کانگو وائرس سمیت متعدد وائرل بیماریاں پھیل گئیں
عوام پولیو،ڈنگی،نگلیریا اورکانگو سمیت مختلف وائرس کی لپیٹ میںآگئے،محکمہ صحت نےوائرس سےنمٹنےکیلیےعملی اقدامات نہیں کیے.
ISLAMABAD:
کراچی میں پولیو،ڈنگی، نگلیریا کے بعدکانگووائرس کراچی میں پھیل گیاجس کے بعد کراچی کے عوام مختلف وائرل بیماریوں کی لپیٹ میں آگئے جبکہ بچے پولیووائرس کی زد میں ہیں،کراچی کے پٹیل اسپتال میں ایک مریض کی ہلاکت کے بعد ماہرین طب اورعوام تشویش میں مبتلاہوگئے، محکمہ صحت نے ان وائرس سے نمٹنے کیلیے عملی اقدامات نہیں کیے محکمہ صحت صرف سیل بنا کراپنی ذمے داریاں پوری کرلیتا ہے،کانگوائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے۔
یہ وائرس متاثر جانوروںسے انسانوں میں پھیلتا ہے ، ہرسال بلوچستان میںاس وائرس کے سب سے زیادہ مریض رپورٹ ہوتے ہیں تاہم یہ وائرس پاکستان میںعید الاضحی کے موقع پر اس وقت پھیلتا ہے جب عیدقربان کے موقع پر ملک بھر سے جانوروںکی نقل حمل کی جاتی ہے ان جانوروں میں بیشترکانگو وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جوملک میں پھیلنے کا سبب بنتے ہیں، کراچی میں عیدالاضحی کے موقع پر یہ وائرس شدت اختیارکرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جب متاثرمریض کراچی کے نجی اسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتے ہیں، جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا کانگو وائرس کا جانوروں کی کھال میں چیپکنے والا پسو( TICK) سے ہوتا ہے۔
یہ مخصوص کیڑاجانواروںکی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے،جس سے جانورلاغراورشدید متاثر ہوتے ہیں ،اور یہ وائرس متاثرہ جانورکے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والے افرادکو بھی منتقل ہوجاتا ہے ،(پسو)ٹس کے کاٹنے سے یہ وائرس انسانی خون میں شا مل ہوتا ہے ،جو ہیمریجک فیورکا با عث بنتا ہے ،پاکستان میں 1976 میںپہلی بارکانگو وائرس کی تصدیق کی گئی تھی،پہلا مریض بلوچستان کے علاقے کولہو سے کراچی علا ج کے غر ض سے لایا گیا تھا جو جاں بحق ہوگیا تھا۔
1976میں کانگو وائرس سے ملک بھر میں 25 متاثرہ مریض رپورٹ ہوئے تھے ،ان میں 8 اموات کی تصدیق کی گئی تھی،کانگووائرس کی تشخیص پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہیںکی جاتی متاثرہ مریضوں کے خون کے نمونے افریقہ کی لیباٹرری بھیجے جاتے ہیں،دریں اثنا ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ستمبر سے دسمبرکے درمیان ہیمریجیک فیور کانگووائرس کی علامات میں سیکڑوں مریض رپورٹ ہوتے ہیں تا ہم ان میں سے بیشتر کے مریض کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجا تے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں کانگواوئرس دسمبر تک شدت اختیار کرجاتا ہے، ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ پسماندہ علاقون میں جانوروں کے ساتھ رہنے والے افراد اس وائرس کا نشانہ بنتے ہیں،کیونکہ پسماندہ علاقوں میں اس وائرس کی تصدیق نہ ہونے اور تشخیصی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ہر سال ہزاروں افراد اس وائرس سے متاثر ہورہے ہیں ،انھوں نے کہاکہ پسوجانورکی کھال کی کھال سے چپکا ہواہوتا ہے ،یہ پسو گائے بھینسوں، بھیٹرے بکریوں اوردیگر پالتوں جانوروں میں بھی پایاجاتا ہے۔
کراچی میں پولیو،ڈنگی، نگلیریا کے بعدکانگووائرس کراچی میں پھیل گیاجس کے بعد کراچی کے عوام مختلف وائرل بیماریوں کی لپیٹ میں آگئے جبکہ بچے پولیووائرس کی زد میں ہیں،کراچی کے پٹیل اسپتال میں ایک مریض کی ہلاکت کے بعد ماہرین طب اورعوام تشویش میں مبتلاہوگئے، محکمہ صحت نے ان وائرس سے نمٹنے کیلیے عملی اقدامات نہیں کیے محکمہ صحت صرف سیل بنا کراپنی ذمے داریاں پوری کرلیتا ہے،کانگوائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے۔
یہ وائرس متاثر جانوروںسے انسانوں میں پھیلتا ہے ، ہرسال بلوچستان میںاس وائرس کے سب سے زیادہ مریض رپورٹ ہوتے ہیں تاہم یہ وائرس پاکستان میںعید الاضحی کے موقع پر اس وقت پھیلتا ہے جب عیدقربان کے موقع پر ملک بھر سے جانوروںکی نقل حمل کی جاتی ہے ان جانوروں میں بیشترکانگو وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جوملک میں پھیلنے کا سبب بنتے ہیں، کراچی میں عیدالاضحی کے موقع پر یہ وائرس شدت اختیارکرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جب متاثرمریض کراچی کے نجی اسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتے ہیں، جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا کانگو وائرس کا جانوروں کی کھال میں چیپکنے والا پسو( TICK) سے ہوتا ہے۔
یہ مخصوص کیڑاجانواروںکی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے،جس سے جانورلاغراورشدید متاثر ہوتے ہیں ،اور یہ وائرس متاثرہ جانورکے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والے افرادکو بھی منتقل ہوجاتا ہے ،(پسو)ٹس کے کاٹنے سے یہ وائرس انسانی خون میں شا مل ہوتا ہے ،جو ہیمریجک فیورکا با عث بنتا ہے ،پاکستان میں 1976 میںپہلی بارکانگو وائرس کی تصدیق کی گئی تھی،پہلا مریض بلوچستان کے علاقے کولہو سے کراچی علا ج کے غر ض سے لایا گیا تھا جو جاں بحق ہوگیا تھا۔
1976میں کانگو وائرس سے ملک بھر میں 25 متاثرہ مریض رپورٹ ہوئے تھے ،ان میں 8 اموات کی تصدیق کی گئی تھی،کانگووائرس کی تشخیص پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہیںکی جاتی متاثرہ مریضوں کے خون کے نمونے افریقہ کی لیباٹرری بھیجے جاتے ہیں،دریں اثنا ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ستمبر سے دسمبرکے درمیان ہیمریجیک فیور کانگووائرس کی علامات میں سیکڑوں مریض رپورٹ ہوتے ہیں تا ہم ان میں سے بیشتر کے مریض کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجا تے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں کانگواوئرس دسمبر تک شدت اختیار کرجاتا ہے، ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ پسماندہ علاقون میں جانوروں کے ساتھ رہنے والے افراد اس وائرس کا نشانہ بنتے ہیں،کیونکہ پسماندہ علاقوں میں اس وائرس کی تصدیق نہ ہونے اور تشخیصی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ہر سال ہزاروں افراد اس وائرس سے متاثر ہورہے ہیں ،انھوں نے کہاکہ پسوجانورکی کھال کی کھال سے چپکا ہواہوتا ہے ،یہ پسو گائے بھینسوں، بھیٹرے بکریوں اوردیگر پالتوں جانوروں میں بھی پایاجاتا ہے۔