الیکشن کے منصفانہ نتائج

سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیئے گئے جو بے سبب اور بے وجہ نہیں لگتے


Kishwar Zohra April 15, 2013

SYDNEY: ایک طرف میڈیا عدلیہ کے احکامات اور الیکشن کمیشن کی بندشوں کے تناظر میں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بارے میںکچھ اس طرح سے تفصیلات پیش کر تا نظر آرہا ہے جس سے گمان غالب ہے کہ الیکشن کے نتائج پہلے سے ہی طے شدہ ہوںاور یوںکچھ امیدواروں کا الیکشن کمیشن کی کسوٹی پہ رَد ہونے کے سبب پہلے ہی بوریا بستر گول کر دیا گیاہے اور اب یہ گماں یقین کی طرف بڑھنے کی وجہ وہ عوامل ہیں جنھیں دہشت گردی کی بیخ کنی کا کام سونپا گیا ہے لیکن پسِ پردہ یہ ایسی بلاجوازکارروائیوں میں مصروفِ عمل نظر آرہے ہیں جس کے سبب الیکشن مہم چلانا تو درکنار، ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر عوام کا سکون اس طرح درہم برہم کیا جا رہا ہے کہ سفید پوشی اور عزت قائم رکھنا مشکل نظر آرہی ہے،کیونکہ سیاسی وابستگیوں کی بنا پر بے گناہ لوگوں کی گرفتاریاں، گھروں کی تلاشی ، جس سے خواتین پر ذہنی دبائواور بچوں کی نفسیات پر ان چھاپوں سے پڑنے والے منفی اثرات جس کے نتیجے میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس نے ایک خوف کو جنم دیا ہے اور اس تشویشناک صورتحال میں عام آدمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیںاور یہ منظرنامہ کسی اچھی پیشِ خبر کی نوید ہر گز نہیں ہو سکتا۔

نئی حلقہ بندیاں ہی عوام کے ذہن کو متزلزل کرنے کے لیے کم نہیں تھیں کہ یہ سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیئے گئے جو بے سبب اور بے وجہ نہیں لگتے، عجیب بات کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دفاتر عوام کے مسائل کے لیے رسائی کا سب سے آسان طریقہ رہے ہیں۔ اور عوامی نمائندوں کے کام اور ان کی خدمات کی جانچ کا بہترین ذریعہ بھی، ان کو ثبوتاژ کرنا، اُن علاقوں کے رہائشی لوگوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کے مترادف ہے ، اور عوام کے بیچ رہنے والے سیاسی امیدواروں و کارکنان کو دیوار سے لگانے کی کوشش تاکہ پھر سے اُسی فرسودہ نظام کو مسلط کرنے کی راہ ہموارہو جائے جس میں ایک دولت مند امیدوار اپنی ناجائز دولت کا بے تحاشااستعمال کرکے تشہیر کے ذریعے ووٹ حاصل کر ے خواہ وہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پر بڑے بڑے طویل دورانیے کے اشتہارات ہوں یامرکزی شاہرائوں پر قدآور ہورڈنگز... جیسا کہ دیکھنے میں آرہا ہے، اور ماضی بھی اس بات کا گواہ ہے کہ جن بڑے لوگوں نے اپنی انتخابی مہمات پر جتنا پیسہ خرچ کیا اس کا چار گنا انھوں نے کمایا،اور پھر ووٹر کے ساتھ وہی سلوک کہ... تم کون ؟ اور میں کون؟ اسی روش کو قائم رکھتے ہوئے اب پھرپیسے سے پیسہ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔جب کہ وہ حقیقی نمائندہ جو عوام کے ووٹ سے آتا ہے جس کی دولت اس کے حلقۂ انتخاب کے مسائل سے آگہی اور جانکاری ہے، اس کے ووٹ کو سبوتاژ کرنے ، اسی وڈیرانہ نظام کو مسلط کرنے کے لیے پر امن آبادیوں میں دہشت گردی کے نام پر ایک ایسے ماحول کو پروان چڑھانا کہ ووٹر گھر میں محصور ہو جائے اور نمائندہ و گلی کوچے کا سیاسی کارکن تھانوں میں بند اور اہلِ خانہ کچہریوں کے چکر لگاتے رہیں۔ یہ ہے موجودہ منظر نامہ جب کہ الیکشن میں صرف 24دن باقی رہتے ہیں اور آخری 3دنوں میںالیکشن مہم بند کر دی جاتی ہے گویارابطے کے ان 20دنوں میں بھی مندرجہ بالا صورتحال رہتی ہے توکیا اس الیکشن کے نتائج منصفانہ ہوں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں