ہنگری میں وکٹر اوربان کی فتح خدشے اور اندیشے

ہنگری میں ایک بار پھر فتحیاب ہوکر وکٹر اوربان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔

یورپ میں تیزی سے تشکیل پاتی دائیں بازوکی حکومتیں یورپی سیاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ آسٹریا، بیلجیئم، بلغاریہ، ڈنمارک، فرانس ، پولینڈ، سوئٹرز لینڈ اور رومانیہ کے بعد اب ہنگری میں نسل پرست جماعت کی برتری اعتدال پسندی کا نعرہ بلند کرنے والی مہذب دنیا کے نزدیک خطرے کی علامت ہے۔

ہنگری میں ایک بار پھر فتحیاب ہوکر وکٹر اوربان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں نے اوربان کی فتح پر جشن منایا اور ان کو ایک بار پھر خوش آمدید کہا۔ وکٹر اوربان کی فتح اس بات کا ثبوت ہے کہ یورپی یونین کی امیگریشن پالیسیوں اور دیگر انسان دوست اقدامات کو یورپ میں دھیرے دھرے رد کیا جا رہا ہے ۔ اسی لیے جرمنی کے دائیں بازو کے رہنماؤں نے کہا کہ اوربان کی فتح کا دن یورپی یونین کے لیے تو بدترین ہے مگر یورپ کے لیے بہترین ہے۔

اوربان کی یورپ کے دائیں بازو کے حلقوں میں مقبولیت کا راز ان کے مہاجرین اور اسلام مخالف نظریات اور اقدامات ہیں، جن کی ترویج کے لیے ہمیشہ میڈیا کو سب سے اہم آلے کے طور پر استعمال کیا گیا اور مسلم مہاجرین کے خلاف دہشتناک داستانیں بنا کر ہنگری کے عوام تک پہنچائی گئیں۔ ویسے تو ہنگری میں ذرایع ابلاغ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے ارکان پر بے شمار قدغنیں عائد ہیں لیکن اسلام دشمن نظریات ان کی سرگرمیوں کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ ان نظریات کے فروغ میں وکٹر اوربان کا بہت بڑا کردار ہے جنھیں ''نسل پرست'' اور ''اجنبیوں سے خوفزدہ شخص'' کا خطاب دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی نقاد انھیں bad boy کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

ہنگری کی آبادی تقریباً دس ملین ہے۔ یہاں مسلمان اندازاً چھ ہزار کے قریب ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار خود کو ہنگری کا باشندہ ہی قرار دیتے ہیں، جب کہ باقی کا تعلق مختلف عرب ممالک سے ہے۔ ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں صرف ایک مسجد ہے، وہ بھی پانچ سو سال قبل یہاں ترک انتظام کے تحت قائم کی گئی۔ یورپ میں ہنگری وہ واحد ملک ہے جہاں 72 فی صد آبادی یعنی آبادی ایک تہائی اکثریت مسلمانوں کے لیے منفی جذبات رکھتی ہے۔

مسلمانوں کی تعداد اتنی قلیل ہونے کے باوجود ہنگری کے عیسائی انھیں اپنے لیے خوف اور دہشت کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں ہنگری کے مسلم دنیا کے ساتھ کافی خونی معرکے ہوئے ہیں جس کے اثرات آج بھی ہنگری کے معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ چار سو سال بعد آج بھی ہنگری کے اسکولوں میں جو نظمیں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں ان میں ترکوں کی طرف سے مبینہ طور پر ہونے والے مظالم کو بار بار بچوں کے اذہان میں تازہ کیا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کے وسط میں ہنگری سوویت حکمرانی تلے آیا تو مشرقِ وسطی کے کئی ممالک سے اس کے تعلقات استوار ہوئے۔ وہاں سے طلبا کی ایک بڑی تعداد میڈیکل اور انجنیئرنگ کی تعلیم کے لیے ہنگری آئی اور بیشتر ہنگری کی لڑکیوں سے شادی کر کے یہیں مقیم ہوگئے۔ 1989ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد ہنگری نے یورپ کی طرف رخ کیا، NATO کا ممبر بنا اور2004ء میں یورپی یونین میں شامل ہوگیا۔ اس وقت تک ہنگری میں اسلام دشمنی اس قدر نہ تھی جیسی کہ اب ہے، لیکن ہنگری عوام رفتہ رفتہ مسلمانوں کے خلاف ہوتے چلے گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جب ہنگری کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے بہتر مواقعے کے حصول کے لیے برطانیہ اور جرمنی کا رخ کیا تو وہاں ان کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا گیا۔


اس عمل سے ہنگری کے عیسائیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف جذبات پنپنے لگے اور انھوں نے کہا کہ مسلم مہاجرین تو غیر ہیں لیکن ان کے لیے دروازے کشادہ ہیں، جب کہ خالص یورپی ہونے کے باوجود ہمیں قبول کرنے میں عار سمجھی جا رہی ہے۔ اس سوچ نے ہنگری کی معاشرت اور سیاست میں انتہا پسند نظریات کو فروغ دینے میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور دائیں بازو کی سیاست نے جڑیں مضبوط کرنی شروع کردیں۔ ان ہی انتہاپسند نظریات کے باعث آج سرب اور ہنگری کی سرحد کے درمیان پھنسے پانچ لاکھ مہاجرین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ہر دس میں سے سات ہنگری باشندے ان مہاجرین کو بوڈاپسٹ میں دیکھنے کے خیال ہی سے نالاں ہیں اور انھیں واپس جنگ زدہ خطوں کی طرف ہنکانا چاہتے ہیں۔

ہنگری کے عوام کی عام سوچ یہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے ان پر بہت ظلم ڈھائے ہیں اس لیے انھیں ہنگری میں جگہ فراہم نہیں کی جا سکتی، نیز مسلمان حملہ آور اور انتہاپسند ہیں۔ اس سوچ کے حامل معاشرے میں اگر وکٹر اوربان ہر بار منتخب ہوجاتے ہیں تو حیرت کیسی؟ وہ وکٹر اوربان جو ہنگری کے نئے آئین کی پانچویں سال گرہ کے موقعے پر ہنگری میں اسلام پر مکمل آئینی پابندی لگا دیتے ہیں تاکہ ہنگری کی زبان اور ثقافت کا تحفظ کیا جا سکے۔ اوربان کہتے ہیں کہ ہمیں اس فیصلے کی آزادی ہے کہ کسے اپنے اندر بسانا ہے اورکسے نہیں ، وہ بھی مہاجرین کو ان کے ممالک میں واپس بھیجنے کے خیال کے ہی حامی ہیں۔

ان ہی انتہا پسند خیالات کی وجہ سے وہ ہنگری میں مزید طاقت پکڑتے جا رہے ہیں۔ مہاجرین کے متعلق بنائی جانے والی اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی پالیسیوں کو اوربان نے گزشتہ ادوار میں بھی پیروں تلے روندا ہے اور اب بھی وہ ماضی کی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ انتخابات میں ان کی فتح کے بعد یورپی یونین نے ان سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے وکٹر اوربان یورپی یونین کی اقدارکا تحفظ کریں گے، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یورپی یونین ہنگری سے نا امید ہوچکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اوربان کا واضح جھکاؤ روس کی طرف ہے اور وہ یورپی یونین کی ان پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں جن سے یورپ میں روس کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔

قوم پرستی کی ابتدا احساس تفاخر سے ہوتی ہے لیکن اس کی آخری حد کوئی نہیں ہوتی۔ دنیا میں آج تک ہونے والی جنگوں اور تنازعات کا کسی نہ کسی حوالے سے قوم پرستی سے ہی تعلق نکلتا ہے۔ ایک قوم پرست فرد اپنی قوم کے سیاسی اور قومی شعور کو بیدار کرے تو قوم پرستی ایک مثبت جذبہ بن جاتی ہے دوسری صورت میں یہ نفرت بھرے عناصر کی تشکیل کے سوا کچھ نہیں رہتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1945ء میں ہٹلرکے خاتمے کے بعد آج تک کسی ماں نے اپنے بچے کا نام ہٹلر نہیں رکھا۔

یہی انتہاپسند اور قوم پرست نظریات اگر ہٹلرکی شہرت کی وجہ بنے تو یہی جنگ عظیم کی وجہ اور ہٹلرکی شکست کا باعث بھی قرار پائے۔ اس انتہا پسند نظریے نے انسانیت کو دو عالمی جنگوں کے شعلوں سے جھلسا دیا۔ کروڑوں جانیں گئیں، شہر اور گاؤں اُجڑے، جرمنی کے دو ٹکڑے ہوئے اور ہٹلر کا شمار تاریخ کی بدترین شخصیات میں کیا گیا۔ یورپ میں ایک بار پھر یہی نظریات راسخ ہوتے جا رہے ہیں۔ اب کی بار نشانہ مسلمان ہیں جنھیں ''زہریلی نسل'' کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ ریڈیو، فلموں، اخباروں کے ذریعے اور اسکولوں میں اسلام مخالف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ احساس تفاخر اور قوم پرستی ایک بار پھر یورپ کی ہواؤں کو آلودہ کر رہی ہے۔ اسی لیے ہنگری کے انتخابی نتائج پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز رہی، وکٹر اوربان کی فتح پرکہیں تو جشن منا یا گیا اورکہیں تفکرات کے سائے مزید گہرے ہوگئے۔

یورپی نسل پرستی ماضی میں کبھی دنیا کو اچھے نتائج سونپ کر نہیں گئی۔ خیرکی توقع اب بھی معدوم ہو چلی ہے ۔ آنے والا وقت انسانیت کے لیے کبھی بھی بے رحم ہو سکتا ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دے کر اس انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے مزید انتہاپسند رویے اپنانا ہی اگر یورپ کی دانش مندی ہے تو ایسی دانش کے سنگین اثرات بھگتنے کے لیے ایک بار پھر دنیا کمر کس لے ۔
Load Next Story