پنڈورا بکس ضرور کھلنا چاہیے
معاملہ فوج کی کسی کارروائی کا ہو تو ہماری عدالتیں ہمیشہ نظریہ ضرورت کا سہارا لیتی رہی ہیں
KARACHI:
جنرل پرویز مشرف پاکستان آئے کیوں؟ پاکستان میں تو ان کے بے شمار جانی دشمن موجود ہیں، ان میں سے کچھ تو کھلم کھلا جنرل پرویز مشرف کی جان لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، کچھ نے دل پر پتھر رکھ کر چپ کا روزہ رکھ لیا، دل تو ان کا بھی چاہتا ہوگا کہ خوب بھڑاس نکالیں لیکن لگتا ہے بے چارے بے بس ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنا بھی چاہیے، سزا بھی سخت ملنی چاہیے۔ سزا اس بات کی بھی کہ یہ شخص پاک فوج کے ان جانبازوں میں شامل رہا جو ہمیشہ آزمائش کے وقت سینہ تان کر اگلے مورچے میں کھڑے ہوتے تھے۔ اس جرم کی بھی سزا ملنی چاہیے کہ انھیں آٹھ سال تک اقتدار میں رہنے کا موقع ملا لیکن انھوں نے قومی دولت لوٹنے پر توجہ نہیں دی، انھوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی جیب بھرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوشش کرتے رہے۔
انھیں سزا اس جرم کی بھی ملنی چاہیے کہ وہ اپنی آل اولاد اور عزیزوں رشتے داروں کو نوازنے کے بجائے عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں مصروف رہے۔ سپریم کورٹ میں درخواست تو صرف پرویز مشرف کو سزا دلوانے کے لیے دائر کرائی گئی تھی مگر ہوا یہ کہ ابتدائی سماعت کے دوران ہی پنڈورا بکس کا معاملہ سامنے آگیا۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کہہ رہے تھے۔ اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت، دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔ مگر شاید یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسی لیے ترنگ میں کہہ گئے۔ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو کھل جائے، پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں تو آجائیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
معاملہ فوج کی کسی کارروائی کا ہو تو ہماری عدالتیں ہمیشہ نظریہ ضرورت کا سہارا لیتی رہی ہیں بکس کھولنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ چاہتے یہ ہیں کہ انصاف بھی ہوجائے اور آسمان بھی نہ ٹوٹے۔ اے کے ڈوگر کی نظر میں انصاف یہ ہے کہ آئین کی پامالی پر صرف پرویز مشرف کو سزا ہوجائے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آئین کی پامالی میں پرویز مشرف کی مدد کرنے والے تمام افراد کو لپیٹنے کی کوشش کی گئی تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ اے کے ڈوگر پنڈورا بکس کیوں نہیں کھولنا چاہتے؟ کیا پنڈورا بکس کھلنے سے واقعی آسمان ٹوٹ پڑے گا؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے پیچھے مڑ کر 12 اکتوبر 1999 کی طرف دیکھنا پڑے گا، یہی وہ دن تھا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے وطن واپسی کے لیے آسمان کی بلندیوں پر پرواز کررہے تھے۔
ٹھیک اسی وقت وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کردیا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ نئے آرمی چیف مقرر کردیے گئے۔ دوران پرواز جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اڑانے والے ہوا باز کو حکم دیاگیاکہ وہ طیارے کو کراچی ایئرپورٹ کے بجائے نوابشاہ میں اتار دے۔ پلان یہ تھا کہ طیارہ نوابشاہ کے سنسان ایئرپورت پر اتارا جائے، پھر جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرکے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جائے۔
خیال یہ تھا کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے بعد پاک فوج نئے آرمی چیف کے سامنے سر جھکا کر کھڑی ہوجائے گی اور میاں صاحب کو سکون سے حکومت چلانے کا موقع مل جائے گا مگر ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں، منصوبہ سازوں سے ایک چھوٹی سی غلطی ہوئی اور کھیل کا پانسہ پلٹ گیا، غلطی یہ ہوئی کہ پرویز مشرف کے طیارے میں اپنا کپتان بٹھانا بھول گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ منصوبے سے بے خبر کپتان نے جنرل پرویز مشرف کو صورتحال سے آگاہ کردیا، جنرل پرویز نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو سے رابطہ کیا۔ فوجی قیادت نے لائن آف ایکشن طے کیا۔ راولپنڈی میں جنرل عزیز، جنرل محمود اور کراچی میں جنرل عثمانی کی قیادت میں فوجی دستے حرکت میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا فوجی قیادت کے پاس نواز حکومت کو برطرف کرنے اور وزیراعظم کو سرکاری مہمان بنانے کا اختیارتھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے آئین سے رجوع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آئین پاکستان اس قسم کی کسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 12 اکتوبر 1999 کو آئین کی پامالی کے لیے صرف جنرل پرویز مشرف ہی ذمے دار تھے؟ جواب ہے جی نہیں۔
12 اکتوبر 1999 کی فوجی کارروائی کو آج تو آئین کی پامالی کہا جاتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت صورتحال کیا تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کے فوجی اقدام پر سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ محض چند جج صاحبان کی جانب سے مخالفانہ رد عمل 3 مہینے 13 دن بعد 25 جون 2000 کو اس وقت سامنے آیا جب اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے لیے کہا گیا۔ اس وقت سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس کے ججوں کی مجموعی تعداد 102 تھی، ان میں سے صرف 13 نے نیا حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا، باقی ماندہ 89 نے نیا حلف اٹھالیا۔ سپریم کورٹ کے 13 میں سے 6 ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، ان میں سے 5 کا تعلق سندھ سے تھا، لاہور ہائی کورٹ کے 43 میں سے 2، پشاور ہائی کورٹ کے 11 میں سے 2 اور سندھ ہائی کورٹ کے 25 میں سے 3 ججوں نے نیا حلف نہیں اٹھایا۔
ق لیگ کی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کو صدر اور آرمی چیف کے عہدے رکھنے کا اختیار دینے کے لیے سترہویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور کرائی۔ دو عہدوں کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ پانچ رکنی بنچ نے اس فیصلے کو بھی درست قرار دے دیا۔