وفاق بتائے مشرف پر آرٹیکل 6کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں سپریم کورٹ
آئین شکنوں کاراستہ ہمیشہ کیلیے بندکرناچاہتے ہیں،غلطی کی سزاضرورملے گی،زمین وآسمان رنگ بدلتا ہے توبدلے،عدالت کے ریمارکس
PESHAWAR:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کامقدمہ درج کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاق سے 17اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔
جبکہ سپریم کورٹ کے ججز نے کہاہے کہ سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، 3نومبر کی ایمرجنسی پر وفاق کا کیا موقف ہے، ان پر آرٹیکل6 لاگو ہوتا ہے یا نہیں، اور آرٹیکل6 کا اطلاق ہوتاہے تو کارروائی آگے بڑھے گی؟ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق دائر درخواستوں پر عدالتی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ31جولائی2009 کے عدالتی فیصلے میں اعلیٰ عدالتوں کے مخصوص ججز کے خلاف کارروائی کی گئی ۔
جبکہ پرویزمشرف کاساتھ دینے والے فوجی افسران سمیت دیگر افراد کو نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے۔ پیرکو جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 2رکنی بینچ نے پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجاہے، دعوت نامہ نہیں بھیجا۔ تعجب ہے ایک شخص آئین پامال کررہا ہے، کیا وفاق تماشا دیکھتا رہے گا۔ درخواست گزار اقبال حمیدالرحمٰن کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ہائیکورٹ کی سطح پرچلایا جاسکتاہے ۔
جس کے لیے قانون موجود ہے۔ جسٹس جواد نے استفسار کیاکہ پرویزمشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ پر سپریم کورٹ کا31 جولائی 2009 کا فیصلہ آئے 4سال گزرگئے، پھر سینیٹ نے پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے قرارداد منظورکی، عدالت کو تفصیل سے بتایا جائے کہ وفاق نے اس دوران اور پرویزمشرف کی واپسی پر کیاکیا؟ جسٹس خلجی نے کہاکہ کیا وفاق یہ کہنا چاہتاہے کہ آئین کے ساتھ جو کچھ بھی ہو، وہ خاموش تماشائی رہے گا؟ وفاق کو ایک ہفتے پہلے نوٹس جاری کیا ابھی تک جواب نہیں آیا۔
وزارت قانون کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری نے عدالت میں ریکارڈ پیش کیا کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر ججز کی حدتک عمل درآمد ہوگیا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہاکہ وفاق نے انھیں ابھی ہدایات جاری کیں اور وہ پیش ہوگئے۔ ان کا فرض ہے کہ کوئی بھی ردعمل دینے سے پہلے عدالت کو ممکنہ قانونی اعتراضات سے آگاہ کریں۔ انھیں درخواستوں پر نہیں، عدالتی کارروائی پر اعتراض ہے۔ جسٹس جواد نے ہدایت کی کہ قانونی اعتراضات زبانی نہیں، تحریری جمع کرائیں تاکہ وفاق کا موقف دنیا کو پتا چل جائے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ 65سال گزر گئے، مارشل لاؤں نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا عوام الناس کتنی مشکلات سانحات اورکمیشن درکمیشن رپورٹوں سے گزر چکی ہے۔ اب آئین توڑنے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتے ہیں۔ جس نے غلطی کی ہے اسے سزا ضرور ملے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ انصاف کا صرف اعلان کرنا کافی نہیں، انصاف ہوتاہوا دکھائی دینا چاہیے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے 2روز کے اندر جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہ اقدامات درست تھے توپھر 31جولائی 2009 کے فیصلے کا کیا بنے گا؟ جسٹس جواد نے کہاکہ پرویزمشرف کے خلاف ملکی آئین توڑنے سے متعلق اسپیشل بینچ کی تشکیل کی ذمے داری فیڈریشن کی ہے۔
وفاق کا جواب عدالت میں پیش کریں جتنے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں اس سے کوئی سروکار نہیں زمین و آسمان کا رنگ بدلتا ہے تو بدل جائے۔ لولی لنگڑی جمہوریت سے کم از کم ملک تو چلتا رہتا ہے جبکہ آئین توڑنے سے ملک کا اقتصادی اور معاشی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ مشرف کے کاغذات نامزدگی اور الیکشن معاملات پراعتراضات الیکشن ٹربیونل ہی سن سکتا ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر پرویزمشرف کے وکیل احمدرضا قصوری نے اعتراضات دور کرکے جواب جمع کرادیا اور فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ وہ اس بارے میں دلائل دیناچاہتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ فیصلہ 17اپریل کو اٹارنی جنرل اور وفاق کے جواب پڑھنے کے بعد کرینگے۔ دریںاثنا ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ خالدجنجوعہ نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیاگیا کہ لاپتا افراد کی ذمے داری بھی پرویزمشرف پر عائد ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کامقدمہ درج کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاق سے 17اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔
جبکہ سپریم کورٹ کے ججز نے کہاہے کہ سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، 3نومبر کی ایمرجنسی پر وفاق کا کیا موقف ہے، ان پر آرٹیکل6 لاگو ہوتا ہے یا نہیں، اور آرٹیکل6 کا اطلاق ہوتاہے تو کارروائی آگے بڑھے گی؟ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق دائر درخواستوں پر عدالتی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ31جولائی2009 کے عدالتی فیصلے میں اعلیٰ عدالتوں کے مخصوص ججز کے خلاف کارروائی کی گئی ۔
جبکہ پرویزمشرف کاساتھ دینے والے فوجی افسران سمیت دیگر افراد کو نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے۔ پیرکو جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 2رکنی بینچ نے پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجاہے، دعوت نامہ نہیں بھیجا۔ تعجب ہے ایک شخص آئین پامال کررہا ہے، کیا وفاق تماشا دیکھتا رہے گا۔ درخواست گزار اقبال حمیدالرحمٰن کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ہائیکورٹ کی سطح پرچلایا جاسکتاہے ۔
جس کے لیے قانون موجود ہے۔ جسٹس جواد نے استفسار کیاکہ پرویزمشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ پر سپریم کورٹ کا31 جولائی 2009 کا فیصلہ آئے 4سال گزرگئے، پھر سینیٹ نے پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے قرارداد منظورکی، عدالت کو تفصیل سے بتایا جائے کہ وفاق نے اس دوران اور پرویزمشرف کی واپسی پر کیاکیا؟ جسٹس خلجی نے کہاکہ کیا وفاق یہ کہنا چاہتاہے کہ آئین کے ساتھ جو کچھ بھی ہو، وہ خاموش تماشائی رہے گا؟ وفاق کو ایک ہفتے پہلے نوٹس جاری کیا ابھی تک جواب نہیں آیا۔
وزارت قانون کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری نے عدالت میں ریکارڈ پیش کیا کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر ججز کی حدتک عمل درآمد ہوگیا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہاکہ وفاق نے انھیں ابھی ہدایات جاری کیں اور وہ پیش ہوگئے۔ ان کا فرض ہے کہ کوئی بھی ردعمل دینے سے پہلے عدالت کو ممکنہ قانونی اعتراضات سے آگاہ کریں۔ انھیں درخواستوں پر نہیں، عدالتی کارروائی پر اعتراض ہے۔ جسٹس جواد نے ہدایت کی کہ قانونی اعتراضات زبانی نہیں، تحریری جمع کرائیں تاکہ وفاق کا موقف دنیا کو پتا چل جائے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ 65سال گزر گئے، مارشل لاؤں نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا عوام الناس کتنی مشکلات سانحات اورکمیشن درکمیشن رپورٹوں سے گزر چکی ہے۔ اب آئین توڑنے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتے ہیں۔ جس نے غلطی کی ہے اسے سزا ضرور ملے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ انصاف کا صرف اعلان کرنا کافی نہیں، انصاف ہوتاہوا دکھائی دینا چاہیے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے 2روز کے اندر جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہ اقدامات درست تھے توپھر 31جولائی 2009 کے فیصلے کا کیا بنے گا؟ جسٹس جواد نے کہاکہ پرویزمشرف کے خلاف ملکی آئین توڑنے سے متعلق اسپیشل بینچ کی تشکیل کی ذمے داری فیڈریشن کی ہے۔
وفاق کا جواب عدالت میں پیش کریں جتنے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں اس سے کوئی سروکار نہیں زمین و آسمان کا رنگ بدلتا ہے تو بدل جائے۔ لولی لنگڑی جمہوریت سے کم از کم ملک تو چلتا رہتا ہے جبکہ آئین توڑنے سے ملک کا اقتصادی اور معاشی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ مشرف کے کاغذات نامزدگی اور الیکشن معاملات پراعتراضات الیکشن ٹربیونل ہی سن سکتا ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر پرویزمشرف کے وکیل احمدرضا قصوری نے اعتراضات دور کرکے جواب جمع کرادیا اور فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ وہ اس بارے میں دلائل دیناچاہتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ فیصلہ 17اپریل کو اٹارنی جنرل اور وفاق کے جواب پڑھنے کے بعد کرینگے۔ دریںاثنا ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ خالدجنجوعہ نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیاگیا کہ لاپتا افراد کی ذمے داری بھی پرویزمشرف پر عائد ہوتی ہے۔