الیکشن جیتنے کے چند جدید نسخے
انتخابی نظام میں یہ اصطلاح نوے کے عشرے میں داخل ہوئی جب نظریاتی سیاست کا چلن دم توڑ چکا تھا
اب وہ زمانہ گیا جب بھولے بھالے لوگ بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔
پولنگ بوتھ پر قبضہ کرلیتے تھے۔بیلٹ بکس چھین کر ٹھپے لگاتے تھے یا فائرنگ کرکے پہلے سے ہراساں ووٹروں کو دوڑا دیتے تھے۔بھلا کون ہے جو آج کے بے شرم کیمروں کے سامنے اپنی یا اپنی پارٹی یا امیدوار کی بدنامی مول لے گا۔
زمانہ بدل رہا ہے تو من پسند نتائج حاصل کرنے کے انداز کیوں نا بدلیں ؟مثلاً پہلے زمانے میں جب دو گروہوں میں انڈر اسٹینڈنگ ہوتی تھی تو ایک گروہ اپنے امیدوار کو دوسرے کے حق میں بٹھا دیتا تھا۔اب انڈر اسٹینڈنگ کے بجائے انڈر ہینڈ اسٹینڈنگ کا زمانہ ہے۔کسی کو کسی کے حق میں اپنا امیدوار بٹھانے کی ضرورت نہیں۔بس اتنا کیا جائے کہ جس مضبوط امیدوار کو جتوانا مقصود ہو اس کے سامنے اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر ایک کمزور سا گھوڑا کھڑا کردیا جائے۔پارٹی کارکنوں کی انا بھی محفوظ رہے گی کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا اور بالائی سطح پر بظاہر دونوں مخالف گروہوں کی قیادت کا مفاہمتی مقصد بھی پورا ہوجائے گا جس کا پھل الیکشن کے بعد سرکاری ٹھیکوں ، نوکریوں کے کوٹے، کمیشن اور عہدوں کی شکل میں برآمد ہوگا انشااللہ۔۔۔۔
اب آجائیے سیٹ ایڈجسٹمٹ کی جانب۔ انتخابی نظام میں یہ اصطلاح نوے کے عشرے میں داخل ہوئی جب نظریاتی سیاست کا چلن دم توڑ چکا تھا اور اس خلا کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فلسفے سے پر کیا گیا۔مطلب اس کا یہ ہے کہ سانپ اور نیولا بھلے ایک دوسرے کے جتنے بھی دشمن ہوں مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ شکار ایک ہوتا ہے اور کھانے والے دو۔ لہذا اس وقت سانپ اور نیولا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتے ہیں کہ اس جگہ اگر شکار دکھائی دیا تو تیرا اور اگر اس درخت کے دوسری طرف کوئی شکار دکھائی دیا تو وہ میرا۔لیکن اس عارضی انتظام کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری روایتی دشمنی ختم ہوگئی۔دشمنی اپنی جگہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اپنی جگہ۔
توقع یہ کی جاتی ہے کہ پولنگ والے دن ووٹر یا تو اپنی سواری پر پولنگ اسٹیشن پہنچے یا پھر امیدوار کی فراہم کردہ سواری کی سہولت استعمال کر لے۔چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو یہ تجربہ کامیاب ہے۔مگر بڑے شہروں میں جہاں فاصلے ، رش اور آلودگی زیادہ ہے اور کام پر آنے جانے میں ہی روزانہ اوسطاً چار چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔وہاں ایک عام ووٹر کے لیے پولنگ اسٹیشن تک پہنچنا اور پھر لمبی لمبی رینگتی قطاروں میں بھری دوپہر میں کھڑے ہو کر باری کا انتظار کرنا کسی مفت کی مصیبت سے کم نہیں۔
بڑے شہروں کی انھی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کراچی سمیت کچھ مقامات پر گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کی سہولت کا پائلٹ پروجیکٹ گذشتہ کئی سال سے جاری ہے اور بہت سے علاقوںمیں توقع سے زیادہ کامیاب بھی ہے۔اس پروجیکٹ کے دائرے میں آنے والے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پر بنفسِ نفیس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
محلے کا کوئی جانا پہچانا رضاکار آتا ہے اور ووٹر کا شناختی کارڈ پولنگ سے ایک رات پہلے لے جاتا ہے اور اگلے دن آپ کا ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔کئی علاقوں میں تو یہ پروجیکٹ اس قدر موثر ہے کہ آپ کو شناختی کارڈ دینے کی زحمت سے بھی محفوظ رکھا جاتا ہے۔پھر بھی اگر آپ کو شبہہ ہو تو خود جا کر پولنگ اسٹیشن پر تصدیق کرسکتے ہیں کہ آپ کا ووٹ کاسٹ ہوا یا نہیں۔۔۔۔
اس پروجیکٹ کا تصور کہاں سے آیا ؟ ایک رضاکار کے بقول اس کا تصور عید الضحیٰ کی قربانی سے آیا۔جیسے بڑے شہروں میں عام آدمی بکرا ڈھونڈنے ، قصائی تلاش کرنے اور مستحقین میں گوشت بانٹنے کی کھچ کھچ سے بچنے کے لیے ایدھی ٹرسٹ سمیت خیراتی اداروں کو قربانی کے پیسے دے دیتا ہے اور جانور کا بنا بنایا گوشت گھر پہنچ جاتا ہے۔اسی طرح ووٹر کو ووٹ کی زحمت سے بچانے کے لیے ہم گھر بیٹھے اس کا ووٹ ڈلوا دیتے ہیں۔ووٹر بھی خوش ہیں ، ہم بھی خوش۔۔جلنے والے جلتے رہیں۔
میں نے پوچھا کہ باقی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ اعتراض نہیں کرتے ؟ کہنے لگا سوچ ہے آپ کی۔بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی جہاں تم گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کررہے ہو تو ہماری طرف سے پولنگ کی نگرانی بھی تم ہی کرلو۔بھائی صاحب کیا ایسی پولیٹیکل انڈراسٹینڈنگ آپ کو کہیں اور دیکھنے کو ملے گی ؟؟ ظاہر ہے کہ میں نے یہی کہا ہوگا کہ قطعی نہیں۔۔۔۔
ایک طریقہ من پسند نتائج حاصل کرنے کا یہ بھی ہے کہ جن ووٹروں کے چہرے کے تاثرات یا گفتگو سے اندازہ ہوجائے کہ وہ آپ کے مخالف ہیں تو ان کے سامنے چار ورکر آپس میں گفتگو شروع کردیں۔
ریوالور ہے نا ؟
ہاں ہے۔تیرا کہاں ہے۔
اسرار لے کر گیا ہے۔مگر فکر کی بات نہیں سوزوکی میں چار کلاشنکوفیں رکھی ہیں۔۔
اس کے بعد ورکروں میں سے ایک اپنے موبائل فون سے دوسرے کے موبائل پر جھوٹ موٹ کی بیل مار دے اور دوسرا اپنے موبائل پر زور زور سے بولنا شروع کردے
ہاں۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔آنے دو سالوں کو۔۔۔۔ ابے تو ہم نے کیا چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔۔۔۔اتنی گولیاں ماریں گے کہ پچھواڑہ چھلنی ہوجائے گا۔۔۔۔
آپ دیکھیں گے کہ لائن میں جو لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے کھڑے ہیں ایسی خطرناک گفتگو سنتے ہی پہلے ان کی آنکھیں گول گول گھومیں گی۔پھر کھسر پھسر شروع ہوجائے گی اور پھر لوگ ادھر ادھر چور نگاہوں سے دیکھتے دیکھتے دھیرے دھیرے لائن سے کھسکنا شروع کردیں گے۔جو پھر بھی قطار میں کھڑے رہیں گے ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر آپ ہی کے حامی ہوں گے۔جب کہ کھسکنے والے راستے میں ملنے والے ووٹروں کو بتاتے جائیں گے۔۔کہاں جارہے ہو میاں۔۔۔وہاں تو جھگڑے کی تیاری ہورہی ہے۔۔۔۔ابے ووٹ کی ایسی تیسی۔۔آرام سے جا کر گھر بیٹھ۔۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )