ناتجربہ کار اسکواڈ ناسازگار کنڈیشنز آئرلینڈ کے خلاف واحد ٹیسٹ بھی مشکل امتحان نظر آنے لگا

انگلینڈ میں تنازعات سے بھرپور ماضی بھی پیچھا کرے گا۔

انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لئے نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی ٹیم ان دنوں انگلینڈ میں موجود ہے۔ فوٹو : پی سی بی

کرکٹ کے رنگ ہی نرا لے ہیں، ہمہ وقت رنگ بدلتا ،یہ کھیل راتوں رات کسی کھلاڑی کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے تو کسی کو آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں پر گرا دیتا ہے، زیادہ دور جانے کی بات نہیں۔

ورلڈ کپ2007کو ہی دیکھ لیں جس میں صرف ایک میچ میں ناکامی کے بعد سٹار کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان کو عالمی کپ کے پہلے ہی رائونڈ سے باہر ہونا پڑا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 17مارچ 2007ء کو عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر براجمان گرین شرٹس کو پہلی بار ورلڈ کپ کا حصہ بننے والی آئرلینڈ ٹیم کے ہاتھوں 3 وکٹوں سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستانی ٹیم 45.4 اوورز میں صرف132 رنز پر ہمت ہار گئی، بعد ازاں بارش اور خراب روشنی سے متاثرہ میچ کے بعد آئرلینڈ کو47 اوورز میں 133 رنز کا ہدف ملا جو اس نے 7 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا، نیل اوبرائن میچ کے ہیرو قرار پائے، انہوں نے72 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر فتح اپنی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، پاکستانی ٹیم ابھی اس صدمے سے باہر بھی نہ نکل سکی تھی کہ اگلے روز غیر ملکی قومی کوچ باب وولمر بھی اپنے ہوٹل کے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے۔

کپتان انضمام الحق سمیت دوسرے پلیئرز سے پولیس نے پوچھ گچھ کی اور جب خدا خدا کر کے پاکستانی ٹیم وطن واپس پہنچی تو کھلاڑیوں نے سکھ کا سانس لیا، اب اسی آئرلینڈ کے خلاف گرین کیپس کو11 مئی کو ڈبلن کے مقام پر ٹیسٹ کھیلنا ہے، گو آئرلینڈ تاریخ میں پہلی بار اپنا ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے تاہم ورلڈ کپ2007 کے مقابلے کی اس ٹیسٹ ٹیم کو بھی آسان لینا سرفراز الیون کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روزہ میچ کی تاریخ11 سال بعد ٹیسٹ میچ میں بھی دہرائی جائے۔

انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لئے نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی ٹیم ان دنوں انگلینڈ میں موجود ہے اور3 دن کی ٹریننگ کے بعد پریکٹس میچ کا بھی آغاز ہوگیا ہے تاہم پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی نے دورہ انگلینڈ اور آئرلینڈ کے دورے کے لئے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے، اس پر تاحال سوالیہ نشان ہیں، سلیکٹرز نے مستند اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی بجائے نو وارد پلیئرز پر زیادہ انحصار کیا ہے، چیف سلیکٹر کے بھتیجے امام الحق سمیت 5کھلاڑی ایسے ہیں جو پہلی بار ٹیسٹ سکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب رہے ہیں۔

ٹیم میں کپتان سرفراز احمد اور اظہر علی کے علاوہ باقی کھلاڑیوں کو ٹوئنٹی20 اور ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کا زیادہ تجربہ ہے، اس لئے طویل طرز کی کرکٹ میںشائقین کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے ٹیم منیجمنٹ کی طرح سے بیٹنگ آرڈر میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔

انضمام الحق کی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی کے ذہنوں میں شاید یہ بات ہو کہ2016ء کی طرح پاکستانی ٹیم اس بار بھی گوروں کے دیس میں عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دو سال قبل انگلینڈ کے دورے کے دوران ٹیم کو کپتان مصباح الحق، یونس خان جیسے مستند اور تجربہ کار کھلاڑیوں اور لیگ سپنر یاسر شاہ کی خدمات حاصل تھیں۔

اب نہ تو مصباح الحق اور یونس خان ٹیم میں موجود ہیں اور نہ ہی لیگ سپنر یاسر شاہ کی ٹیم کو خدمات حاصل ہیں، مشکوک بولنگ ایکشن کے باعث سعید اجمل پر پابندی لگنے کے بعد سے یاسر شاہ پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ رہے، پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 50 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا، لیگ سپنر کی ایک اور انفرادیت یہ بھی رہی کہ انہوں نے لارڈز سٹیڈیم میں ایک اننگز میں20 برسوں کے بعد 6 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا، اس سے قبل پاکستانی سپنر مشتاق احمد نے1996 میں ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔


موجودہ دورے کے دوران بس ایک سپنر شاداب خان پر ہی زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔بولنگ پر پابندی کی وجہ سے محمد حفیظ بھی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ نہیں جا سکے ہیں، تجربہ کار آل رائونڈر کی عدم دستیابی کے بعد فواد عالم ٹیم کے لئے بہتر انتخاب ثابت ہو سکتے تھے لیکن سلیکٹرز نے انہیں ایک بار پھر نظرانداز کر دیا۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 81 میچز کھیلے جا چکے ہیں، پاکستان نے 20 ٹیسٹ جیتے، 24ہارے جبکہ 37 مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔ پاکستان نے اپنی ملکی سرزمین پر 1961 سے 2005 تک 24 میچز کھیلے، 4میں فتح حاصل کی ، 2میں ناکامی کا سامنا رہا جبکہ 8 میچز برابری ڈرا رہے۔

پاکستان نے انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف 1954 سے2016 تک 51 میچزمیں حصہ لیا، 11میں کامیابی سمیٹی، 22 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 18میچز برابر رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان نیوٹرل مقام پر پاکستانی ٹیم کا پلڑا خاصا بھاری رہا ہے، 2012 سے 2015 تک کے درمیان دونوں ٹیموں کے درمیان 6 میچز کھیلے گئے، مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے5میں کامیابی اپنے نام کی جبکہ ایک میچ ڈرا رہا تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ کے دوروں کی بات کی جائے، تو یہ نت نئے تنازعات سے عبارت ہے، ماضی میں زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔

انضمام الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم اوول ٹیسٹ کھیلنے میں مصروف تھی، سیریز کے اس چوتھے ٹیسٹ کے چوتھے دن ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد کر دیا، چائے کے وقفے کے بعد جب پاکستانی ٹیم فیلڈنگ کے لئے گرائونڈ میں نہ گئی تو انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا گیا اور یوں امپائرز کی دھاندلی اور منیجمنٹ کی قانون سے عدم واقفیت کے باعث پاکستانی ٹیم جیتا ہوا میچ ہار گئی، اسی طرح 2010ء میں پاکستانی ٹیم لارڈ ٹیسٹ کے دوران ایک اور تنازع میں گر گئی۔

ٹیسٹ کے دوران سپاٹ فکسنگ کا ایسا کیس منظر عام پر آیا جس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے درو دویوار ہلا کر رکھ دیئے، کپتان سلمان بٹ ، محمد عامر اور محمد آصف کو نہ صرف آئی سی سی کی طرف سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ تینوں کھلاڑیوں کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ گئی۔ پاکستانی ٹیم کو ایک بار پھر پھنسانے کے لئے انگلش میڈیا نے کوئی نیا جال بچھا رکھا ہو، ٹیم مینجمنٹ کو نئے تنازعے سے بچنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔

اسی طرح 1977-78 کے دورے کے موقع پر ناکامیوں کے گرادب میں پھنسی پاکستانی ٹیم کا مورال اس قدر گر گیا تھا کہ کہ ٹیم منیجر محمود حسین اور کھلاڑی آپس میں دست وگریبان ہو گئے، انگلینڈ میں موجود پاکستانی سفیر جنرل ضیاء الحق کا خصوصی پیغام لے کر آئے اور ٹیم کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر پرنم آنکھوں کے ساتھ واپس چلے گئے اور اگلے ہی روز ہاٹ اٹیک کی وجہ سے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔

بعد ازاں پاکستانی سفیر کے بارے میں یہ باتیں منظر عام پر آئیں، انہوں نے گرین کیپس کی مسلسل ناکامیوں اور کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کی آپس میں چپقلش کا اس قدر گہرا اثر لیا جو بعد ازاں ان کے دل کے دورے کا سبب بن گیا، پاکستانی نژاد برطانوی شہری جو ہوٹل کے مالک تھے انہوں نے پلیئرز کو اس قدر ڈانٹ پلائی کہ سرفرازنواز سمیت دوسرے کھلاڑیوں کو خالی پیٹ واپس آنا پڑا۔

اس دورے کی ناکامی کے بعد چیئر مین پی سی بی چوہدری محمد حسین کے ساتھ ٹیم منیجر اور کپتان وسیم باری کو بھی اپنے عہدے چھوڑنے پڑے، پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈؑیشن اور ویسٹ انڈیز کے کامیاب دورئہ پاکستان کے بعد چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا مورال خاصا بلند ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انگلینڈ اور آئرلینڈ کے دوروں کے دوران سلیکشن کمیٹی اور ہیڈکوچ کی من مانیاں پاکستان ٹیم کو لے ڈوبیں۔

 
Load Next Story