آئی ایم ایف سے کسی قسم کا بیل آوٹ پیکج لینے کی ضرورت نہیں مفتاح اسماعیل
مفتاح اسماعیل کا آئندہ عام انتخابات میں الیکشن لڑنے کا اعلان
وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے کسی قسم کا بیل آوٹ پیکج لینے کی ضرورت نہیں جب کہ بجٹ خسارے کو ساڑھے 5 فی صد پر روکیں گے۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کسی قسم کا بیل آوٹ پیکج لینے کی ضرورت نہیں ہے ،کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنے کیلئے برآمدات بڑھانے کے حوالے سے پیکج دیا گیا ہے ملک میں بجلی کی پیداواتر بڑھنے کی وجہ سے گردشی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں جب کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 100 ارب کی منظوری دیدی ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ برآمدی پیکج کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تین سال کے عرصہ میں برآمدات میں اضافہ کا ہدف دیا ہے جس کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جو برآمدی پیکج پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی قیمت کے حوالے سے موجود مسائل کو بروقت ختم کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ کراچی کے حلقہ این اے 243 اور244 سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، حانکہ وہ این اے 252 کراچی سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے تاہم نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے وزیراعظم نے مشورہ دیا ہے کہ میں حلقہ این اے 243 244 سے الیکشن لڑوں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں کراچی کیلئے شاندار پیکج کا اعلان کیا ہے جو ایم کیو ایم 25 سالوں میں نہیں کرسکی۔
دوسری جانب ریونیو کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ باہر کے لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ بجٹ کی تیاری کے لئے کتنی محنت کی گئی ہے، اس ضمن میں ایف بی آر کی ٹیم کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تیاری کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سمیت تمام شراکت داروں سے تفصیلی مذاکرات کے بعد قومی ترقی کے لئے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔
ہارون اختر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں سالانہ 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ایف بی آر کے محاصل دگنا ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں صوبوں کو 13 سو ارب روپے دیئے جاتے تھے جب کہ اب صوبوں کو 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے بھی ٹیکس کی شرح متعارف کرائی ہے جبکہ اس کے علاوہ مالیاتی اداروں ، نادرا اور بینکوں سے مل کر بھی کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل کیا جا سکے۔
پٹرولیم لیوی کی حد میں اضافے سے پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتوں میں 20روپے فی لیٹر اضافہ ہو جائے گا، جس سے کرایوں سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ اور مہنگائی کا طوفان برپا ہوجائیگا۔ ذرائع کے مطابق وفاق نے آئین کو نظراندازکئے بغیر صوبوں کے مالی وسائل پر پٹرولیم لیوی کے ذریعے 480 ارب روپے حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
لیوی کی حد 30 روپے فی لٹرتک بڑھانے سے عام صارفین کیلئے اسکی فی لیٹر قیمت میں 20روپے کا اضافہ ہو جائیگا اس سے حکومت کو ایک طرف 480ارب روپے کا ریوینو ملے گا وہاں دوسری طرف مرکزکے صوبائی اکائیوں سے ٹیکس کے معاملات بھی طے پا جائیں گے۔ پٹرولیم لیوی کا شمار ایسے ٹیکسوں کی کیٹگری میں ہوتا ہے جو وفاق او رصوبوں کے درمیان 7ویں قومی مالیاتی ایوارڈ کمیشن کے تحت نقسیم ہونے والوں ٹیکسوں میں شامل نہیں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرایک دفعہ یہ ٹیکس نافذ ہوگیا توعام صارفین کو 20روپے فی لیٹر مہنگا ملنے کیساتھ ہی اس کا اثرکرایوں سمیت تمام اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑیگا جس سے ملک بھر میں مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا۔ افراط زربڑھے گا اور ملکی معیشت ایک بڑے بحران کی زد میں آجائے گی۔وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق حکومت نے ہائی اسپیڈ ڈیزل پرموجودہ25.5 فیصد جی ایس ٹی اور پٹرول پر20 فیصد کوکم کرکے سٹینڈر ریٹ 17 فیصد تک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت محاصل کے قابل تقسیم پول سے صوبوں کو57.5فیصد ملتا ہے جس کے باعث وفاق کے پاس صرف دفاع اور قرضوں کی ادائیگی سمیت اپنے تمام اخراجات پورے کرنے کیلیے صرف42.5فیصد محاصل بچتے ہیں۔حکومت پر پٹرولیم پر سیلز ٹیکس میں کمی کے ذریعے جودباؤ آئے گا اسے پٹرولیم لیوی کے ذریعے نہ صرف پورا کریگی بلکہ اضافی 480ارب روپے بھی حاصل کرے گی۔
رواں مالی سال میں حکومت دس روپے فی لٹرلیوی کے حساب سے 170ارب روپے حاصل کررہی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں لیوی ریٹ تیس روپے فی لیٹر کرنے کی صورت میں کم ازکم ریونیو 480ارب روپے حاصل ہوگا تاہم بجٹ دستاویزات میں حکومت نے پٹرولیم لیوی کی مد میں 3سو ارب روپے کا ریونیو ہدف ظاہرکیا ہے۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کسی قسم کا بیل آوٹ پیکج لینے کی ضرورت نہیں ہے ،کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنے کیلئے برآمدات بڑھانے کے حوالے سے پیکج دیا گیا ہے ملک میں بجلی کی پیداواتر بڑھنے کی وجہ سے گردشی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں جب کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 100 ارب کی منظوری دیدی ہے۔
'' توانائی کے مسائل کو بروقت ختم کیا جائے گا ''
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ برآمدی پیکج کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تین سال کے عرصہ میں برآمدات میں اضافہ کا ہدف دیا ہے جس کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جو برآمدی پیکج پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی قیمت کے حوالے سے موجود مسائل کو بروقت ختم کیا جائے گا۔
'' بجٹ میں کراچی کیلئے شاندار پیکج کا اعلان کیا ''
وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ کراچی کے حلقہ این اے 243 اور244 سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، حانکہ وہ این اے 252 کراچی سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے تاہم نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے وزیراعظم نے مشورہ دیا ہے کہ میں حلقہ این اے 243 244 سے الیکشن لڑوں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں کراچی کیلئے شاندار پیکج کا اعلان کیا ہے جو ایم کیو ایم 25 سالوں میں نہیں کرسکی۔
دوسری جانب ریونیو کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ باہر کے لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ بجٹ کی تیاری کے لئے کتنی محنت کی گئی ہے، اس ضمن میں ایف بی آر کی ٹیم کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تیاری کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سمیت تمام شراکت داروں سے تفصیلی مذاکرات کے بعد قومی ترقی کے لئے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔
'' صوبوں کو 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں ''
ہارون اختر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں سالانہ 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ایف بی آر کے محاصل دگنا ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں صوبوں کو 13 سو ارب روپے دیئے جاتے تھے جب کہ اب صوبوں کو 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے بھی ٹیکس کی شرح متعارف کرائی ہے جبکہ اس کے علاوہ مالیاتی اداروں ، نادرا اور بینکوں سے مل کر بھی کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل کیا جا سکے۔
پٹرولیم لیوی کی حد میں اضافے سے پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتوں میں 20روپے فی لیٹر اضافہ ہو جائے گا، جس سے کرایوں سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ اور مہنگائی کا طوفان برپا ہوجائیگا۔ ذرائع کے مطابق وفاق نے آئین کو نظراندازکئے بغیر صوبوں کے مالی وسائل پر پٹرولیم لیوی کے ذریعے 480 ارب روپے حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
لیوی کی حد 30 روپے فی لٹرتک بڑھانے سے عام صارفین کیلئے اسکی فی لیٹر قیمت میں 20روپے کا اضافہ ہو جائیگا اس سے حکومت کو ایک طرف 480ارب روپے کا ریوینو ملے گا وہاں دوسری طرف مرکزکے صوبائی اکائیوں سے ٹیکس کے معاملات بھی طے پا جائیں گے۔ پٹرولیم لیوی کا شمار ایسے ٹیکسوں کی کیٹگری میں ہوتا ہے جو وفاق او رصوبوں کے درمیان 7ویں قومی مالیاتی ایوارڈ کمیشن کے تحت نقسیم ہونے والوں ٹیکسوں میں شامل نہیں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرایک دفعہ یہ ٹیکس نافذ ہوگیا توعام صارفین کو 20روپے فی لیٹر مہنگا ملنے کیساتھ ہی اس کا اثرکرایوں سمیت تمام اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑیگا جس سے ملک بھر میں مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا۔ افراط زربڑھے گا اور ملکی معیشت ایک بڑے بحران کی زد میں آجائے گی۔وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق حکومت نے ہائی اسپیڈ ڈیزل پرموجودہ25.5 فیصد جی ایس ٹی اور پٹرول پر20 فیصد کوکم کرکے سٹینڈر ریٹ 17 فیصد تک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت محاصل کے قابل تقسیم پول سے صوبوں کو57.5فیصد ملتا ہے جس کے باعث وفاق کے پاس صرف دفاع اور قرضوں کی ادائیگی سمیت اپنے تمام اخراجات پورے کرنے کیلیے صرف42.5فیصد محاصل بچتے ہیں۔حکومت پر پٹرولیم پر سیلز ٹیکس میں کمی کے ذریعے جودباؤ آئے گا اسے پٹرولیم لیوی کے ذریعے نہ صرف پورا کریگی بلکہ اضافی 480ارب روپے بھی حاصل کرے گی۔
رواں مالی سال میں حکومت دس روپے فی لٹرلیوی کے حساب سے 170ارب روپے حاصل کررہی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں لیوی ریٹ تیس روپے فی لیٹر کرنے کی صورت میں کم ازکم ریونیو 480ارب روپے حاصل ہوگا تاہم بجٹ دستاویزات میں حکومت نے پٹرولیم لیوی کی مد میں 3سو ارب روپے کا ریونیو ہدف ظاہرکیا ہے۔