خواجہ آصف کی نااہلی پر صاحب بہادر کو مبارکباد
آرٹیکل 62/63 اک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس سے کسی بھی "باغی" رہنما کو شکار کرکے باآسانی جمہوریت کو کمزور کیا جا سکتا ہے
آرٹیکل باسٹھ ایف (1) کی چھری اب کی بار خواجہ آصف کی گردن پر پھری ہے اور انہیں اقامہ چھپانے اور جھوٹ بولنے کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نااہل قرار دے دیا ہے۔ خواجہ آصف کی نااہلی اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ مسلم لیگ نون کے انتہائی مضبوط سیاسی برج تسلیم کیے جاتے ہیں۔ بادی النظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کہ خواجہ آصف نے اقامہ اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا تھا اور وہ متحدہ عرب امارات کی کمپنی سے تنخواہ وصول کررہے تھے جسے انہوں نے اپنے انتخابی کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ظاہر نہیں کیا، ایک درست قانونی فیصلہ نظر آتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی بھی منتخب عوامی نمائندہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ایک حلف نامہ جمع کرواتا ہے جس کے مطابق وہ یہ حلف اٹھاتا ہے کہ اس کی کسی بھی قسم کی کہیں اور کام کرنے کی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواجہ آصف کے علاوہ باقی تمام عوامی نماِئندے آئین کی اس شق کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے کسی اور کام یا کاروبار میں ملوث نہیں ہوتے؟ کیا سرکاری بیوروکریٹس اور فوجی افسران دوران ملازمت کسی بھی قسم کی کاروباری سرگرمی یا کنسلٹنسی فراہم کرنے کی ملازمت سے وابستہ نہیں ہوتے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ شخصیات کو تو چھوڑیے، یہاں تو سرکاری ادارے بھی منافع بخش کاروبار کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز مالیاتی ادارے، اشیائے خوردونوش، حتی کہ دلیہ، چڈی اور بنیانیں تک بیچنے کا کاروبار ببانگِ دُہُل اپنے اپنے اداروں کے نام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں سرکاری اداروں کی کاروباری سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
خیر خواجہ آصف نے یقیناً ایسا کوئی قابل تعریف فعل انجام نہیں دیا ہے جس کے حق میں تاویلیں گھڑی جائیں، لیکن دلِ ناسمجھ بار بار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آخر 342 ارکان کے ایوان میں سے صرف انہیں سنگل آؤٹ کرکے قانونی کاروائی کا نشانہ بنانا کیا صاف ظاہر نہیں کرتا ہے کہ تیر چلانے والے کاندھے عثمان ڈار اور تحریک انصاف کے تھے لیکن تیر پس چلمن کہیں اور سے چلایا گیا ہے؟
چند حلقوں کی رائے میں خواجہ آصف چونکہ نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں اور ان رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے ببانگِ دُہُل اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس لیے عدالتی ہتھوڑے کی مدد سے ان کے سیاسی کیرئیر پر وار کیا گیا ہے۔ یہ رائے کس حد تک درست ہے اس کا اندازہ حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے باآسانی لگا سکتے ہیں۔ دوسری جانب خواجہ آصف کے خلاف فیصلہ سنانے کی ٹائمنگ بھی انتہائی متنازعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وہ شنگھائی کو آپریشن تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، ان کے خلاف محفوظ شدہ عدالتی فیصلہ آنا نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی کا باعث بنا ہے۔
عدالتی محفوظ شدہ فیصلہ خواجہ آصف کی واپسی پر بھی سنایا جا سکتا تھا۔ البتہ اگر مقصد خواجہ آصف کی سبکی کرنا تھا تو شاید خواجہ آصف سے زیادہ سبکی ریاست پاکستان کی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں اخبارات و ٹیلی ویژن نے ہیڈ لائنز دیتے وقت یہ نہیں لکھا یا بتایا کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف کو عدالت نے نااہل کر دیا ہے، بلکہ یہ بتایا گیا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو عدالت نے صادق اور امین نہ ہونے کے باعث نااہل قرار دے دیا ہے۔
خواجہ آصف ایک عوامی نمائندہ ہے، آج نہیں تو کل حالات اچھے ہونے پر اس نااہلی کے فیصلے کو انہی عدالتوں سے معطل کروا کر واپس اسمبلی میں آ سکتا ہے۔ لیکن عدلیہ نے جو تاریک باب موجودہ دور میں رقم کیا ہے، اس سیاہ باب کو تاریخ کے پنوں سے کبھی بھی حذف نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالتی فیصلوں سے جب بغض کی بو آئے اور ڈکٹیشن دکھائی دے تو پھر عدالتوں اور ان کے فیصلوں کو مورخ ریاست کے کمزور ہونے کے بنیادی اسباب ٹھہراتا ہے۔ خواجہ آصف کی نااہلی کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کو بھی سیاسی طور پر ایک دھچکا لگا ہے۔
خواجہ آصف سیالکوٹ ڈویژن میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور قومی اسمبلی کے زیادہ تر امیدوار انہی کی منشا سے پارٹی ٹکٹ حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ اب وہ نااہل ہو چکے ہیں، اس لیے نہ صرف مسلم لیگ نواز کی سیالکوٹ میں انتخابی سیاست میں اس فیصلے کے بعد دھڑے بندیوں کو فروغ ملے گا بلکہ نااہلی کی تلوار کے ڈر سے سیالکوٹ اور وسطی پنجاب سے بہت سے الیکٹیبلز بھی پارٹی کو چھوڑنے میں ہی عافیت جانیں گے۔ اسے اگر ایک تیر سے دو شکار کرنا کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
ایک جانب تو نادیدہ قوتوں نے خواجہ آصف کو شکار کر کے ان سے خارجی امور پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور اس تقریر کا بدلہ لے لیا ہے جو انہوں نے 2006 میں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کی تھی، اور دوسری طرف نادیدہ قوتوں نے مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنماؤں اور مضبوط انتخابی امیدواروں کے دل میں نااہلی کا خوف بھی بٹھا دیا ہے۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف اب ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے کسی بھی "باغی" عوامی رہنما اور نمائندے کو شکار کر کے باآسانی جمہوریت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
اب جیپیں بھیج کر حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بجائے ضیاالحق کے آزمودہ ہتھیاروں "صادق" اور "امین" کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ مقاصد باآسانی حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ یہ شاید وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب اصغر خان سے لیکر عمران خان تک تمام کٹھ پتلیوں نے دیکھا تھا یا پھر شاید کینٹ کی حسین و جمیل وادیوں سے انہیں دکھایا گیا تھا۔
اس وقت خواجہ آصف کی نااہلی پر خوشی سے بغلیں بجاتے عثمان ڈار اور عمران خان یہ حقیقت یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ حقیقت میں وہ بھی ایک معمولی سے سویلین ہیں اور ان پر مہربان خاکی بادل جو انہیں عدالتی فیصلوں کی "ٹھنڈک" سے نواز رہا ہے، آگے چل کر ان پر بھی نواز شریف اور خواجہ آصف کی مانند کانٹوں کی برسات کر سکتا ہے۔ جو قوتیں اقامے ڈھونڈ کر لا سکتی ہیں آخر کو ان کےلیے کیلی فورنیا عدالت کے فیصلے کی کاپی، کسی ڈی این اے ٹیسٹ کی پرانی رپورٹ یا کسی آف شور کمپنی کی فنانشل ٹرانزیکشن لانے میں دیر ہی کتنی لگے گی ؟
ویسے تو ہمارے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس بھی اقامہ ہے، لیکن چونکہ ان کی جماعت کی ابھی نادیدہ قوتوں سے صلح ہے اس لیے قانون اندھا بن کر وہ اقامہ دیکھنے سے ہی انکار کر دے گا۔
اگر ذرا سی چھان بین اور کی جائے تو ہمارے سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کے پاس سے کئی اقامے برآمد ہو سکتے ہیں اور ان کی دیگر ملازمتوں اور کاروباری وابستگیوں کا کچہ چٹھہ بھی کھل کر سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ احتساب اور اخلاقیات کا مقصد محض ایک جماعت کو سبق سکھاتے ہوئے اسے انتخابی ریس میں کمزور کرنا ہے، اس لیے صرف ایک ہی جماعت سے وابستہ لوگوں پر ساری تان ٹوٹ رہی ہے۔
نواز شریف اور ان کی جماعت کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ اور کتنا رسوا ہو کر انہیں عوام کو موبیلائز کرنے کا خیال آئے گا۔ اگر تو ''سویلین بالادستی'' اور ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ سچا ہے تو پھر سر جھکا کر اور سو جوتے سو پیاز کھانے والی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست محض تقاریر اور نعروں کے سہارے نہیں، بلکہ حقیقی مزاحمت کے دم پر کی جاتی ہے۔ خواجہ آصف کے بعد سعد رفیق اور احسن اقبال کا نمبر بھی آنے والا ہے، کیا مسلم لیگ نواز محض انتخابات میں حصہ لینے کی سعی میں ایک کے بعد ایک کلیدی رہنما کو ذلیل و رسوا کروا کر تاحیات نااہل کرواتی جائے گی؟
جو قوتیں اس کھیل کے پیچھے ہیں وہ کسی بھی طور عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو چند درجن نشستوں سے زائد حاصل نہیں کرنے دیں گی۔ اگر سوال محض چند درجن نشستوں اور سیاسی بقا کا ہے تو پھر عام عوام کو ووٹ کو عزت دو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ راستے پر لگا کر ان کو پس پشت قوتوں کے سامنے بطور چارہ استعمال کرنا ہرگز بھی مناسب قدم نہیں ہے۔ دوسری جانب پس پشت قوتوں کو مبارکباد کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو نااہل اور دروغ گو قرار دلوا کر پھر سے عالمی دنیا کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں عوامی نمائندیں اور منتخب حکومتیں محض چند فرماِئشی عدالتی فیصلوں کی مار ہیں۔ "صاحب بہادر" کا اقبال بلند رہنا چاہیے، عوام اور عوامی نمائندوں کی کیا حیثیت اور کیا اوقات ؟ ریاستی امور کو ایمانداری اور کامیابی سے چلانے کی اہلیت صرف اور صرف "صاحب بہادر" کے پاس ہے؛ اور ہماری ستر سالہ ملکی تاریخ میں ہر میدان میں ہماری لازوال "ترقی و کامیابی" اس کی بھرپور گواہی دیتی دکھائی دیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی بھی منتخب عوامی نمائندہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ایک حلف نامہ جمع کرواتا ہے جس کے مطابق وہ یہ حلف اٹھاتا ہے کہ اس کی کسی بھی قسم کی کہیں اور کام کرنے کی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواجہ آصف کے علاوہ باقی تمام عوامی نماِئندے آئین کی اس شق کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے کسی اور کام یا کاروبار میں ملوث نہیں ہوتے؟ کیا سرکاری بیوروکریٹس اور فوجی افسران دوران ملازمت کسی بھی قسم کی کاروباری سرگرمی یا کنسلٹنسی فراہم کرنے کی ملازمت سے وابستہ نہیں ہوتے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ شخصیات کو تو چھوڑیے، یہاں تو سرکاری ادارے بھی منافع بخش کاروبار کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز مالیاتی ادارے، اشیائے خوردونوش، حتی کہ دلیہ، چڈی اور بنیانیں تک بیچنے کا کاروبار ببانگِ دُہُل اپنے اپنے اداروں کے نام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں سرکاری اداروں کی کاروباری سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
خیر خواجہ آصف نے یقیناً ایسا کوئی قابل تعریف فعل انجام نہیں دیا ہے جس کے حق میں تاویلیں گھڑی جائیں، لیکن دلِ ناسمجھ بار بار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آخر 342 ارکان کے ایوان میں سے صرف انہیں سنگل آؤٹ کرکے قانونی کاروائی کا نشانہ بنانا کیا صاف ظاہر نہیں کرتا ہے کہ تیر چلانے والے کاندھے عثمان ڈار اور تحریک انصاف کے تھے لیکن تیر پس چلمن کہیں اور سے چلایا گیا ہے؟
چند حلقوں کی رائے میں خواجہ آصف چونکہ نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں اور ان رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے ببانگِ دُہُل اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس لیے عدالتی ہتھوڑے کی مدد سے ان کے سیاسی کیرئیر پر وار کیا گیا ہے۔ یہ رائے کس حد تک درست ہے اس کا اندازہ حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے باآسانی لگا سکتے ہیں۔ دوسری جانب خواجہ آصف کے خلاف فیصلہ سنانے کی ٹائمنگ بھی انتہائی متنازعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وہ شنگھائی کو آپریشن تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، ان کے خلاف محفوظ شدہ عدالتی فیصلہ آنا نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی کا باعث بنا ہے۔
عدالتی محفوظ شدہ فیصلہ خواجہ آصف کی واپسی پر بھی سنایا جا سکتا تھا۔ البتہ اگر مقصد خواجہ آصف کی سبکی کرنا تھا تو شاید خواجہ آصف سے زیادہ سبکی ریاست پاکستان کی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں اخبارات و ٹیلی ویژن نے ہیڈ لائنز دیتے وقت یہ نہیں لکھا یا بتایا کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف کو عدالت نے نااہل کر دیا ہے، بلکہ یہ بتایا گیا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو عدالت نے صادق اور امین نہ ہونے کے باعث نااہل قرار دے دیا ہے۔
خواجہ آصف ایک عوامی نمائندہ ہے، آج نہیں تو کل حالات اچھے ہونے پر اس نااہلی کے فیصلے کو انہی عدالتوں سے معطل کروا کر واپس اسمبلی میں آ سکتا ہے۔ لیکن عدلیہ نے جو تاریک باب موجودہ دور میں رقم کیا ہے، اس سیاہ باب کو تاریخ کے پنوں سے کبھی بھی حذف نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالتی فیصلوں سے جب بغض کی بو آئے اور ڈکٹیشن دکھائی دے تو پھر عدالتوں اور ان کے فیصلوں کو مورخ ریاست کے کمزور ہونے کے بنیادی اسباب ٹھہراتا ہے۔ خواجہ آصف کی نااہلی کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کو بھی سیاسی طور پر ایک دھچکا لگا ہے۔
خواجہ آصف سیالکوٹ ڈویژن میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور قومی اسمبلی کے زیادہ تر امیدوار انہی کی منشا سے پارٹی ٹکٹ حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ اب وہ نااہل ہو چکے ہیں، اس لیے نہ صرف مسلم لیگ نواز کی سیالکوٹ میں انتخابی سیاست میں اس فیصلے کے بعد دھڑے بندیوں کو فروغ ملے گا بلکہ نااہلی کی تلوار کے ڈر سے سیالکوٹ اور وسطی پنجاب سے بہت سے الیکٹیبلز بھی پارٹی کو چھوڑنے میں ہی عافیت جانیں گے۔ اسے اگر ایک تیر سے دو شکار کرنا کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
ایک جانب تو نادیدہ قوتوں نے خواجہ آصف کو شکار کر کے ان سے خارجی امور پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور اس تقریر کا بدلہ لے لیا ہے جو انہوں نے 2006 میں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کی تھی، اور دوسری طرف نادیدہ قوتوں نے مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنماؤں اور مضبوط انتخابی امیدواروں کے دل میں نااہلی کا خوف بھی بٹھا دیا ہے۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف اب ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے کسی بھی "باغی" عوامی رہنما اور نمائندے کو شکار کر کے باآسانی جمہوریت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
اب جیپیں بھیج کر حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بجائے ضیاالحق کے آزمودہ ہتھیاروں "صادق" اور "امین" کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ مقاصد باآسانی حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ یہ شاید وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب اصغر خان سے لیکر عمران خان تک تمام کٹھ پتلیوں نے دیکھا تھا یا پھر شاید کینٹ کی حسین و جمیل وادیوں سے انہیں دکھایا گیا تھا۔
اس وقت خواجہ آصف کی نااہلی پر خوشی سے بغلیں بجاتے عثمان ڈار اور عمران خان یہ حقیقت یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ حقیقت میں وہ بھی ایک معمولی سے سویلین ہیں اور ان پر مہربان خاکی بادل جو انہیں عدالتی فیصلوں کی "ٹھنڈک" سے نواز رہا ہے، آگے چل کر ان پر بھی نواز شریف اور خواجہ آصف کی مانند کانٹوں کی برسات کر سکتا ہے۔ جو قوتیں اقامے ڈھونڈ کر لا سکتی ہیں آخر کو ان کےلیے کیلی فورنیا عدالت کے فیصلے کی کاپی، کسی ڈی این اے ٹیسٹ کی پرانی رپورٹ یا کسی آف شور کمپنی کی فنانشل ٹرانزیکشن لانے میں دیر ہی کتنی لگے گی ؟
ویسے تو ہمارے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس بھی اقامہ ہے، لیکن چونکہ ان کی جماعت کی ابھی نادیدہ قوتوں سے صلح ہے اس لیے قانون اندھا بن کر وہ اقامہ دیکھنے سے ہی انکار کر دے گا۔
اگر ذرا سی چھان بین اور کی جائے تو ہمارے سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کے پاس سے کئی اقامے برآمد ہو سکتے ہیں اور ان کی دیگر ملازمتوں اور کاروباری وابستگیوں کا کچہ چٹھہ بھی کھل کر سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ احتساب اور اخلاقیات کا مقصد محض ایک جماعت کو سبق سکھاتے ہوئے اسے انتخابی ریس میں کمزور کرنا ہے، اس لیے صرف ایک ہی جماعت سے وابستہ لوگوں پر ساری تان ٹوٹ رہی ہے۔
نواز شریف اور ان کی جماعت کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ اور کتنا رسوا ہو کر انہیں عوام کو موبیلائز کرنے کا خیال آئے گا۔ اگر تو ''سویلین بالادستی'' اور ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ سچا ہے تو پھر سر جھکا کر اور سو جوتے سو پیاز کھانے والی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست محض تقاریر اور نعروں کے سہارے نہیں، بلکہ حقیقی مزاحمت کے دم پر کی جاتی ہے۔ خواجہ آصف کے بعد سعد رفیق اور احسن اقبال کا نمبر بھی آنے والا ہے، کیا مسلم لیگ نواز محض انتخابات میں حصہ لینے کی سعی میں ایک کے بعد ایک کلیدی رہنما کو ذلیل و رسوا کروا کر تاحیات نااہل کرواتی جائے گی؟
جو قوتیں اس کھیل کے پیچھے ہیں وہ کسی بھی طور عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو چند درجن نشستوں سے زائد حاصل نہیں کرنے دیں گی۔ اگر سوال محض چند درجن نشستوں اور سیاسی بقا کا ہے تو پھر عام عوام کو ووٹ کو عزت دو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ راستے پر لگا کر ان کو پس پشت قوتوں کے سامنے بطور چارہ استعمال کرنا ہرگز بھی مناسب قدم نہیں ہے۔ دوسری جانب پس پشت قوتوں کو مبارکباد کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو نااہل اور دروغ گو قرار دلوا کر پھر سے عالمی دنیا کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں عوامی نمائندیں اور منتخب حکومتیں محض چند فرماِئشی عدالتی فیصلوں کی مار ہیں۔ "صاحب بہادر" کا اقبال بلند رہنا چاہیے، عوام اور عوامی نمائندوں کی کیا حیثیت اور کیا اوقات ؟ ریاستی امور کو ایمانداری اور کامیابی سے چلانے کی اہلیت صرف اور صرف "صاحب بہادر" کے پاس ہے؛ اور ہماری ستر سالہ ملکی تاریخ میں ہر میدان میں ہماری لازوال "ترقی و کامیابی" اس کی بھرپور گواہی دیتی دکھائی دیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔