فرد کا انفرادی شعور…
ایک قوم معاشرے کے تمام طبقات کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں عام فرد سے لے کر اکابرین تک کے گروہ شامل ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
تاریخ شاہد ہے کہ وہ قومیں جو تباہی کے عذاب کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں قبل ازیں انھیں قانون الہٰی کے تحت حق کو تسلیم کرنے اور سرکشی سے تائب ہونے کے مواقعے ضرور دیے گئے لیکن جب ہدایت کی حُجّت تمام ہو گئی اور نافرمانوں کے پاس اپنی محاذآرائی کا کوئی جواز باقی نہ رہا تو ان قوموں کی عمل کی مہلت تمام کردی گئی اور تاریخ عالم میں ان قوموں کے نام اور مثالیں عبرت کا نمونہ بنا دی گئیں۔
ایک قوم معاشرے کے تمام طبقات کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں عام فرد سے لے کر اکابرین تک کے گروہ شامل ہوتے ہیں۔ خصوصیات کی وہ یکسانیت جو قوم کی شناخت کا تعین کرتی ہے اور اس کے عروج وزوال کے پیمانے مرتب کرتی ہے وہ عوامل جب عوام اورخواص میں یکجا ہو جائیں اور دونوں ایک ہی رنگ میں رنگے جائیں تو نوشتہ وقت کا دلوں پر القا اترنے لگتا ہے اور قوموں کی تقدیر پڑھی جاسکتی ہے۔
قدرت اِلٰہی کی عظمت یہ ہے کہ وہ مخلوق پر اپنی طاقت سے پکڑ نہیں کرتی بلکہ مخلوق کے اعمال ہی قدرت سے اس کی غیر منطقی اور غیر فطری مقابلہ آرائی میں اس کی دائمی ذلت اور ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ایک قوم اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی نظر آنے لگتی ہے جب اس کی سرشت میں جہالت سرایت کر جاتی ہے ۔ جہالت فی الواقع انسانی رویے کی وہ کیفیت ہے جس میں وہ اپنی ذات یا انا کو حق کے مقابل بر سر پیکار لے آتا ہے اور حالات وحقائق کو نہ مانتے ہوئے خود کو دامِ فریب میں مبتلا رکھتا ہے کیونکہ انسانی فطرت کی ساخت یہ ہے کہ و ہ حق وباطل میں امتیاز کر سکتی ہے اورجہالت یہی ہے کہ وہ دانستہ قانون فطرت سے رو گردانی کرے ۔
یہی وجہ ہوتی ہے جو صاحبِ علم سے لے کر عام فرد تک کی بساط عمل نا فرمانی کی تاریکی کے عمیق گڑھے میں لڑھکتی چلی جاتی ہے۔ اس قوم کی مثال نشے کی لت میں مبتلا ان افراد کی سی ہوتی ہے جو اپنی ظاہری حالت میں دیکھنے والوں کے لئے قابل عبرت نمونہ ہوتے ہیں لیکن خود وہ ایسی خیالی دنیا کے باسی ہوتے ہیں، جس کے سامنے تمام سچائی ہیچ ہوتی ہے اپنی حالت کو سمجھتے ہوئے بھی اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے حتیٰ کہ اگر کوئی انھیں اس دلدل سے نکالنے کی کوشش بھی کرے تو یہ بھاگ کر واپس اپنی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
قربانی کا جذبہ ان میں مفقود ہوتا ہے،صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں،اپنے معمولی سے فائدہ کے لئے دوسرے کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ نفسانی لذت کا جو عذاب ان پر مسلط ہو جاتا ہے وہ ان کی زندگی کی تمام نعمتوں ِ،خوشیوں، رشتوں اور برکتوں کو نگل جاتا ہے ۔ ان کی سوچ اپنی ذات سے شروع ہوتی اور اپنی ذات ہی پر ختم ہو جاتی ہے۔ کاہلی بے حسی بے عملی اورگندگی ان کی شناختی علامتیں بن جاتی ہیں۔
اجتماعی تباہی کے اس منحوس چکرکا آغاز انفرادی بگاڑ سے شروع ہوتا ہے جب فرد کا انفرادی شعور اپنی انفرادیت سے اغماض برتتے ہوئے اجتماعی چلن میں شریک کار ہوجاتا ہے تو پھر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر سب ظالم ہو جاتے ہیںٍ اوراصلاح کی گنجائش کا دم گھٹتا چلا جاتا ہے، رحم نام کی کسی چیز سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔دانشور طبقہ جس پر معاشرے کی اصلاح کی ذمے داری عائد ہوتی ہے
وہ بھی موذی مخلوق کا روپ دھار لیتا ہے اور 'بات' کی سچائی حقانیت اور دانش کا پہلو اجاگر کرنے کے بجائے اپنے موقف اور نکتہ نظر پر اینٹھنے لگتا ہے اور جب بات ذات کی آ جاتی ہے تو انا خود بخود سر اٹھاتی ہے یوں تاریخی مثالوں ِ ،علمی دلائل اور منطق کے انبار میں دبی سچائی کو ' عامتہ الناس ' کا شعور قبول کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے ان کے نفس کو بے انتہا تاویلیں میسر آجاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ خود کو دھوکے دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس فلسفے کو اگر معاشرے کے ان تمام طبقات پر لاگو کیا جائےجو افراد کے فہم وادراک پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی سوچ کو تشکیل دیتے ہیں تو انا کا یہ مہلک زہرقوم میں سرایت کر جاتا ہے جو اپنی تاثیر سے رفتہ رفتہ قوم کی معقولیت، تہذیب، زندہ دلی ،علم اور تبدیلی کو تسلیم کرنے والے عناصر کو بے جان کر دیتا ہے یوں قوم جاہلوں کے اس جتھے میں تبدیل ہو جاتی ہے جسے چکاچوند اور پروپیگنڈے کا چابک حسبِ منشا ہانک سکتا ہے جبکہ انفرادی شعور کی طاقت یہ ہونی چاہیے کہ وہ آپ کو اجتماعی جہالت کا شریک کار ہونے سے بچائے جو کہ خود اپنے آپ میں منقسم، منتشر اورمضطرب ہوتی ہے۔
درحقیقت فرد کا انفرادی شعور وہ پیمانہ ہونا چاہیے جو فرد کے کردار اور عمل کا تعین کرے انفرادی شعور کا حق یہ ہے کہ اس کے امتیاز کو قائم رکھا جائے ۔قانونِ فطرت انسان سے تقاضہ کرتا ہے وہ اپنے انفرادی شعور کو استعمال کرے اور اپنے طرزِ عمل کی تمام تر ذمے داری اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کے مطابق خود اٹھائے۔
انفرادی شعور،ادراک، مزاحمت اور اختلاف انسانی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ قوت تخیل،سوچ اور اندازِفکر معاشرے کو متاثر کرنے والے بنیادی عوامل ہیں ۔انفرادی سوچ کے بل بوتے پر ہی دنیا میں مختلف تحریکیںجنم لیتی ہیں ،قوانین بنتے ہیں،بغاوتیں رونما ہوتی ہیںاور مختلف ادارے بھی وجود میںآتے ہیں۔ماسوائے مسلمانوں کے دنیا کی دیگر اقوام کے جن افراد میںانفرادی شعور کی فطری انگڑائی کی لہر اٹھتی ہے تو وہ انسانیت کے تصور سے منسلک ہوکر اس کی تسکین کرتے ہیں۔مسلمانوں کے پاس چونکہ نظامِ زندگی سے متعلق مرتب شدہ نصاب دین اسلام کی تعلیمات کی صورت میں موجود ہے لِہٰذا ہمارا انفرادی شعور اپنے دین سے جڑ پکڑتا ہے ۔
ہمارے دین کا اصل مزاج یہ ہے کہ وہ فرد کو سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے اور اس آزادی کا اختیار دینے کی غرض سے فرد کو انفرادی شعور سے مزین کیا گیا ہے یعنی فرد کا انفرادی شعور اُس کی فطرت ہے اور جیسے جیسے انسان نفسانی عوامل کے تحت اپنی فطرت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے وہ پراگندگی ،ابتر ی اور جرم کا شکار بنتا جاتا ہے اور نہ صرف اپنی ذات کے لیے خسارے کا باعث بنتا ہے بلکہ ایسا فرد معاشرے کو بھی متعفن کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اندر کی آواز کو سنا جائے اور اسے مضبوط کیا جائے اور خارجی حالات کی عدم مطابقت کے مقابلے میں ازخود اپنی تربیت کا اہتمام کرے اس آواز کی رہنمائی میں جسے ' ضمیر' کہتے ہیں۔