اچھوت

امبیڈکر پر ہر طرف سے زبردست دباؤ پڑرہا تھا۔ بالاخر پانچویں دن امبیڈکر کو مشترکہ الیکٹوریٹ پر راضی ہونا پڑا۔


April 28, 2018
فوٹو : فائل

HYDERABAD: ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر کا تعلق اچھوت طبقہ سے تھا۔ انھیں کلاس روم میں بینچ پر نہیں بلکہ زمین پر ایک ٹاٹ کے ٹکڑے پر بیٹھنے کی اجازت تھی۔ وہ جب میٹرک کے امتحان میں ممبئی پریسڈنسی میں ٹاپ رینک پر کام یاب ہوئے تو مہاراجہ بڑودہ نے اسکالر شپ دے کر انگلستان اور امریکا میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔

وہ نیویارک اور لندن میں پڑھ کر واپس ہوئے تو انہیں مہاراجہ بڑودہ کے ملٹری سیکریٹری کا عہدہ دیا گیا۔ 1917ء میں جب وہ بڑودہ ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے تو کوئی انھیں لینے نہیں آیا۔ باوجود اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے وہ ایک اچھوت خاندان کے فرد تھے۔

26 سالہ امبیڈکر سوٹ بوٹ میں اپنے آپ کو برہمن بناکر کسی ہوٹل میں ٹھہرسکتے تھے، لیکن اپنی شناخت کو چھپانا اتنا آسان نہ تھا۔ ایک ٹانگے والا انہیں ایک پارسی ہوٹل لے گیا، لیکن وہاں کے منیجر کو جب معلوم ہوا کہ وہ اچھوت ہیں تو ٹھہرانے سے انکار کردیا۔ پھر ایک شرط پر کہ وہ اپنا نام رجسٹر میں پارسی لکھے انہیں ہوٹل کے اوپر کے کمرے میں ٹھہرنے کا سہارا مل گیا۔ ڈیڑھ روپیہ یومیہ پر کھانے کا انتظام ہوگیا۔ امبیڈکر کو آفس میں کیا کام کرنا تھا کسی نے نہیں بتایا۔ وہ جب اپنے آفس روم میں جاتے تو کلرک، چپراسی اپنی نفرت کا برملا اظہار اس طرح کرتے کہ ان کی میز پر فائلیں پھینک کر غائب ہوجاتے، کوئی نزدیک نہیں جاتا۔ انہیں پینے کے لیے پانی بھی نہیں دیا جاتا۔ آفیسرز کلب میں وہ دور ایک کونے میں بیٹھے رہتے۔ ان کے آفس میں فرش سے کوئی چیز اٹھاکر دینے والا نہ ہوتا۔ انہیں جب بھی وقت ملتا وہ بڑودہ کی پبلک لائبریری جاتے وہاں پر اکنامکس اور سیاست پر کتابیں پڑھتے۔ وہ اپنے لیے ایک بنگلے کی الاٹمنٹ کی درخواست دے چکے تھے۔

ایک دن جب وہ آفس جانے کے لیے تیار ہورہے تھے، قریب ایک درجن پارسی لاٹھیوں سے لیس، چیختے چلاتے امبیڈکر کے کمرے پر پہنچے۔ گالی گلوچ کرتے ہوئے فوراً ہوٹل خالی کرنے کے لیے کہا کیوں کہ ایک اچھوت اس ہوٹل کو ناپاک کرچکا تھا۔ امبیڈکر نے ان سے التجا کی کہ کم از کم انہیں ایک ہفتے تک ٹھہرنے کی اجازت دیں تاکہ گورنمنٹ سے کوئی بنگلہ انہیں الاٹ ہوجائے لیکن وہ بضد تھے، چناں چہ اسی وقت انہیں کمرہ خالی کرنا پڑا اور وہ اپنے ساز و سامان کے ساتھ ایک پبلک گارڈن میں بیٹھے رہے اور رات 9 بجے کی ٹرین سے بمبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔ اٹھارہ سال بعد وہ اس واقعہ کو لکھنے بیٹھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ کسی اسکالر نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ ان کی زندگی کا انقلابی موڑ تھا۔ وہ ذات پات کے بھید بھاؤ اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کی راہوں پر چل پڑے۔

The right to water (تالاب سے پانی پینے) کے لیے ستیہ گرہ ریاست مہا راشٹرا میں مھاد کے تالاب سے چند اچھوتوں نے پانی پی لیا۔ برہمن بچاریوں نے منتر پڑھتے ہوئے108مٹی کے گھڑوں میں تالاب سے پانی نکالا۔ بچاریوں نے اعلان کیا کہ اب اس تالاب کا پانی اعلیٰ ذات کے ہندو پی سکتے ہیں ( وہ پاک ہوچکا ہے) جب امبیڈکر کی قیادت میں اچھوتوں نے پانی استعمال کیا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ تین ہزار سے زائد دلت ستیہ گری بھی خون خرابہ کے لیے تیار تھے، لیکن امبیڈکر نے انہیں ایسے کسی فساد سے بعض رکھا۔

یہ مہا ستیہ گرہ دلت اقوام کی سیاسی بیداری کا پہلا بگل ثابت ہوا۔ اس وقت کسی نے نہیں سوچا ہوگاکہ 20 سال بعد وہی امبیڈکر دستور ہند کا خالق ہوگا اور جدید ہندوستان کا مانو ہوگا۔ امبیڈکر سارے بمبئی پریسڈنسی میں ایک ہی دلت پوسٹ گریجویٹ تھے۔ بڑودہ میں ذلت آمیز سلوک کے بعد انہوں نے اخبار نکالے اور دلت تنظیموں کا کام شروع کیا۔

گاندھی جی بڑودہ جیل میں تھے۔ ان کی عمر 63 سال تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ امبیڈکر کے مطالبہ کے خلاف مرن برت رکھیں گے۔ گاندھی جی اچھوت قوم کو ہندو دھرم ہی کا حصہ مانتے تھے۔امبیڈکر کا مطالبہ تھا کہ اچھوتوں کے لیے علیحدہ الیکٹوریٹ دیا جائے۔ انہوں نے اعلان کر دیاکہ میں ہندو ذات کا حصہ نہیں۔ میں ان سے الگ ہوں۔گاندھی جی کا خیال تھا کہ ہندو ازم کی غلط تعبیر کی وجہ سے اعلیٰ اور کم ذات کا بھید بھاؤ وجود میں آیا جس کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہے اور امبیڈکر کا خیال تھا کہ چھوت چھات ہندو مذہب کا اٹوٹ حصہ ہے اور وہ برابر باقی رہے گا جب تک کہ اسے جڑ پیڑ سے اکھاڑ نہ دیا جائے۔

اگست 1932ء میں پست اقوام کے لیے علیحدہ الیکٹوریٹ کا اعلان کردیاگیا۔ گاندھی جی نے جیل میں مرن برت کا اعلان کردیا۔ امبیڈکر نے اس مرن برت کو سیاسی کھیل قرار دیا اور اعلان کیا کہ مہاتما مجھے اس بات پر مجبور نہیں کریں گے کہ ان کی زندگی کے لیے میں اپنی قوم کے حقوق کو پامال کروں۔

امبیڈکر پر ہر طرف سے زبردست دباؤ پڑرہا تھا۔ بالاخر پانچویں دن امبیڈکر کو مشترکہ الیکٹوریٹ پر راضی ہونا پڑا۔ مدراس کے ایک اچھوت لیڈر نے امبیڈکر سے کہا کہ اگر گاندھی جی کی موت اسی برت سے ہوگئی تو اعلیٰ ذات کے ہندو ہمیں اور بھی قعر مذلت میں دھکیل دیں گے۔ گاندھی جی نے کستوربا کے ہاتھوں سنتروں کا رس لیا اور وہ برت اس طرح ختم ہوا اور بہت سی رعایتوں کا اعلان ہوا لیکن یہ امبیڈکر کو مطمئن نہیں کرسکے۔

14 اکتوبر 1956ء کو ناگپور کے ایک وسیع میدان میں لاکھوں اچھوت سفید لباس میں جمع ہوگئے۔ امبیڈکر سفید کرتا اور دھوتی میں اپنی بیوی کے ساتھ ڈائس پر آبیٹھے جہاں پہلے سے بدھ مت کے پانچ بھکشو تھے۔ انہیں بدھ مت میں شامل کرنے کے لیے کچھ رسومات کی ادائیگی کے بعد امبیڈکر نے بدھا کے مجسمے کی پوجا کی اور سفید کنول پیش کیے اور پھر تمام دلتوں جو تین لاکھ سے زائد تھے، ان سے کہا کہ جو کوئی بدھ مت میں شامل ہونا چاہتا ہے وہ کھڑا ہوجائے۔ اس میدان میں سارے لوگ کھڑے ہوگئے۔ امبیڈکر نے انہیں قسم دلائی اس طرح وہ تمام بدھ مت میں شامل ہوگئے۔ امبیڈکر نے قسم کھائی تھی کہ وہ اچھوت پیدا ہوا ہے، لیکن اچھوت رہ کر نہیں مرے گا۔ امبیڈکر کی صحت خراب رہنے لگی۔ بدھسٹ بننے کے دو ماہ کے اندر ان کا انتقال ہوگیا۔

امبیڈکر کا احسان صرف اچھوتوں پر نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام اقلتیوں پر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امبیڈکر کے مجسمے گاؤں گاؤں دیکھنے میں آتے ہیں۔

( محمد اسحاق کا یہ مضمون 2006 ء میں ماہ نامہ ''سب رس'' میں شایع ہوا تھا۔ علم و ادب کے شائق عبدالرزاق گلبرگوی نے اس تحریر سے یہ سطور منتخب کی ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں