بولنے والے طوطے
آج آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو زور و شور سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
رائٹ برادران نے ہوائی جہاز ایجاد کیا، ولبر رائٹ کا کہنا تھا کہ ''واحد پرندے جو باتیں کرتے ہیں وہ طوطے ہیں اور یہ بہت بلند پرواز نہیں کرتے''۔ یہ بات اس نے 1912 سے قبل کہی تھی کیونکہ یہ اس کا سن وفات ہے لیکن یہ بات آج تک انسانی معاشرے خصوصاً پاکستانی سیاست میں بڑی سچی ثابت ہوئی ہے۔ آج ہر طرف الیکشن کا شور ہے ، ہر جماعت اپنا اپنا منشور پیش کررہی ہے۔
جن میں بیشتر سیاسی پارٹیاں حکومت میں یا حکومتی اتحادی رہی ہیں اور ہر الیکشن جیتنے کے بعد اپنے منشور پر عمل نہیں کرتی ہیں کیونکہ اتنی اچھی باتوں پر عمل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ، گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ق) نے اپنا منشور پیش کیا ہے یہ ان سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے جو کہ صرف اقتدار کی سیاست کرسکتی ہے یعنی مچھلی پانی کے بغیر اور یہ اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتی۔
جس جذبے کے ساتھ مشرف کا ساتھ دیا، وہی جذبہ زرداری حکومت کے لیے تھا، کل ملا کر حکومت میں مسلسل رہنے کے تقریباً 13 سال بنتے ہیں لیکن آج بھی کہنا ہے کہ ہمیں مکمل اختیار نہیں تھا۔ لہٰذا عوامی خدمت کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ آج بھی کسی نہ کسی بہانے سے حکومتی حصہ بننے کی تمام تدبیریں پہلے سے سوچ رکھی ہیں لیکن شاید اس بار انھیں مایوسی ہو کیونکہ میڈیا نے عوام کو ان سب کا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے اور یہی حال بڑی پارٹیوں کا ہوگا، بقول عمران خان انھوں نے اپنی اپنی باری باندھ رکھی ہے، گو یہ اور ان کے یہ اتحادی حال مست اور مال مفت کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
سندھ اور بلوچستان میں پانچ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد صرف چند دن پہلے اپوزیشن میں صرف اس لیے آئے کہ نگران حکومت کے مزے کوئی اور نہ لے سکے بلکہ الیکشن میں بھی آسانی رہے، یہ اﷲ کی مخلوق کو اندھا سمجھتے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ عوام کو قیدی تو بنا لیا ہے لیکن غلام نہیں بنا سکے ہیں، انھوں نے غریبوں کے گھروں کے دیے تک بجھادیے ہیں، اب انھیں روشنی کی امید یا انقلاب کی نوید کہنا خود فریبی ہے، یہ مفادات میں لپٹی ہوئی مفاہمت ہے جو درحقیقت منافقت ہے۔ زرداری حکومت کے جانے اور پرویز مشرف کی واپسی سے کوئی آنکھ پانی سے آشنا نہ ہوئی۔
جب مشرف اس ملک کے صدر اور نعمت اﷲ ایڈووکیٹ کراچی کے سٹی ناظم تھے اور ان کی شب وروز محنت کے باعث کراچی ملکی و عالمی سطح پر ترقی کررہا تھا تو پرویز مشرف نے خود انھیں داد تحسین دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''نعمت اﷲ تمہارا کام بولتا ہے''۔ وطن عزیز آج بھی ایسے ہی لوگوں کی راہ دیکھ رہا ہے جو خود نہ بولیں ان کا کام بولے۔
آج آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو زور و شور سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ہر ترمیم اپنی مرضی کی کرلی اسے ختم کیوں نہیں کیا؟ اس لیے کہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ واقعی ایک اسلامی مملکت کے حکومتی نمائندے کے لیے صادق اور امین ہونا لازمی ہے۔
اُس وقت تو حکومت اور اتحادی قومی اسمبلی کے اسپیکراور صوبائی اسمبلی کے نمائندے اور ان کی فیملیز کے لیے تاحیات ایسی مراعات منظور کررہے تھے جنھیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے وہ ملک جہاں عوام کو روٹی تو کجا صاف پانی پینے کو نہیں ملتا، لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں، وہاں صرف اسپیکرز اور ان کی فیملی کو جو مراعات دی جائیں گی اس سے قومی خزانہ پر 40 کروڑ سالانہ کا بوجھ پڑے گا۔
وزیر اعظم نے آخری تین ماہ میں 27 ارب روپے خرچ کیے، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، یہاں تو سیاست کی آنکھ میں حیا تک نہیں ہے، واقعی ایسے لوگوں کو ریٹرننگ آفیسرز کے اسلام کے بنیادی سوالات پوچھنے پر نہایت غم و غصے کا اظہار کرنا چاہیے اور اگر وہ کسی شخص کا فارم اس بات پر مسترد کردے کہ وہ کھلے عام اپنے شراب پینے کا اظہار کرتا ہے، نظریہ پاکستان اور قائد اعظمؒ کے بارے میں غلط نظریات رکھتا ہے تو ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا جاتا ہے ان کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ پاکستان تو درحقیقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور قرارداد مقاصد آئین پاکستان کی اساس ہے۔
(آرٹیکل 2-A کے تحت) اور یہی نظریہ پاکستان ہے کیونکہ اسلام ایک انقلابی مذہب ہے۔ دنیا میں اسلام کے علاوہ ہر نظام کھوکھلا ہی نہیں بلکہ بے معنی بھی ہوچکا ہے، اب تیرا دل ہی نہ مانے تو بہانے ہزاروں ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ''انسان کیسا بے خبر ہے کہ زندگی کے سب سے اہم فریضے کو بھی صحیح طور پر ادا نہیں کرسکتا'' یعنی ''نماز'' ۔ ریٹرننگ آفیسرز پر ایک بڑا الزام یہ بھی ہے کہ وہ نماز کی رکعتوں اور کلمے پوچھتے رہے جو ان کا حق نہیں تھا۔ علامہ اقبال ؒ نے سچ کہا کہ ''یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود'' جن کو اصلاح احوال مقصود ہوتی ہے وہ کہنے والے کا چہرہ نہیں اپنے عمل کو دیکھتے ہیں۔
قانون اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جن ممالک کے دستور تحریری ہوتے ہیں ان کے معاملات لگے بندھے ہوتے ہیں، دنیا میں صرف چار ممالک ہیں جن کے غیر تحریری دستور ہیں یعنی انگلینڈ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل جو معاشی ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور دنیا میں صرف دو ہی ریاستیں مذہب کے نام پر وجود میں آئیں، ایک پاکستان اور دوسری اسرائیل جو پاکستان کے ایک بڑے شہر کے برابر بھی نہیں لیکن ترقی کس نے کی؟ دنیا سے اپنا لوہا کس نے منوایا؟ کس کی عوام خوشحال ہے؟ کون اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے شرماتا ہے؟
بونے کو کتنی ہی بڑی پہاڑی پر کھڑا کردو وہ بونا ہی رہے گا اور طوطے کی پرواز نیچی ہی رہے گی چاہے کتنا اچھا بولے۔ لیکن آج بھی قوم مایوس نہیں ہے اور پرامید ہے کہ کوئی تو شخص ایسا آئے گا جو کہ ان کی خواہشات پر پورا اترے گا اور یہ ملک جو اسلام کے نام پر بے شمار قربانیوں اور لازوال امیدوں پر قائم ہوا ہے، اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوگا۔ شرط اتنی ہے کہ قوم ان طوطوں کی رنگین بولیوں پر نہ جائے بلکہ ان کی پرواز دیکھے۔