ریٹرننگ افسران کا رویہ آئین سے ہم آہنگ نہیں تھاالیکشن ٹریبونل

الیکشن کمیشن لازمی طور پر اسلامی نظریاتی کونسل سے مل کرمختصر نصاب مرتب کرے

الیکشن کمیشن لازمی طور پر اسلامی نظریاتی کونسل سے مل کرمختصر نصاب مرتب کرے. فوٹو: فائل

PESHAWAR:
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 2 رکنی الیکشن ٹریبونل نے آبزرو کیا ہے کہ موجودہ انتخابات کیلیے امیدواروں کی اسلامی تعلیمات سے آگاہی جانچنے کے سلسلے میں ریٹرننگ افسران کا رویہ آئین سے ہم آہنگ نہیں تھا،حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس ضمن میں کوئی گائیڈ لائن تیارکرنے میں ناکام رہا۔

صاف اور شفاف طریقہ یہ تھا کہ ملک بھرمیں تمام امیدواروں سے یکساں سلوک کیاجاتاجبکہ ایسا نہیں ہوا، فاضل ٹریبونل نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی کہ وہ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرے اور اسکی مدد سے 22تا 40ایسے سوالات مرتب کرے جو عام آدمی کی اسلامی معلومات کے مطابق ہوں۔ ایسی صورت میں جب کوئی اتھارٹی آئینی یا قانونی اختیار استعمال کرتی ہے تو امتیاز ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتو اسے قانونی طریقے سے ختم کردینا چاہیے کیونکہ بعض مواقع پر قانونی اتھارٹی کی جانب سے مناسب اور ضروری اقدام کرنے میں ناکامی بھی امتیازی ، غیرآئینی اور قانون سے متصادم ہوجاتی ہے۔

ہمارے نکتہ نظر کے مطابق آرٹیکل62(1)(e)سے متعلق بھی یہی کچھ ہوا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے شاید غیر شعوری طور پر اس کے نتائج جانے بغیر ایسی صورتحال پید اکی جس میں مذکورہ آرٹیکل کا استعمال امتیازی اور آرٹیکل25 سے متصادم ہوگیا۔ضروری ہے کہ اسکی تلافی کے اقدامات کیے جائیں ، کیونکہ اس طرح آئین کی تشریح کی گئی تو منتخب عہدوں پر عام آدمی کی رسائی مشکل ہوجائیگی اور ایک محدود اقلیت ہی سامنے آسکے گی۔

آئین کے آرٹیکل 62(1)(e)کے سلسلے میں ریٹرننگ افسران نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کیے حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوابدیدی اختیارات بھی کچھ حدود کے اندر رہ کر استعمال کیے جاتے ہیں۔ فاضل بینچ نے یہ آبزرویشن این اے258 سے پاکستان پیپلزپارٹی شہید بھٹو کے امیدوار محمد اسحٰق کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف ان کی اپیل منظورکرتے ہوئے دی۔ ریٹرننگ افسر نے قراردیا تھا کہ امیدوار بنیادی اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں۔




فاضل ٹریبونل نے محمد اسحٰق کو انتخابات میں شرکت کی اجازت دیتے ہوئے آبزرو کیاکہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(e) کا مقصد کسی کو انتخابات سے باہر کرنا نہیں۔ فاضل ٹریبونل نے قراردیاکہ ایک عام آدمی اور ایسے عالم جس نے کسی علم کیلیے پوری زندگی گزاری ہو اس کیلیے بنیادی معلومات کے معیارات مختلف ہوسکتے ہیں۔ تمام پاکستانی ووٹرز شہروں میں نہیں رہتے بلکہ دیہات میں رہنے والوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔اس لیے انتخابات میں شرکت کرنیوالے امیدواروں کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

ایسا راستہ اپنانا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل62(1)(e)کا مقصد بھی پورا ہوجائے اور مساوات سے متعلق آئین کے آرٹیکل25کی بھی خلاف ورزی نہ ہو۔ فاضل بینچ نے اس ضمن میں تجویز دی کہ الیکشن کمیشن کو لازمی طور پر اسلامی نظریاتی کونسل سے مل کرمختصر نصاب مرتب کرلینا چاہیے اور اس کی تشہیر بھی کرنا چاہیے بلکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ڈال دینا چاہیے۔ ریٹرننگ افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ اسی نصاب میں سے زیادہ سے زیادہ5سوال کریں۔ اگر امیدوار 3 کے درست جواب دے تو اسے کامیاب قراردیا جائے۔ اکثر سوالوں کے جواب دینے میں ناکامی کی صورت میں دوسرے5سوال کیے جائیں۔

اگر دوسری بار بھی وہ سوالات کی اکثریت کا درست جواب دینے میں ناکام ہوتو ایسی صورت میں اسے بنیادی معلومات سے لاعلم قرار دیا جائے۔ فاضل ٹریبونل نے رجسٹرارکو ہدایت کی کہ وہ اس فیصلے کی نقل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کریں تاکہ آئندہ انتخابات کے لیے اس کی روشنی میں لائحہ عمل بنایاجاسکے ۔

Recommended Stories

Load Next Story