اساتذہ پر تشدد
امریکا میں اوسطاً 7فی صداساتذہ طلبا تشّدد کانشانہ بنتے ہیں۔ 5.9فی صد طلبا ہتھیاروں سے لیس ہو کر اسکول آتے ہیں۔
ارسطو نے کہا تھا کہ '' استاد کا رتبہ والدین سے بڑھ کر ہے،والدین کے ذریعے انہیں صرف زندگی ملتی ہے جب کہ اساتذہ انہیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔'' آج کیفیت یہ ہے کہ '' زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانے والوں'' کی اپنی جان پر بن آئی ہے۔ دنیا بھر میں طلبا کے ہاتھوں اساتذہ کرام کی تحقیر، تذلیل اور پٹائی کے واقعات نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔
برطانیہ،2008-9 کے اعداد و شمار کے مطابق میں 511 طلباکو برے رویے اور مار پیٹ کی بنا پر اسکول سے خارج کیا گیا۔ ایک برس کے دوران اسکول سے خارج کیے جانے والے طلبا کی تعداد 96,990 ہے۔برطانیہ کی انجمن برائے اساتذہ و لیکچررز کے ایک سروے کے مطابق پرائمری اسکول اساتذہ کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ طلبا اوائل عمر ہی میں متشّدد ہو جاتے ہیں۔55 فی صد اساتذہ کا خیال ہے کہ گزشتہ 5 برس کے دوران تشّدد کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔برطانیہ کے تمام اسکولوں سے تشّدد کی بنا پر خارج کئے جانے والے طلبا کی تعداد 2010ء میں 161,540 تھی۔ یعنی اسکول کھلنے کے دنوں کے حساب سے قریباً 850 طلبا روزانہ۔
نیوزی لینڈ میں بھی حال کچھ مختلف نہیں، وہاں روزانہ سیکنڈری اسکولز کے کم از کم دو اساتذہ کی طلبا کے ہاتھوں شدید پٹائی ہوتی ہے۔پرائمری اسکول اساتذہ انجمن کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو روزانہ ہی لاتیں ، گھونسے ، مختلف چیزوں سے مار پیٹ اور گالی گلوچ وغیرہ برداشت کرنا پڑتی ہے۔(PPTA صدر کیٹ گینس فورڈ)۔
آسٹر یلیا ،2008ء میں قریباً 55,000 طلبا کو اساتذہ پر تشّدد اور دیگر جارحانہ رویوں کی بنا پر اسکولوں سے فارغ کیا گیا۔فرانس، بیلجیئم ،بلغاریہ غرض ہر جگہ حال برا ہے۔جاپان کی وزارتِ تعلیم کا کہنا ہے کہ پبلک اسکولوں میں متشّددانہ کارروائیوں کے 52,756 کیس سامنے آئے ۔ ان میں سے زیادہ تر کا نشانہ اساتذہ تھے۔(2007ء)
امریکا میں اوسطاً 7فی صداساتذہ طلبا تشّدد کانشانہ بنتے ہیں۔ 5.9فی صد طلبا ہتھیاروں سے لیس ہو کر اسکول آتے ہیں ۔یہ اعداد شمار 2003کے ہیں ، اس دوران امریکا نے مزید کتنی ترقّی کی ہو گی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکا میں 2009-10ء کے دوران فائرنگ سے اسکولوں میں 5طلبا ہلاک ہوئے، 2010-11ء میں 12طلبا، اور 2012 ء میں اب تک امریکی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نے فائرنگ کر کے کم از کم 11 اساتذہ و طلبا کو ہلاک کر دیا ہے۔
مار پیٹ کے علاوہ اساتذہ کرام کو چِڑانے،ان کے برے برے نام رکھنے، انھیں خراب القابات سے نوازنے اور انھیں دھونسانے کے واقعات میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔35.4فی صد اساتذہ کو ایسے تکلیف دہ روّیے برداشت کرتے 5 برس سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔یہ ہی سبب ہے کہ اس شعبے سے وابستہ ہونے والے افراد کی 40فی صد تعداد 5برس کے اندر ہی درس و تدریس سے تائب ہو جاتی ہے۔ کسی بھی شعبے سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کی یہ ایک بڑی تعداد ہے۔اساتذہ کے ساتھ مار پیٹ کے معاشی نتائج بھی کم گھمبیر نہیں ۔ برطانوی اساتذہ کی سب سے بڑی انجمن NASUWT نے اپنے اراکین کو کلاس روم تشّدد اور حادثات کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 12.6ملین پونڈ کی رقم مختص کر رکھی ہے۔ یہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 20فی صد زیادہ ہے۔
طلبا میں تشّدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے مختلف ماہرینِ تعلیم کا خیال ہے کہ بچوں کی تربیت کے ضمن میں والدین کو آگے بڑھ کے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔افسوس کہ ان ماہرین کی توجہ اس جانب نہیں کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی کہاں ہے۔مختلف قسم کے سروے بتاتے ہیں کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ والدین کا اپنے بچوں کو وقت دینا کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
اعلیٰ معیارِ زندگی کے حصول کے لیے میاں بیوی دونوں گھر سے نکل پڑے ہیں۔زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کی اندھی دوڑ نے خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔کسی کے پاس دوسرے کے لئے وقت نہیں، ہر کوئی مصروف اور الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خاندانی نظام مفقود ہے۔ بعض ایسی فیملیز بھی ہیں جہاں والد کی اپنے بچوں سے ملاقات صرف ناشتے کی میز پر ہوتی ہے، ایسے میں بچوں کی تربیت کون کرے گا؟
عام مشاہدہ ہے کہ بچے اپنی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد کارٹون دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر کارٹون تشّدد اور ہیجان سے لبریز ہیں۔ یہ ہی حال کمپیوٹر گیمز کا ہے۔ جب دو برس کی عمر سے بچہ کارٹونز اور گیمز کے ذریعے شر پسندی و قتل و غارت گری دیکھ رہا ہے، سیکھ رہا ہے اور برت رہا ہے۔ تو آخر اسکول میں وہ اپنے اساتذہ اور ہم جولیوں کو ایذا پہنچانے یا قتل کرنے میں لذّت کیوں نہ محسوس کرے۔دوسری جانب corporal punishmentکے خاتمے کے بعد سے اساتذہ کو تو بچوں کو ڈانٹنے کی بھی اجازت نہیں ۔ ادھر برابری اور مساوات کے درس نے رشتوں اور رشتوں کے تقدس کو ختم کر دیا ہے۔
سول سوسائٹی میں تقدس کوئی چیز نہیں۔ بہتر معیارِ زندگی اور زیادہ سے زیادہ روپے بٹورنے کے لیے استاد ہمیں عصری فنون سکھاتا ہے۔ ہم اسے محنتانہ دیتے ہیں۔ اس خرید وفروخت میں تقدس کہاں سے آ گیا؟ پاکستان میں بھی بڑے بڑے نجی اسکولوں سے لے کر یونی ورسٹیز تک، ہر جگہ اساتذہ دھونس اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔روایتی شرم و دیگر مجبوریوں سے خواتین اساتذہ تو خود پر بیتنے والی بپتا کسی کو سنا بھی نہیں پاتیں۔ بد تمیزی، بد تہذیبی، آوازیں کسنا،فحش اشارات سے لے کر گالی گلوچ اور مار پیٹ تک، سب کو سب کچھ درجہ بہ درجہ سہنا پڑتا ہے۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ اِسی دنیا میں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو مذہبی تعلیمات، یوگا یا meditationوغیرہ کے لیے وقف ہیں۔ وہاں اساتذہ کی مثالی عزت کی جاتی ہے۔ یہ استاد کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی گرو، پنڈت، لاما، ربی،پریسٹ، سینٹ یا کوئی عام سا مولوی۔ طالب علم ان اساتذہ پر گویا فدا ہوتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ اساتذہ کو تو کیا ان کی جوتیوں کوسر آنکھوں پر اٹھائے پھریں ۔
اُن کے حصے میں وہ محبت وخدمت آتی ہے جس کی مثال آکسفرڈ و کیمرج میں ممکن نہیں۔ در آں حال یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ ان سکھائے گئے علوم سے انھیں کبھی کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہیں ملنے والی۔ایک مذہبی جذبہ ہوتا ہے جو دل سے استاد کی عزت کرواتا ہے،استاد کا باپ کی طرح احترام کیا جاتا ہے،اس کے برابر چلنا توہین سمجھا جاتا ہے،استاد کے سامنے ادب سے اور نظریں جھکا کر بات کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ عظیم فرق و تفاوت کیا ہے؟ کیوں ہے؟
کہتے ہیں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ یہ ترقی، آزادی ، مساوات اور معیارِ زندگی کی قیمت ہے جو اساتذہ اپنے خونِ جگر سے چکا رہے ہیں۔