استحصال
اب ہم صرف پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے پر فخر ہے۔
نئے انتخابی معرکے میں اب چند ہی ماہ باقی رہ گئے ہیں ، چنانچہ ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں تیاری میں جت گئی ہیں ۔ وہ جگہ جگہ جلسے منعقد کرکے ووٹروں کو رجھانے کی سر توڑکوشش کر رہی ہیں مگر انھیں زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ عوام ان کی خدمات کے حساب سے ہی انھیں پسند یا نا پسند کا سرٹیفکیٹ یعنی ووٹ دیں گے ۔ اس وقت ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ کراچی کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے ۔
پیپلز پارٹی تو خیر اسی صوبے سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ وہ تو یہاں اپنی سیاسی مہم چلا ہی رہی ہے مگر شہباز شریف اور عمران خان کے یہاں کے بار بار دورے کرنے کا مقصد بھی اب مخفی نہیں رہا ہے سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں اس وقت سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے۔ کراچی کی ماضی کی سب سے مضبوط اور کامیاب ترین سیاسی پارٹی اب ٹوٹ پھوٹ کر چار دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔
ایم کیو ایم کے بکھرنے سے ظاہر ہے اس کے ووٹر بھی بکھر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تازہ دو دھڑوں کے کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان انھیں چھوڑ کر پی ایس پی اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خدشہ ہے کہ ان دونوں دھڑوں کی بڑھتی ہوئی باہمی محاذ آرائی سے ان کے بچے کچھے پنچھی بھی ادھر ادھر پناہ نہ لے لیں۔
آخر ایم کیو ایم جو پاکستان بھر میں سب سے منظم اور متحد پارٹی کہلاتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے تنکوں کی طرح بکھر گئی۔ آخر ایسا کیوں ہوا ؟ تجزیے سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہیں جو باہمی مشاورت پر عمل کرتی ہیں اور عوام کے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ وہ نہ تو کسی ایک شخص کے اشاروں پر چلتی ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں کھیل تماشا بنالیتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کراچی کے عوام کے کئی گمبھیر مسائل ہیں جن میں کچرا، پانی، گیس اور بجلی کے مسائل بھی شامل ہیں مگر ان کے اصل مسائل نوکریوں پر دو فیصد کوٹے کی پابندی اور اس کماؤ پوت دوکروڑ کی آبادی والے شہر کی آمدنی سے اس کے عوام کی فلاح و بہبود پر مناسب شرح سے فنڈز مختص نہ ہونا جو سراسر ظلم کے مترادف ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے یہاں کے عوام متحد اور یک جان ہوکر ایم کیو ایم کو ہر الیکشن میں اپنا بھرپور مینڈیٹ دے کر فتح مند کراتے رہے ہیں۔
اسی پارٹی کے امیدوار پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے اور مسلسل ہر الیکشن میں جیتنے کے ریکارڈ بناتے رہے ہیں۔ کاش کہ اس کے رہنما عوامی مسائل کی جانب بھی توجہ مرکوز کرتے مگر ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں نئے نئے مسائل اور مصائب سے دوچار کیا جاتا رہا۔ ان پر لسانیت کا لیبل لگا کر ان کے اردگرد کے لوگوں کو ان کا دشمن بناکر پیش کیا جاتا رہا ساتھ ہی ان سے محاذ آرائی کا سماں بھی باندھا گیا۔
یہ تاثر بھی ابھارا جاتا رہا کہ پاکستان غلط بنا۔ نہ تو یہاں کے مقامی لوگ کبھی مہاجروں کے دوست بن سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ملک مہاجروں کے خوابوں کی سرزمین ثابت ہوسکتا ہے یعنی کہ مولانا ابوالکلام آزاد پاکستان کے قیام کو رکوانے کے لیے اپنی تقاریر میں جو یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان جن علاقوں میں بن رہا ہے وہاں کے لوگ مہاجرین کے کبھی دوست نہیں بن سکیں گے کو بطور دلیل استعمال کیا جاتا رہا۔ جب کہ مولانا کا یہ بیان سراسر کانگریسی نظریے کا عکاس تھا۔ تاہم یہ تاثر سراسر احسان فراموشی کے مترادف تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مقامی مسلمانوں نے مہاجرین کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ انھوں نے مہاجرین کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ اور تحریک پاکستان کے نامور رہنما غلام حسین ہدایت اللہ کی بیگم صغرا نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب دہلی میں فسادات ہو رہے تھے وہ مسلم لیگی خواتین کے ساتھ مل کر روٹیاں تیار کرا کے طیاروں کے ذریعے دہلی بھیجا کرتی تھیں اور جب مہاجرین کی کراچی آمد شروع ہوئی تو کئی مہینوں تک باقاعدگی سے انھیں دو وقت کا کھانا پہنچایا جاتا رہا۔
اس انٹرویو کی تفصیل میری تصنیف ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کراچی مسلم لیگ کے ایک پرانے رہنما عنایت اللہ مغل نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کراچی آنے والے مہاجرین کو ان مکانوں اور فلیٹوں میں آباد کرایا کرتے تھے جنھیں ہندو خاندان خالی چھوڑ گئے تھے بعد میں ان کے مالکانہ حقوق بھی مہاجرین کو دلوائے گئے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم لوگ یہ کارخیر ضرور کرتے رہے مگر ہم نے اپنے لیے کوئی مکان یا فلیٹ الاٹ نہیں کرایا ۔کراچی ہی نہیں پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی مقامی مسلمانوں نے مہاجرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی مہاجرین پاکستانی بننے کے بجائے مہاجر ہی بنے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاجروں کو سیاسی طور پر ماضی میں بھی استعمال کیا گیا اور اب بھی وہی مشق جاری ہے۔ اس سے مہاجر دوسرے لوگوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ یہ صورت حال پورے 35 برس تک چلتی رہی اور مہاجروں کے مسائل اپنی جگہ پر قائم رہے جب کہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ بنتی رہی۔
کیا ان سنہری ادوار میں مہاجرین کے مسائل حل نہیں کرائے جاسکتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ مسائل حل ہونے کے بعد مہاجر سیاست جو دم توڑ دیتی۔ ایم کیو ایم کی ایک خاتون قومی اسمبلی کی رکن نے کچھ دن قبل ایک اخبار میں اپنے مضمون میں بڑے فخر سے لکھا تھا کہ مہاجر لفظ ایسا مقدس ہے کہ جسے تعویذ بناکر گلے میں ڈالے رکھنے کو جی چاہتا ہے۔
ان قابل احترام خاتون کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں مہاجر ہونا قابل احترام ضرور ہے مگر نبی اکرمؐ جب مکہ چھوڑ کر مدینہ میں مستقل رہائش پذیر ہوگئے تو پھر کبھی خود کو مہاجر نہیں کہا ہمیشہ مدنی ہی کہا ۔ اس طرح ثابت ہوا کہ جس جگہ کوئی مستقل سکونت اختیار کرلے وہاں پھر وہ مہاجر نہیں رہتا۔ پھر ہمارے بزرگوں نے اس ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے بنایا تھا تو اب ہم ان کی اولادیں یہاں ہر طرح سے سیٹ ہونے کے بعد اور اب جب کہ کوئی مہاجر جھگی میں نہیں رہ رہا تو پھر ہم خود کو کیسے مہاجر کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم صرف پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مہاجر اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں بہت چوٹ کھا چکے ہیں۔ وہ یہ بات اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ان کے مہاجر ہونے کو سیاست بنالیا گیا ہے۔ اس سیاسی کھیل سے انھیں فائدہ پہنچنے کے بجائے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی بھرائی میں کافی وقت لگے گا چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظ مہاجر کے مزید استحصال سے گریز کیا جائے کیونکہ اسی طرح ہی مہاجروں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔
جہاں تک سندھ کا تعلق ہے اس کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس سرزمین پر صدیوں سے مختلف اقوام مختلف علاقوں سے آکر آباد ہوتی رہی ہیں اور اس کا حصہ بنتی رہی ہیں اب مہاجروں کو بھی اس محبت اور مہمان نواز دھرتی پر اپنے مہاجر تشخص کو قربان کرکے اس کی مٹی میں گھل مل جانا چاہیے۔
یہ بات بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ ایم کیو ایم سے انحراف کے بعد بننے والی پاک سرزمین پارٹی پہلے ہی مہاجر سیاست کو خیرباد کہہ کر پاکستان کے تمام عوام کی پارٹی بن چکی ہے اور اسے اس نظریے کو اپنانے پر زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ پھر ایم کیو ایم کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے جو ارکان اسے چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہو رہے ہیں ان کے اس عمل سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ مہاجر نظریے سے متفق نہیں رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی تو خیر اسی صوبے سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ وہ تو یہاں اپنی سیاسی مہم چلا ہی رہی ہے مگر شہباز شریف اور عمران خان کے یہاں کے بار بار دورے کرنے کا مقصد بھی اب مخفی نہیں رہا ہے سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں اس وقت سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے۔ کراچی کی ماضی کی سب سے مضبوط اور کامیاب ترین سیاسی پارٹی اب ٹوٹ پھوٹ کر چار دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔
ایم کیو ایم کے بکھرنے سے ظاہر ہے اس کے ووٹر بھی بکھر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تازہ دو دھڑوں کے کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان انھیں چھوڑ کر پی ایس پی اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خدشہ ہے کہ ان دونوں دھڑوں کی بڑھتی ہوئی باہمی محاذ آرائی سے ان کے بچے کچھے پنچھی بھی ادھر ادھر پناہ نہ لے لیں۔
آخر ایم کیو ایم جو پاکستان بھر میں سب سے منظم اور متحد پارٹی کہلاتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے تنکوں کی طرح بکھر گئی۔ آخر ایسا کیوں ہوا ؟ تجزیے سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہیں جو باہمی مشاورت پر عمل کرتی ہیں اور عوام کے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ وہ نہ تو کسی ایک شخص کے اشاروں پر چلتی ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں کھیل تماشا بنالیتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کراچی کے عوام کے کئی گمبھیر مسائل ہیں جن میں کچرا، پانی، گیس اور بجلی کے مسائل بھی شامل ہیں مگر ان کے اصل مسائل نوکریوں پر دو فیصد کوٹے کی پابندی اور اس کماؤ پوت دوکروڑ کی آبادی والے شہر کی آمدنی سے اس کے عوام کی فلاح و بہبود پر مناسب شرح سے فنڈز مختص نہ ہونا جو سراسر ظلم کے مترادف ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے یہاں کے عوام متحد اور یک جان ہوکر ایم کیو ایم کو ہر الیکشن میں اپنا بھرپور مینڈیٹ دے کر فتح مند کراتے رہے ہیں۔
اسی پارٹی کے امیدوار پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے اور مسلسل ہر الیکشن میں جیتنے کے ریکارڈ بناتے رہے ہیں۔ کاش کہ اس کے رہنما عوامی مسائل کی جانب بھی توجہ مرکوز کرتے مگر ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں نئے نئے مسائل اور مصائب سے دوچار کیا جاتا رہا۔ ان پر لسانیت کا لیبل لگا کر ان کے اردگرد کے لوگوں کو ان کا دشمن بناکر پیش کیا جاتا رہا ساتھ ہی ان سے محاذ آرائی کا سماں بھی باندھا گیا۔
یہ تاثر بھی ابھارا جاتا رہا کہ پاکستان غلط بنا۔ نہ تو یہاں کے مقامی لوگ کبھی مہاجروں کے دوست بن سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ملک مہاجروں کے خوابوں کی سرزمین ثابت ہوسکتا ہے یعنی کہ مولانا ابوالکلام آزاد پاکستان کے قیام کو رکوانے کے لیے اپنی تقاریر میں جو یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان جن علاقوں میں بن رہا ہے وہاں کے لوگ مہاجرین کے کبھی دوست نہیں بن سکیں گے کو بطور دلیل استعمال کیا جاتا رہا۔ جب کہ مولانا کا یہ بیان سراسر کانگریسی نظریے کا عکاس تھا۔ تاہم یہ تاثر سراسر احسان فراموشی کے مترادف تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مقامی مسلمانوں نے مہاجرین کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ انھوں نے مہاجرین کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ اور تحریک پاکستان کے نامور رہنما غلام حسین ہدایت اللہ کی بیگم صغرا نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب دہلی میں فسادات ہو رہے تھے وہ مسلم لیگی خواتین کے ساتھ مل کر روٹیاں تیار کرا کے طیاروں کے ذریعے دہلی بھیجا کرتی تھیں اور جب مہاجرین کی کراچی آمد شروع ہوئی تو کئی مہینوں تک باقاعدگی سے انھیں دو وقت کا کھانا پہنچایا جاتا رہا۔
اس انٹرویو کی تفصیل میری تصنیف ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کراچی مسلم لیگ کے ایک پرانے رہنما عنایت اللہ مغل نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کراچی آنے والے مہاجرین کو ان مکانوں اور فلیٹوں میں آباد کرایا کرتے تھے جنھیں ہندو خاندان خالی چھوڑ گئے تھے بعد میں ان کے مالکانہ حقوق بھی مہاجرین کو دلوائے گئے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم لوگ یہ کارخیر ضرور کرتے رہے مگر ہم نے اپنے لیے کوئی مکان یا فلیٹ الاٹ نہیں کرایا ۔کراچی ہی نہیں پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی مقامی مسلمانوں نے مہاجرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی مہاجرین پاکستانی بننے کے بجائے مہاجر ہی بنے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاجروں کو سیاسی طور پر ماضی میں بھی استعمال کیا گیا اور اب بھی وہی مشق جاری ہے۔ اس سے مہاجر دوسرے لوگوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ یہ صورت حال پورے 35 برس تک چلتی رہی اور مہاجروں کے مسائل اپنی جگہ پر قائم رہے جب کہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ بنتی رہی۔
کیا ان سنہری ادوار میں مہاجرین کے مسائل حل نہیں کرائے جاسکتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ مسائل حل ہونے کے بعد مہاجر سیاست جو دم توڑ دیتی۔ ایم کیو ایم کی ایک خاتون قومی اسمبلی کی رکن نے کچھ دن قبل ایک اخبار میں اپنے مضمون میں بڑے فخر سے لکھا تھا کہ مہاجر لفظ ایسا مقدس ہے کہ جسے تعویذ بناکر گلے میں ڈالے رکھنے کو جی چاہتا ہے۔
ان قابل احترام خاتون کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں مہاجر ہونا قابل احترام ضرور ہے مگر نبی اکرمؐ جب مکہ چھوڑ کر مدینہ میں مستقل رہائش پذیر ہوگئے تو پھر کبھی خود کو مہاجر نہیں کہا ہمیشہ مدنی ہی کہا ۔ اس طرح ثابت ہوا کہ جس جگہ کوئی مستقل سکونت اختیار کرلے وہاں پھر وہ مہاجر نہیں رہتا۔ پھر ہمارے بزرگوں نے اس ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے بنایا تھا تو اب ہم ان کی اولادیں یہاں ہر طرح سے سیٹ ہونے کے بعد اور اب جب کہ کوئی مہاجر جھگی میں نہیں رہ رہا تو پھر ہم خود کو کیسے مہاجر کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم صرف پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مہاجر اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں بہت چوٹ کھا چکے ہیں۔ وہ یہ بات اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ان کے مہاجر ہونے کو سیاست بنالیا گیا ہے۔ اس سیاسی کھیل سے انھیں فائدہ پہنچنے کے بجائے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی بھرائی میں کافی وقت لگے گا چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظ مہاجر کے مزید استحصال سے گریز کیا جائے کیونکہ اسی طرح ہی مہاجروں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔
جہاں تک سندھ کا تعلق ہے اس کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس سرزمین پر صدیوں سے مختلف اقوام مختلف علاقوں سے آکر آباد ہوتی رہی ہیں اور اس کا حصہ بنتی رہی ہیں اب مہاجروں کو بھی اس محبت اور مہمان نواز دھرتی پر اپنے مہاجر تشخص کو قربان کرکے اس کی مٹی میں گھل مل جانا چاہیے۔
یہ بات بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ ایم کیو ایم سے انحراف کے بعد بننے والی پاک سرزمین پارٹی پہلے ہی مہاجر سیاست کو خیرباد کہہ کر پاکستان کے تمام عوام کی پارٹی بن چکی ہے اور اسے اس نظریے کو اپنانے پر زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ پھر ایم کیو ایم کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے جو ارکان اسے چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہو رہے ہیں ان کے اس عمل سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ مہاجر نظریے سے متفق نہیں رہے ہیں۔