دہشت گردوں کو ریسٹ ہاؤسوں میں رکھا جائے

ایسے نظریاتی مجاہدین کے احترام کے بجائے ان کے چہروں پر کپڑے ڈال کر انھیں پولیس موبائلوں میں لے جایا جارہا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari April 15, 2013
[email protected]

کراچی میں ہر روز بے گناہ لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، سارے شہر میں ایک کہرام برپا ہے، گلی گلی سے جنازے اٹھ رہے ہیں، مارے جانے والے لوگوں کے گھروں میں گریہ و زاری سے آسمان لرز رہا ہے، ٹی وی پر یہ گریہ و زاری، آہ و بکا اور سینہ کوبی کے مناظر دیکھ کر دل دہل جاتے ہیں، جس طرح ہر روز درجنوں بے گناہ انسان دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار بن رہے ہیں اسی طرح ہر روز درجنوں ٹارگٹ کلر اور دہشت گردوں کی گرفتاریوں کی خبریں بھی میڈیا پر آرہی ہیں۔

ٹی وی اسکرین پر ٹارگیٹڈ آپریشن کے مناظر بھی دکھائے جارہے ہیں اور گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے چہروں پر کپڑے ڈال کر انھیں پولیس موبائل میں بٹھاتے اور لے جاتے دکھایا جارہا ہے، ان آپریشنوں میں گنہگاروں کے علاوہ بے گناہ لوگ بھی پکڑے جارہے ہیں اور ان کے عزیز، رشتہ داروں اور بستی والوں کے احتجاجی مظاہرے بھی اسکرینوں پر دکھائے جارہے ہیں، گرفتار ہونے والے ان دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی تحویل سے بڑی تعداد میں جدید ترین اسلحہ، بارودی جیکٹیں، بم اور راکٹ بھی برآمد ہورہے ہیں اور پولیس ااسٹیشنوں میں ان کی نمائش بھی کی جارہی ہے اور گرفتار دہشت گردوں کی طرف سے پچاسوں بلکہ سیکڑوں قتل کے اعترافی بیانات بھی ٹی وی پر دکھائے جارہے ہیں۔ ان گرفتار ہونے والوں میں ایسے ''اہم لوگ'' بھی شامل ہیں جن کے سروں پر لاکھوں روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے اب تک ہزاروں دہشت گرد رنگے ہاتھوں اسلحے کی بھاری مقدار، ٹارچر سیلوں اور سیکڑوں بے گناہوں کے قتل کے اقبالی بیانات کے ساتھ گرفتار ہوئے ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل جو برسوں پہلے ہی سے اوور لوڈ ہے جہاں اس کی گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی رہ رہے ہیں ہم حیران ہیں پہلے ہی سے اوور لوڈ اس جیل میں مزید ہزاروں ملزمان کیسے سما رہے ہیں، گرفتار ملزمان میں بہت ساروں کا تعلق کالعدم تنظیموں سے بتایا جارہا ہے۔ کالعدم کا مطلب سلیس زبان میں غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

ہماری کشادہ دل حکومت کی کشادہ دلی کا عالم یہ ہے کہ ان غیر قانونی تنظیموں نے نہ صرف نئے ناموں سے اپنی ''قانونی سرگرمیاں'' جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزادی کے ساتھ نہ صرف اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ کھلے عام بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کر رہی ہیں ان جلسوں میں کالعدم تنظیموں کے محترم رہنما عوام سے خطاب کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں یہ سب حکومت کی ناک کے عین نیچے ہورہا ہے اور اہل عقل حیرت سے کالعدم کے معنوں اور مطلب پر بحث کرتے نظر آرہے ہیں۔

اہل عقل اس لمبی اور تھکا دینے والی بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ''ایک نظریاتی ملک اور اسلام کے قلعے'' میں ہی یہ سب کچھ ہونا عین ممکن ہے۔ ورنہ دوسرے غیر نظریاتی ملکوں میں اگر کسی وجہ سے کسی تنظیم کو کالعدم یا غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے تو اس کے سارے دفاتر سیل کردیے جاتے ہیں اس کے سارے اثاثے ضبط کرلیے جاتے ہیں ، اس کے سارے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ان پر مقدمات چلائے جاتے ہیں اور بلاتاخیر انھیں سخت ترین سزائیں دے کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔

چونکہ ہمارا ملک ایک نظریاتی ملک ہے اور دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر بھی نظریاتی لوگ ہیں اور اپنی نظریاتی ذمے داری بلکہ فرض سمجھ کر ہر روز بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں لہٰذا اصولاً تو انھیں گرفتار کرنے کے بجائے بڑے بڑے ایوارڈ اور تمغے دیے جانے چاہئیں لیکن افسوس کہ ان نظریاتی بلکہ خاص نظریاتی لوگوں بلکہ مجاہدین کو ان کی خدمات کو نظرانداز کرکے گرفتار کیا جارہا ہے، اسلحے کی بھاری مقدار برآمد کی جارہی ہے اور درجنوں بلکہ سیکڑوں انسانوں کو قتل کرنے کے اقبالی بیانات بھی میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں۔

ایسے نظریاتی مجاہدین کے احترام کے بجائے ان کے چہروں پر کپڑے ڈال کر انھیں پولیس موبائلوں میں لے جایا جارہا ہے۔ ان سے تفتیش کرکے ان کے ساتھیوں کے نام پوچھے جارہے ہیں اور انھیں گرفتار کرکے بھاری اسلحہ اور درجنوں سیکڑوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے قتل کے اقبالی بیانات حاصل کیے جارہے ہیں۔

ہماری جیلوں میں محبوس قیدی عموماً چوری ڈاکے، اسٹریٹ کرائم، منشیات فروشی، گاڑیاں چھیننے وغیرہ جیسے معمولی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اگر کوئی بڑا جرم ہوتا ہے تو وہ دشمنی کی بنیاد پر قتل کا جرم ہوتا ہے لیکن یہ سارے ملزم اور مجرم غیرنظریاتی لوگ کہلاتے ہیں اگر ان پر جیل میں زیادتیاں ہوتی ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، اگر جیل میں انھیں کسی بدتمیزی پر کوڑے لگائے جاتے ہیں تو یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں، اگر جیل میں انھیں بھوکا رکھا جائے تو یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں، اگر انھیں اندھیرے ہی میں ڈنڈے مارکر نیند سے اٹھایا جاتا ہے تو یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں، اگر جیل میں انھیں کیڑوں بھرے سالن، کالی چائے اور آدھی چھٹانک کی روٹی مہیا کی جاتی ہے تو یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں، اگر ان غیر نظریاتی قیدیوں کو کسی چھوٹی موٹی دادا گیری کے عوض نارا، سکھر یا بلوچستان کی بدنام زمانہ مچھ جیل بھیجا جاتا ہے تو یہ بھی قرین انصاف ہی ہے۔

اگر ان سے جیل کی گندی نالیاں صاف کرائی جاتی ہیں تو یہ بھی روٹین کا مسئلہ ہے، اگر ان کے ڈیڑھ فٹ چوڑے اور پانچ فٹ لمبے کمبل کے بستر میں کھٹمل ہوتے ہیں تو یہ بھی نارمل بات ہے، اگر ان کے کالے کمبلوں میں سفید بڑی بڑی جوئیں ستاروں کی طرح ٹکی نظر آتی ہیں تو یہ بھی کوئی کراہیت کی بات نہیں، اگر بیرکوں کے واش روم پر اندھیرے ہی سے لمبی لمبی لائنیں لگتی ہیں تو یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں۔

قابل افسوس بلکہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ نظریاتی مقدس ملزموں کو ان بدقماش غیر نظریاتی مجرموں کے ساتھ رکھ کر ان کی نظریاتی تقدیس کی بے حرمتی کی جارہی ہے اور کوئی نوٹس لینے والا ہے نہ کوئی ازخود نوٹس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان 57 مسلم ملکوں میں واحد نظریاتی ملک ہے۔ اس نظریاتی ملک میں نظریاتی خدمات انجام دینے والے محترم لوگوں کو عام جہنم نما جیلوں میں رکھنا نہ صرف ایک غیر نظریاتی جرم ہے بلکہ اس طرح تو ہم ان کی نظریاتی پختگی کو کمزور کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔ یہ بڑی تشویش ناک بات ہے ویسے ہی پہلے سے اوور لوڈ جیل میں ان نظریاتی قیدیوں کر رکھنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ انھیں حکومت کے ریسٹ ہاؤسوں کلفٹن یا ڈیفنس کے بنگلوں یا فائیو اسٹار ہوٹلوں میں عزت و احترام کے ساتھ رکھا جائے ان کے آرام اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور انھیں وی آئی پی سہولتیں فراہم کی جائیں۔

ویسے بھی ہماری عدالتی روایات کے مطابق کسی ملزم کو اپنی تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرتے کرتے بال سفید کرنا پڑتا ہے بلکہ آنے والی نسل جانے والی نسل کے فیصلے کو گود لے لیتی ہے۔ ایسی روایات کی روشنی میں نظریاتی ملزموں کو ایک لمبی بلکہ نا ختم ہونے والی مدت کے لیے ان بے ہودہ جیلوں میں ڈالے رکھنا ایک نظریاتی جرم کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس خدشے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری چاق و چوبند پولیس اور رینجرز بڑے بڑے نظریاتی مجاہدوں کو پکڑ تو رہی ہے لیکن پکڑے جانے کی خبروں کے بعد ان بے چاروں کا کیا ہوتا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔

یہ نظریاتی لوگ ہمارے روایتی قانون اور انصاف کے لامتناہی اندھیروں میں غرق ہوجاتے ہیں۔دوسرے غیر مہذب ملکوں میں اگر کسی ملزم کو پکڑا جاتا ہے تو بلاتاخیر اس کا کیس چلایا جاتا ہے اور قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے، ہمارے ملک کے گرفتاریوںکو سزا جزا کے لیے عمر بھر انتظار کرنا پڑتا ہے، دوسرے ملکوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اسپیشل کورٹ بنائی جاتی ہیں تاکہ دوسروں کو ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے کی ہمت نہ ہو، لیکن ہمارے ملک میں ہم نے غالباً کسی دہشت گرد، کسی ٹارگٹ کلر، کسی بارودی دھماکا کرکے سیکڑوں بے گناہ انسانوں، شیر خوار بچوں، بوڑھی اور جوان عورتوں، اسکول کے معصوم بچوں کو بہیمانہ طور پر قتل کرنے والوں کو سزا دیتے تو نہیں دیکھا البتہ انھیں ضمانتوں پر رہا ہوتے، ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے باعزت بری ہوتے یا جیلوں یا تھانوں سے فرار ہوتے دیکھا ہے۔

یا پھر جیلوں میں آرام سے زندگی بسر کرتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب نظریاتی مجاہدین کا حق ہے اور ہماری گزارش ہے کہ ان مقدس ملزمان کو جیل میں رکھ کر ان کے اخلاق کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے انھیں حکومت کے ریسٹ ہاؤسز، فارم ہاؤسز اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رکھا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں