لاہور میں پاکستانی آبی حیات کا پہلا میوزیم قائم کردیا گیا

میوزیم میں پاکستان میں پائی جانے والی مچھلیاں، مچھلیوں کے دوست اور دشمن کیڑے اور کچھوے حنوط کرکے رکھے گئے ہیں

میوزیم کے لیے مزید جاندوروں کے نمونے جمع کئے جارہے ہیں، ڈائریکٹر میوزیم فوٹو: ایکسپریس

TALAGANG:
فشریز کمپلیکس مناواں میں پاکستان میں پائی جانے والی آبی حیات پر ملک کا پہلا میوزیم بنایا گیا ہے جہاں تازہ پانی کی مچھلیوں، آبی پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے دریاؤں میں کتنی اقسام کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے اور آبی پرندے پائے جاتے ہیں بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہوں گے تاہم محکمہ ماہی پروری پنجاب نے یہ مشکل آسان کردی ہے اور اب بڑی آسانی سے ملک کے تازہ پانیوں میں پائی جانے والی چھوٹی بڑی رنگ برنگی مچھلیوں اور ان کے دشمن کیڑوں کو دیکھا ان کے بارے میں جانا جاسکتا ہے۔ محکمہ ماہی پروری پنجاب نے مناواں میں ملک کا پہلا میوزیم قائم کررکھا ہے جہاں آبی حیات کو محفوظ کیا گیا ہے، یہاں مچھلیوں اور کیڑوں کو شیشے کے مرتبانوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔



میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفراللہ نے بتایا کہ پاکستان کے پانیوں میں پائی جانے والی مچھلیوں کی مجموعی اقسام 193 ہے، ان میں سے ابھی 80 اقسام کو اس میوزیم کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ 18 سے زائد مچھلیوں کے دوست اور دشمن کیڑے بھی اس میوزیم میں رکھے گئے ہیں، بڑی سائز کی مچھلیوں اور کچھوؤں کو حنوط کیا گیا ہے، اپنی نوعیت کے اس منفرد میوزیم میں مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے ہی نہیں بلکہ آبی پرندے اور پودے بھی رکھے گئے ہیں۔




میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف وہی مچھلیاں اورکیڑے جمع کیے گئے ہیں جو پاکستان کی آبی گزرگاہوں، دریاؤں اور ندی نالوں میں پائی جاتے ہیں، ان کی تحقیق میں کئی سال لگے ہیں جس کے بعد انہیں میوزیم کا حصہ بنایا گیا۔ میوزیم کا حصہ بنائی گئیں کئی مچھلیاں اورکیڑے مکوڑے ایسے بھی ہیں جن کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچارہے، اور محکمہ فشریز ان کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے۔



فشریز کمپلیکس مناواں میں بنائے گئے اس میوزیم میں عام شہریوں کے داخلے پر پابندی نہیں ہے لیکن معلومات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی وزٹ کے لیے نہیں آتا۔ صرف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا و طالبات کے معلوماتی دورے ہوتے ہیں، فشریز کمپلیکس اور میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹرظفراللہ نے یہ بھی بتایا کہ میوزیم کے لیے مزید جانوروں کے نمونے جمع کئے جارہے ہیں اور اس مقصد کے لیے پاک بحریہ سے بھی معاونت لی جارہی ہے جب کہ ماہی گیروں سے بھی رابطے رہتے ہیں تاکہ اگر انہیں کوئی نایاب نسل کی مچھلی یا کیڑا مکوڑا اور آبی پرندہ ان کے ہاتھ لگے تو اسے میوزیم کو دے دیا جائے۔
Load Next Story