغلط ہے کہ اینٹی پیپلز پارٹی ووٹ اکٹھا ہوجائے تو بہتر کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بیشتر حلقوں کی اپنی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ماہ پہلے ڈیرہ غازی خان میں ضمنی انتخابات ہوئے، وہاں پر پچھلی بار سردار فاروق لغاری نے چوالیس ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے،
ان سے دو تین ہزار کم ووٹ مسلم لیگ ن اور جماعت اہلحدیث کے مشترکہ امیدوار حافظ عبدالکریم نے لیے تھے ،جب کہ پیپلز پارٹی کے شبیر لغاری نے چونتیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ ضمنی انتخاب میں حافظ صاحب کے ووٹ اتنے رہے، فاروق لغاری کے فرزند کے ووٹ بیس بائیس ہزار بڑھ گئے اور شبیر لغاری کے چونتیس سے آدھے یعنی سترہ ہزار ووٹ رہ گئے۔اب اس حلقے میں تو ''رائیٹ ونگ'' کی آپس کی لڑائی تھی،مگر پیپلز پارٹی کے ووٹ آدھے کیوں رہ گئے ؟
اسی طرح سال بھر پہلے لودھراں کے ایک حلقے میں پیپلز پارٹی کے جعلی ڈگری والے نواب حیات اللہ ترین ضمنی الیکشن ہار گئے اور ان کے مخالف ن لیگ کے حمایتی اختر کانجو کے ووٹ آٹھ دس ہزار بڑھ گئے ۔ وہاں کیا ہوا تھا؟ اصل بات مقامی سیاست اور مقامی جوڑ توڑ کی ہے۔ البتہ سوئنگ ووٹر ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔
پانچ سات فیصد ووٹر آخری دنوں میں چلنے والی لہر کے مطابق اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ لہر تحریک انصاف پیدا کرتی ہے یا ن لیگ یا پھر پیپلز پارٹی، اسے ہی فائدہ ملے گا۔دیانت دار اہل امیدواروں کی بات بھی محض مذاق ہی ہے۔ اگر اس طرح کا غیر فطری اتحاد اگر ہو بھی گیا تو ''گیلانیوں'' کے مقابلے میں ''بوسنوں'' جیسے امیدوار ہی سامنے آئیں گے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اہل محب وطن دیانت دار امیدوار نہیں چاہتی ، انھیں تو الیکشن جیتنے والا گھوڑا چاہیے۔ یہی سامنے کی سیاسی حقیقت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سیاست کو اپنے فطری بہائو پر بہنے دینا چاہیے۔ ویسے بھی ووٹروں کی دانش پر بھروسہ اور ان کے فیصلے کا احترام کرناچاہیے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے، وہی حسن جس کا ہمیں سیاستدان دن رات بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ انٹیلی جنشیا کا اصل کام ووٹروں کی تربیت کرنا ہے۔ انھیں سیاسی وسماجی شعور دینا، بہتر کا انتخاب کرنا اور اپنے گروہی، برادری کے تعصبات سے اٹھ کر ووٹ دینے کا سلیقہ سکھانا ۔یہ آسان کام نہیں، ممکن ہے اس میں کچھ وقت زیادہ لگے ،مگر اس بنیاد پر آنے والی تبدیلی دیرپا اورٹھوس ہوگی۔ سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد سازی سیاستدانوں کا کام ہے ، لکھاریوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے لیڈروں کے مابین تند وتیز پریس کانفرنسوں سے سیاسی ماحول خاصا مکدر ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح کے ذاتی الزامات تک معاملہ جا پہنچا،وہ افسوسناک ہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں جب خیراتی ادارے سال بھر کی امداد اور عطیات وصول کرتے ہیں ،
جان بوجھ کر ان دنوں میں شوکت خانم اسپتال پر حملہ کر کے عمران خان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اصل نقصان تو نادار مریضوں کا ہوگا۔ ہمارے ایڈیٹر اور سینئر کالم نگار ایاز خان نے درست لکھا کہ ن لیگ اب نوے کے عشرے کی طرح کی اینٹی عمران مہم چلا رہی ہے۔ سیاسی مصلحتیں کس قدر کوتاہ اندیش بنا دیتی ہیں۔
تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ ن ، ہماری کسی سے ہمدردی ہے نہ بیزاری۔ ہر ایک کی اپنی اہمیت اوراپنا کردار ہے۔ مسلم لیگ ایک اہم قومی جماعت ہے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے، اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے علاوہ ن لیگ ہی دوسری قومی جماعت ہے، اسی طرح بلوچستان میں اس کا ایک خاص کردار ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات مگر ضروراسے سمجھنی ہوگی کہ اب وقت بدل گیا ہے، اپنے سیاسی مخالفین کو صرف میڈیا مہم اور ''تیر اندازوں'' کی مدد سے نہیں دبایا جا سکتا، اس کے لیے سیاسی حربے ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ایک دوسرے پر عامیانہ سطح تک تنقید کرنا نامناسب ہے ،مگر اس غلط (شر) میں سے خیر یہ برآمد ہوا کہ ان دونوں جماعتوں کے غیر فطری اتحاد پر تلے افراد پسپا ہوگئے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے یہ بات بعض حلقوں کی جانب سے بار بار کہی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ مختلف سروے اور پولز کے علاوہ پچھلے انتخابات کے تجزیوںسے یہ ثابت کیا جاتا تھا کہ ہر انتخاب میں بھٹوکے حامیوں کے ووٹ تو متحد رہتے ہیں ،مگر مخالفوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔
اگر آنے والے انتخابات میں ایک بڑا اینٹی بھٹو اتحاد نہ بنا تو پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ جائے گی... وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات اتنی بار پڑھی اور سنی کہ کان پک گئے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے تجزیہ کار ہمیشہ ماضی میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں۔ نوے کے عشرے کا وسط آ چکا تھا، مگر وہ ستر کے عشرے میں ذہنی طور پر سفر کر رہے تھے، پرویز مشرف نے ان کے اس دائرے کو توڑا ، مگر اب دوبارہ سے وہ چالیس سال پرانی سیاست میں لوٹنا اور پوری قوم کو اپنے ساتھ دوبارہ اسی سیاسی تقسیم میں الجھانا چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے تین دلائل دیے جا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ رائٹ ونگ کا اتحاد بننا وقت کی ضرورت ہے۔ دوسرا وہی پرو بھٹو، اینٹی بھٹو والی رام کہانی، تیسرا پوائنٹ جو اب ذرا زیادہ زور شور سے بیان ہو رہا ہے، وہ یہ کہ محب وطن جماعتیں متحد ہو کر باصلاحیت، دیانت دار محب وطن امیدواروں کا انتخاب کریں تاکہ'' اچھے لوگ'' اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ رمضان میں اس قدر لمبے سیاسی تجزیے مناسب تو نہیں ،مگر ایک نظر ان تینوں نکات پر ڈال لیتے ہیں۔
٭ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں روایتی رائٹ لیفٹ کی سیاست ہی ختم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ کسی بھی اعتبار سے رائٹسٹ پارٹی ہے نہ تحریک انصاف۔ رائٹ ونگ ایک نظریے اور سوچ کا نام تھا ، جو اب ان مین اسٹریم پارٹیوں میں تو کم ازکم غائب ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن تینوں بڑی جماعتیں کم وبیش ایک جیسی نظریاتی سوچ کی حامل ہیں۔اگر چاہیں تو ان میں مسلم لیگ ق، ایم کیوایم اور اے این پی وغیرہ کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
نظریاتی انفرادیت اب کہیں پر نہیں بچی۔ ہماری تمام بڑی جماعتیں دل وجاں سے بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتی ہیں، ہمارے رائٹسٹ ہمیشہ اس کے مخالف رہے۔ یہ سب جماعتیں سیکولر لائف اسٹائل کی حامی ہیں، طالبانائزیشن کو کم کرنا چاہتی ہیں، اس مقصد کے لیے مغرب سے آنے والے ہر فارمولے کو آزمانے میں انھیں کوئی باک نہیں۔
اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا نظریہ جو ماضی میں رائٹسٹوں کو مرغوب تھا، اب اس سے تمام جماعتیں بیزار ہوچکیں۔ پروامریکا یا پروویسٹ سوچ کم وبیش ان سب میں جھلکتی ہے۔ تحریک انصاف البتہ پوری قوت سے افغانستان میں امریکی قبضے کے مخالف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تصور کو وہ بدلنا چاہتی ہے ،مگر باقی چیزوں میں ورکنگ ریلیشن رکھنا اس کی بھی مجبوری ہے۔
کیپیٹل ازم کی مخصوص تجارتی اور اکنامک پالیسیاں یہ سب جماعتیں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔کسی کے پاس کوئی ایسا فارمولہ نہیں کہ نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوں کو کس طرح آئوٹ آف دی وے جا کر ریلیف دیا جائے۔ مسلم لیگ ن نے اب نیا نعرہ ایجاد کیا ہے ، تبدیلی نہیں بہتری۔ تحریک انصاف البتہ تبدیلی کا نعرہ پورے زور شور سے لگاتی ہے،
مگر کیا کسی قسم کی ریڈیکل تبدیلی اس کے منشور میں ہے...؟ اس پر ابھی تیقن سے بات نہیں کی جا سکتی۔اس وقت معروف معنوں میں رائیٹ کی جماعت صرف جماعت اسلامی ہے یا پھر دفاع پاکستان کونسل کے بعض دھڑوں کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔اس لیے رائیٹ ونگ کے اتحاد والی بات تو خیالی ہی ہے۔
٭ پرو بھٹو ووٹ والی بات کا بھی اس بار حقیقی معنوں میں ٹیسٹ ہونا ہے۔ پہلے بھی کئی بار عرض کیا کہ آنیو الے انتخابات کا پچھلے الیکشنزکی بنیاد پر تجزیہ کرنا مناسب نہیں۔ اس الیکشن کی اپنی ڈائنامکس ہیں۔ جس طرح ستر کے الیکشن کی اپنی انفرادیت تھی، اس سے پہلے ویسا ہوا نہ بعد میں۔ اسی طرح اگلے انتخابات میں کئی فیکٹرزنئے ہوں گے۔
پہلی بار بھٹو خاندان کا کوئی فرد پیپلز پارٹی کو نہیں چلا رہا، پہلی بار پارٹی کوحکومت کرنے کو پانچ سال مل رہے ہیں، پہلی بار اس کی گورننس کے ''ثمرات '' پوری طرح عوام تک پہنچے ہیں۔ پھر کئی ملین نیا نوجوان ووٹر میدان میں آ چکا ہے۔ آنے والے انتخابات کا ٹرن آئوٹ بھی پچھلوں سے بہت زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ پہلی بار ایسے پڑھے لکھے طبقات بھی فعال ہوئے ہیں،جو برسوں سے الیکشن کا دن سو کر گزارتے تھے کہ ان کے خیال میں سیاست دان اس قابل ہی نہیں کہ انھیں ووٹ ڈالا جائے۔
اب یہ لوگ جلسوں میں آنے لگے ہیں۔ تحریک انصاف یہ کریڈٹ بہرحال لے سکتی ہے کہ اس نے ان طبقات کو متحرک کر دیا۔ ملتان کے انتخاب سے یہ نتیجہ نکالناغلط ہے کہ اینٹی پیپلز پارٹی ووٹ اکٹھا ہوجائے تو بہتر کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بیشتر حلقوں کی اپنی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ماہ پہلے ڈیرہ غازی خان میں ضمنی انتخابات ہوئے، وہاں پر پچھلی بار سردار فاروق لغاری نے چوالیس ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے،
ان سے دو تین ہزار کم ووٹ مسلم لیگ ن اور جماعت اہلحدیث کے مشترکہ امیدوار حافظ عبدالکریم نے لیے تھے ،جب کہ پیپلز پارٹی کے شبیر لغاری نے چونتیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ ضمنی انتخاب میں حافظ صاحب کے ووٹ اتنے رہے، فاروق لغاری کے فرزند کے ووٹ بیس بائیس ہزار بڑھ گئے اور شبیر لغاری کے چونتیس سے آدھے یعنی سترہ ہزار ووٹ رہ گئے۔اب اس حلقے میں تو ''رائیٹ ونگ'' کی آپس کی لڑائی تھی،مگر پیپلز پارٹی کے ووٹ آدھے کیوں رہ گئے ؟
اسی طرح سال بھر پہلے لودھراں کے ایک حلقے میں پیپلز پارٹی کے جعلی ڈگری والے نواب حیات اللہ ترین ضمنی الیکشن ہار گئے اور ان کے مخالف ن لیگ کے حمایتی اختر کانجو کے ووٹ آٹھ دس ہزار بڑھ گئے ۔ وہاں کیا ہوا تھا؟ اصل بات مقامی سیاست اور مقامی جوڑ توڑ کی ہے۔ البتہ سوئنگ ووٹر ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔
پانچ سات فیصد ووٹر آخری دنوں میں چلنے والی لہر کے مطابق اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ لہر تحریک انصاف پیدا کرتی ہے یا ن لیگ یا پھر پیپلز پارٹی، اسے ہی فائدہ ملے گا۔دیانت دار اہل امیدواروں کی بات بھی محض مذاق ہی ہے۔ اگر اس طرح کا غیر فطری اتحاد اگر ہو بھی گیا تو ''گیلانیوں'' کے مقابلے میں ''بوسنوں'' جیسے امیدوار ہی سامنے آئیں گے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اہل محب وطن دیانت دار امیدوار نہیں چاہتی ، انھیں تو الیکشن جیتنے والا گھوڑا چاہیے۔ یہی سامنے کی سیاسی حقیقت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سیاست کو اپنے فطری بہائو پر بہنے دینا چاہیے۔ ویسے بھی ووٹروں کی دانش پر بھروسہ اور ان کے فیصلے کا احترام کرناچاہیے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے، وہی حسن جس کا ہمیں سیاستدان دن رات بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ انٹیلی جنشیا کا اصل کام ووٹروں کی تربیت کرنا ہے۔ انھیں سیاسی وسماجی شعور دینا، بہتر کا انتخاب کرنا اور اپنے گروہی، برادری کے تعصبات سے اٹھ کر ووٹ دینے کا سلیقہ سکھانا ۔یہ آسان کام نہیں، ممکن ہے اس میں کچھ وقت زیادہ لگے ،مگر اس بنیاد پر آنے والی تبدیلی دیرپا اورٹھوس ہوگی۔ سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد سازی سیاستدانوں کا کام ہے ، لکھاریوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔