تبدیلی کی کنجی کس کے ہاتھ
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ باربار مارشل لا کے نفاذ نے پاکستان میں ووٹ کی حرمت کو بری طرح پامال کیا ہے۔
HERNDON, VA, US:
طبقاتی فرق اور الگ الگ ذہنی معیار رکھنے والے افراد کی سوچ انھیں ایک طبقہ بنادیتی ہے، جسے نرم سے نرم الفاظ میں مایوس افراد کا طبقہ کہا جاسکتا ہے۔ ناامیدی کی ''دولت'' سے مالامال یہ لوگ ہمارے ہاں کثرت سے موجود ہیں اور دونوں ہاتھوں سے مایوسی پھیلاتے رہتے ہیں۔
انتخابات کے نتائج جہاں سیاسی جماعتوں کی کام یابی اور ناکامی کی خبر لاتے ہیں وہیں ٹرن آؤٹ کے اعداد وشمار ان افراد کی تعداد کی نشان دہی بھی کرجاتے ہیں۔ ووٹ نہ دینا اس طبقے کی مایوسی اور ملک کے معاملات سے لاتعلقی کا ایک واضح اظہار ہے۔ ان لوگوں کو ملک، نظام، حکومتوں، اداروں، سیاست دانوں اور عوام سب سے شکوے شکایات ہیں۔
انھیں کسی پر بھروسا نہیں، تنقید ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ بظاہر ملک کے حالات پر ہر وقت فکرمند یہ خواتین و حضرات حالات بدلنے کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ یہ پولنگ اسٹیشن پر قطار میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی زحمت کو بھی بوجھ سمجھتے ہیں، اور اس طرزعمل کو جواز عطا کرنے کے لیے ان کے پاس بہت سے بہانے ہیں، جن میں سے سرفہرست ملک میں جمہوریت کا عدم استحکام، انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے نتائج بدل دینے کی مکروہ روایت اور سیاست دانوں کی بدعنوانی اور ناقص کارکردگی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ باربار مارشل لا کے نفاذ نے پاکستان میں ووٹ کی حرمت کو بری طرح پامال کیا ہے۔ وردیوں کی طرح شیروانیوں نے بھی جمہوریت اور پاکستانیوں کے حق رائے دہی پر کچھ کم ستم نہیں ڈھائے۔ سیاست دانوں نے بطور حکمراں اپنے مخالفین کو کچلنے کی کوششیں کیں، تو حزب اختلاف کی حیثیت میں انھوں نے برسراقتدار جماعت کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور اس جنون میں جمہوریت دشمن قوتوں کے آلۂ کار بن گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل سیاست کی ایک بہت بڑی تعداد نے منتخب ہونے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد بدعنوانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے بیلٹ باکسز سے من مانے نتیجے نکالنے کا چلن بھی ہمارے ہاں جاری رہا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود جمہوریت کا متبادل کیا ہے؟ کیا آمریت؟ ہم ان قوموں میں شامل ہیں جنھوں نے موجودہ زمانے میں طویل عرصے تک آمریت جھیلی ہے۔ ان آمریتوں میں سے ایوب خان ہی کی حکومت نے منصوبوں اور ترقی کی صورت میں قوم کو کچھ دیا، مگر اس کی حکمت عملیوں کے نتیجے میں ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی جھیلنا پڑا۔
جہاں تک اس دور میں ہونے والی معاشی ترقی کا تعلق ہے تو ایوب حکومت کی زرعی پالیسیوں کے باعث ہماری زراعت کو بے حد نقصان پہنچا۔ اور رہیں دیگر آمریتیں تو انھوں نے قوم کو انتشار، خلفشار، دہشت گردی، انتہاپسندی اور بے یقینی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ایسے میں تبدیلی اور ترقی کے لیے ایک ہی راستہ نظر آتا ہے، بُری جمہوریت کی بہتری کے لیے کوششیں۔
ان کوششوں میں سرفہرست اور بنیادی کوشش ووٹ کا استعمال ہے، لیکن ہمارے ہاں اکثریت یہ کوشش بھی نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کا تناسب اس خطے کے ممالک میں سب سے کم ہے۔ جنوبی ایشیا میں ووٹنگ کے رجحانات کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق خطے کے مختلف ممالک میں 2008 سے 2010 تک جو انتخابات ہوئے ان میں ٹرن آؤٹ یہ رہا: بنگلادیش 85 فیصد، مالدیپ 79 فیصد، بھوٹان 79 فیصد، نیپال 63 فیصد، سری لنکا 61 فیصد اور بھارت 58 فیصد۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کے 2008 کے الیکشن میں یہ شرح 46 فیصد تھی، جب کہ International Institute for Democracy and Electoral Assistance نے تو یہ شرح اور بھی کم یعنی چوالیس فیصد قرار دی۔ ''آئی ڈی ای اے'' کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 1977 سے گزشتہ انتخابات تک ٹرن آؤٹ پچپن فیصد سے زیادہ نہیں رہا ہے۔ دیگر انتخابات میں یہ شرح 35 فیصد سے 52 فیصد تک رہی ہے۔ یعنی لگ بھگ پاکستانیوں کی نصف تعداد ووٹ کا استعمال نہیں کرتی۔ اگر جعلی ووٹوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہ شرح مزید کم ہوجاتی ہے۔
مذکورہ طبقے کے رجحان کے علاوہ ووٹنگ کی شرح کم ہونے کی دیگر وجوہات بھی ہیں، جیسے سیاسی قوتوں کی جانب سے الیکشن کا بائیکاٹ اور بعض علاقوں میں مقامی فرسودہ روایات کے تحت عورتوں کے ووٹ دینے پر پابندی۔ لیکن یہ مایوسی اور لاتعلقی کا شکار افراد ہی ہیں جن کی عدم شرکت جمہوریت کے لیے نقصان دہ اور تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ اس طبقے کے افراد کی ایک خاصیت ان کی رائے کا آزاد ہونا ہے۔ چنانچہ اگر یہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تو ان کے پیش نظر امیدوار اور جماعت کا کردار اور کارکردگی ہوگی، نہ کہ سیاسی وابستگی اور کوئی تعصب۔ مگر ایسے قیمتی ووٹوں کے استعمال نہ ہونے کے باعث وابستگیاں اور تعصبات جیت جاتے ہیں۔
2013 کے انتخابات گزشتہ الیکشنز سے مختلف پس منظر کے ساتھ اور الگ حالات میں ہورہے ہیں۔ پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کیے ہیں، جس سے ملک میں جمہوریت کے استحکام کا امکان پیدا ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران حزب اختلاف نے حکومت کی ناقص کارکردگی اور کئی نازک مواقع آنے کے باوجود حکومت کو گرانے کی کوئی کوشش کی نہ اس طرح کا کوئی مطالبہ کیا۔ اسی طرح ماضی کے برعکس حکومت نے حزب اختلاف کو کچلنے اور دبانے کا کوئی حربہ استعمال نہیں کیا۔ یہ روش بتاتی ہے کہ سیاست داں نسبتاً بالغ نظر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے مدت سے قبل حکومت سے محروم ہوجانے والی جماعت مظلوم بن کر ہمدریاں بٹورتی تھی، مگر اس مرتبہ ایسا نہیں۔
مختلف ادوار میں حکومت میں رہنے والی تقریباً تمام جماعتیں ان پانچ سال کے دوران مرکز یا کسی صوبے میں برسراقتدار یا حکومت کا حصہ رہی ہیں اور عوام کے سامنے ان کی کارکردگی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں کھمبا ووٹ ہوں گے نہ کھمبا امیدوار کسی کام آئیں گے، سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی اور اپنے نامزد امیدواروں کی اہلیت کی بنیاد ہی پر ووٹ ملیں گے۔ یہ حقائق بہت سے روشن امکانات لیے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف آج ملک بہت نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ معیشت سے امن و امان تک تباہی کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ریلوے اور پی آئی اے سمیت متعدد ادارے تقریباً تباہ ہوچکے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کے بحران اور منہگائی نے عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایسے میں ایک اچھی حکومت اور اہل منتخب نمائندے ہی حالات میں سدھار لاسکتے ہیں۔
اور یہ سب باشعور ووٹرز کی پرچیاں ہی ممکن بناسکتی ہیں۔ اب ڈرائنگ رومز میں اور تھڑوں پر بیٹھ کر تنقید کرنے والوں کو بھی پولنگ اسٹیشنوں کی قطاروں میں لگنا ہوگا، ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔ تبدیلی کی کنجی ان ہی کے ہاتھ میں ہے اور اس قطار کے علاوہ تبدیلی کا کوئی راستہ نہیں۔