ریت میں دھنستے ہوئے قدیم کتب خانے

حکومتی سطح پر ان کتب خانوں کی مرمت کے ساتھ انہیں صحرا کی ریت سے بچانے کی ضرورت ہے۔


April 28, 2018
حکومتی سطح پر ان کتب خانوں کی مرمت کے ساتھ انہیں صحرا کی ریت سے بچانے کی ضرورت ہے۔فوٹو : فائل

KARACHI: صحرا کے درمیان واقع شنقیط براعظم افریقا کا تاریخی شہر اور تجارتی مرکز رہا ہے۔ صدیوں پہلے موریطانیہ کے اس شہر میں تاجر دور دراز سے سفر کرکے آتے اور خریدوفروخت کے بعد اپنے شہروں کو لوٹ جاتے۔ یہ شہر اس دور میں علم و فنون کا مرکز بھی تھا جس کا ثبوت یہاں موجود قدیم لائبریریاں ہیں جو آج موریطانیہ کا اہم ترین ثقافتی ورثہ تصور کی جاتی ہیں۔

ان کتب خانوں میں ہزار برس پرانے تحریری نسخے اور دیگر قدیم دستاویزات آج بھی محفوظ ہیں۔ ان قدیم نسخوں، مقدس اوراق اور مختلف کتب کو گزشتہ چند برسوں کے دوران صحرا کی ریت نے برباد کرنا شروع کر دیا ہے۔

ماضی بعید میں شنقیط سے حج کے لیے قافلے روانہ ہوتے تھے۔ عازمین اور حجاج سفر کے دوران جو مذہبی کتب، مقدس نسخے اور اشیا حاصل کرتے تھے وہ یہاں کی لائبریریوں کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔ چند برس قبل تک شنقیط کی ایسی چند لائبریریوں کی دیکھ بھال مقامی اسکول ٹیچر سیف الاسلام انجام دیتے رہے ہیں۔ ان لائبریریوں میں قرونِ وسطیٰ سے لے کر موجودہ دور کی تقریباً سات سو کتابیں اور مخطوطات محفوظ ہیں، جن کی نگرانی اب بھی سیف الاسلام کا خاندان کررہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس شہر کی لائبریریوں میں نویں صدی عیسوی تک کی تحریریں بھی محفوظ ہیں۔ ان میں ہرن کی کھال پر رقم تحریریں بھی ہیں جو ایک عظیم ورثہ ہیں۔ ان لائبریریوں کی عمارتیں پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں اور یہ اس دور کے کاری گروں کی مہارت کا نمونہ ہیں۔

تاہم اب ان کی عام طریقے سے دیکھ بھال کا خاص فائدہ نہیں بلکہ حکومتی سطح پر ان کتب خانوں کی مرمت کے ساتھ انہیں صحرا کی ریت سے بچانے کی ضرورت ہے۔ شنقیط کی معیشت کا انحصار ثقافتی سیاحت پر ہے اور یہی آمدنی آثار اور قدیم عمارتوں کی دیکھ بھال پر خرچ کی جاتی ہے، مگر افریقا میں دہشت گردی اور بدامنی کے باعث پچھلے چند برسوں کے دوران سیاحوں نے بھی یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

دوسری طرف صحرا کی ریت آہستہ آہستہ اِس شہر کو نگلتی جا رہی ہے اور یہاں موجود یہ قدیم عمارتیں بھی ریت میں دھنس رہی ہیں۔ یہاں کے باشندے اپنے بزرگوں کی ان یادگاروں اور علم و فنون کے بیش قیمت ورثے کو مٹتا ہوا دیکھنے پر مجبور ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں