یوتھ اولمپکس ایشین کوالیفائرز جونیئر ہاکی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کئی سوال چھوڑ گئی
پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔
یوتھ اولمپکس کے لیے ایشین ہاکی کوالیفائرز تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں جاری ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک فاتح ٹیم کا فیصلہ بھی ہو چکا ہو گا۔
ایف آئی ایچ کے جدید فارمیٹ کے مطابق یوتھ اولمپکس 2014 سے فائیو اے سائیڈ ہاکی ہو رہی ہے، ہر ٹیم 5،5 کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں 4 پلیئرز اور ایک گول کیپر ہوتا ہے۔ میچ کا دورانیہ 45 منٹ ہوتا ہے جسے 15,15 منٹ کے تین کوارٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر کوارٹر کے درمیان دو منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ یہ گیم بھی ماڈرن ہاکی کی طرح بلو آسٹرو ٹرف پر ایک پیلی بال سے کھیلی جاتی ہے، اس فارمیٹ کو ''ٹی ٹوئنٹی ہاکی'' کہا جا سکتا ہے۔ آسٹریلین ٹیم یوتھ اولمپکس کے پہلے دونوں ایڈیشنز کی فاتح اور دفاعی چیمپئن ہے۔
یوتھ اولمپکس کے لیے ایشین ہاکی کوالیفائرز کے لیے پاکستانی کے 9 رکنی جونیئر سکواڈ کی قیادت وقاص احمد کو سونپی گئی اور محب اللہ نائب کپتان بنے، دیگر کھلاڑیوں میں اویس ارشد گول کیپر، علی رضا، مرتضیٰ یعقوب، جنید رسول، محسن خان، ذوالقرنین، حماد انجم شامل تھے۔
ایشین کوالیفائرز کے ابتدائی میچ میں پاکستان کا چائنیزتائپے سے مقابلہ 3-3 سے برابر رہا، گرین شرٹس نے سنگا پور کے خلاف 5-0 سے فتح پائی، مرتضیٰ یعقوب نے ہیٹ ٹرک کی جبکہ حماد انجم نے 2 گول کیے، اگلے میچ میں کمبوڈیا کو یکطرفہ مقابلے میں20-0 سے آئوٹ کلاس کیا، حماد انجم نے ڈبل ہیٹ ٹرک کی، وقاص نے 4، مرتضیٰ اور ذوالقرنین نے 3، 3 اور محب اللہ نے ایک گول کیا۔ تاہم اس کے بعد ماضی میں پاکستان ہی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والے ملائیشین ٹیم نے 12-1 کی ہزیمت سے دوچار کر دیا، رہی سہی کسر آخری لیگ میچ میں بنگلہ دیش نے نکال دی۔
ملائیشیا کے ہاتھوں رسوائی کے بعد قومی جونئیر ٹیم کو بنگلہ دیش کے خلاف لازمی فتح درکار تھی تاہم3-1 کی برتری حاصل کرنے کے باوجود آخری لمحات میں دفاع نہ کر سکی اور حریف ٹیم نے آخری 3 منٹوں میں 2 گول داغتے ہوئے نہ صرف مقابلہ برابر کر دیا بلکہ پاکستان کو کوالیفائنگ رائونڈ سے ہی آئوٹ کر دیا۔ پول بی میں پاکستانی ٹیم 5میچزمیں 2 فتوحات، 2 ناکامیوں اور ایک ڈرا میچ کھیلتے ہوئے ملائیشیا اور بنگلہ دیش کے بعد تیسری پوزیشن پر رہی۔ ایونٹ کی فائنلسٹ ٹیمیں رواں برس 6 سے 18 اکتوبر تک ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں شیڈول یوتھ اولمپکس میں ایشیاء کی نمائندگی کریں گی۔
دنیائے ہاکی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ایک عرصے تک لہراتا رہا، یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا، پاکستان نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1960 کے روم اولمپکس میںگرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر پہلی مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشینز گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے تاہم ماضی کی ہاکی فیڈریشنوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 1960، 1968 اور 1984 کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے چلا گیا۔
پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ماضی میں دنیائے ہاکی پر راج کرنے والا پاکستان آج چھوٹی چھوٹی ٹیموں سے ہار رہا ہے، متعلقہ حکام کروڑوں کے فنڈز لے کر بھاری تنخواہیں، مراعات لیتے ہیں، جائیدادیں بناتے ، بینک بیلنس بڑھاتے اور اپنوں کو نوازتے ہیں اور ٹیموں کی ناقص کارکردگی پر فنڈز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، فیڈریشن حکام فنڈز کی کمی کی آڑ میں کب تک اپنی نااہلیاں چھپاتے پھریں گے۔
حکام کی انہی نااہلیوں کا نتیجہ ہے ہاکی ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ کامن ویلتھ گیمز میں قومی ہاکی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد اب قومی جونیئر ٹیم ایشین ہاکی کوالیفائرز میں ناکامی کے بعد یوتھ اولمپکس سے آئوٹ ہو چکی ہے۔ پی ایچ ایف کی جانب سے 23جون سے یکم جولائی تک ہالینڈ میں شیڈول ہاکی چیمپئنز ٹرافی سے قبل ہالینڈ میں تربیتی کیمپ لگا کر غیرملکی پنالٹی کارنر سپیشلسٹ، گول کیپر ٹرینر، فزیوتھراپسٹ اور فزیکل ٹرینر کی خدمات حاصل کرنے کا پروگرام ہے۔
پاکستان 3بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کر چکا ہے، اسی ایونٹ میں پاکستان 7 مرتبہ چاندی جبکہ 7 مرتبہ کانسی کے تمغے بھی حاصل کر چکا ہے۔ غیرملکی کوچز اور ٹرینرز کی خدمات لینے کا فیصلہ اپنی جگہ تاہم یہ سوچنا ہو گا کہ ٹیموں کے لیے پلیئرز کا انتخاب بھی میرٹ پر ہونا ضروری ہے۔ ماضی کے سپرسٹارز اور اولمپیئنز کا کوئی پرسان حال نہیں اور وہ غربت کے ہاتھوں اپنے میڈلز بیچنے پر مجبور ہیں۔
اب قومی کھیل سے وابستہ پلیئرز کے لیے پاکستان پلیئرز ایسوسی ایشن کی تشکیل کی خبریں ہیں، اللہ کرے کہ یہ ادارہ ہی ماضی کے سٹار پلیئرز کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہو جائے۔ حکومت اور دیگر ادارے بھی کرکٹ سے باہر نکل کر دیکھیں، پاکستان میں اور بھی بہت سے کھیل ہیں، ان پر بھی توجہ دیں، کرکٹرز پر کروڑوں نچھاور کرنے والوں کے ہاتھ دوسری گیمز کے میڈلسٹ کھلاڑیوں کو دیتے ہوئے کیوں تنگ ہو جاتے ہیں۔
اگر ماضی کی طرح قومی کھیل کو بام عروج پر پہنچانا ہے تو فیڈریشن میں ایئرمارشل نور خان اور بریگیڈیئر (ر) عاطف جیسے محب وطن، ایماندار اور کھیل کا درد رکھنے والوں کو سامنے لانا ہو گا، اقربا پروری، میرٹ کا قتل عام اور بنا سوچے سمجھے نت نئے تجربات کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو پاکستان ہاکی کا دوبارہ ابھرنا امر محال ہو گا۔
ایف آئی ایچ کے جدید فارمیٹ کے مطابق یوتھ اولمپکس 2014 سے فائیو اے سائیڈ ہاکی ہو رہی ہے، ہر ٹیم 5،5 کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں 4 پلیئرز اور ایک گول کیپر ہوتا ہے۔ میچ کا دورانیہ 45 منٹ ہوتا ہے جسے 15,15 منٹ کے تین کوارٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر کوارٹر کے درمیان دو منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ یہ گیم بھی ماڈرن ہاکی کی طرح بلو آسٹرو ٹرف پر ایک پیلی بال سے کھیلی جاتی ہے، اس فارمیٹ کو ''ٹی ٹوئنٹی ہاکی'' کہا جا سکتا ہے۔ آسٹریلین ٹیم یوتھ اولمپکس کے پہلے دونوں ایڈیشنز کی فاتح اور دفاعی چیمپئن ہے۔
یوتھ اولمپکس کے لیے ایشین ہاکی کوالیفائرز کے لیے پاکستانی کے 9 رکنی جونیئر سکواڈ کی قیادت وقاص احمد کو سونپی گئی اور محب اللہ نائب کپتان بنے، دیگر کھلاڑیوں میں اویس ارشد گول کیپر، علی رضا، مرتضیٰ یعقوب، جنید رسول، محسن خان، ذوالقرنین، حماد انجم شامل تھے۔
ایشین کوالیفائرز کے ابتدائی میچ میں پاکستان کا چائنیزتائپے سے مقابلہ 3-3 سے برابر رہا، گرین شرٹس نے سنگا پور کے خلاف 5-0 سے فتح پائی، مرتضیٰ یعقوب نے ہیٹ ٹرک کی جبکہ حماد انجم نے 2 گول کیے، اگلے میچ میں کمبوڈیا کو یکطرفہ مقابلے میں20-0 سے آئوٹ کلاس کیا، حماد انجم نے ڈبل ہیٹ ٹرک کی، وقاص نے 4، مرتضیٰ اور ذوالقرنین نے 3، 3 اور محب اللہ نے ایک گول کیا۔ تاہم اس کے بعد ماضی میں پاکستان ہی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والے ملائیشین ٹیم نے 12-1 کی ہزیمت سے دوچار کر دیا، رہی سہی کسر آخری لیگ میچ میں بنگلہ دیش نے نکال دی۔
ملائیشیا کے ہاتھوں رسوائی کے بعد قومی جونئیر ٹیم کو بنگلہ دیش کے خلاف لازمی فتح درکار تھی تاہم3-1 کی برتری حاصل کرنے کے باوجود آخری لمحات میں دفاع نہ کر سکی اور حریف ٹیم نے آخری 3 منٹوں میں 2 گول داغتے ہوئے نہ صرف مقابلہ برابر کر دیا بلکہ پاکستان کو کوالیفائنگ رائونڈ سے ہی آئوٹ کر دیا۔ پول بی میں پاکستانی ٹیم 5میچزمیں 2 فتوحات، 2 ناکامیوں اور ایک ڈرا میچ کھیلتے ہوئے ملائیشیا اور بنگلہ دیش کے بعد تیسری پوزیشن پر رہی۔ ایونٹ کی فائنلسٹ ٹیمیں رواں برس 6 سے 18 اکتوبر تک ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں شیڈول یوتھ اولمپکس میں ایشیاء کی نمائندگی کریں گی۔
دنیائے ہاکی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ایک عرصے تک لہراتا رہا، یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا، پاکستان نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1960 کے روم اولمپکس میںگرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر پہلی مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشینز گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے تاہم ماضی کی ہاکی فیڈریشنوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 1960، 1968 اور 1984 کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے چلا گیا۔
پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ماضی میں دنیائے ہاکی پر راج کرنے والا پاکستان آج چھوٹی چھوٹی ٹیموں سے ہار رہا ہے، متعلقہ حکام کروڑوں کے فنڈز لے کر بھاری تنخواہیں، مراعات لیتے ہیں، جائیدادیں بناتے ، بینک بیلنس بڑھاتے اور اپنوں کو نوازتے ہیں اور ٹیموں کی ناقص کارکردگی پر فنڈز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، فیڈریشن حکام فنڈز کی کمی کی آڑ میں کب تک اپنی نااہلیاں چھپاتے پھریں گے۔
حکام کی انہی نااہلیوں کا نتیجہ ہے ہاکی ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ کامن ویلتھ گیمز میں قومی ہاکی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد اب قومی جونیئر ٹیم ایشین ہاکی کوالیفائرز میں ناکامی کے بعد یوتھ اولمپکس سے آئوٹ ہو چکی ہے۔ پی ایچ ایف کی جانب سے 23جون سے یکم جولائی تک ہالینڈ میں شیڈول ہاکی چیمپئنز ٹرافی سے قبل ہالینڈ میں تربیتی کیمپ لگا کر غیرملکی پنالٹی کارنر سپیشلسٹ، گول کیپر ٹرینر، فزیوتھراپسٹ اور فزیکل ٹرینر کی خدمات حاصل کرنے کا پروگرام ہے۔
پاکستان 3بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کر چکا ہے، اسی ایونٹ میں پاکستان 7 مرتبہ چاندی جبکہ 7 مرتبہ کانسی کے تمغے بھی حاصل کر چکا ہے۔ غیرملکی کوچز اور ٹرینرز کی خدمات لینے کا فیصلہ اپنی جگہ تاہم یہ سوچنا ہو گا کہ ٹیموں کے لیے پلیئرز کا انتخاب بھی میرٹ پر ہونا ضروری ہے۔ ماضی کے سپرسٹارز اور اولمپیئنز کا کوئی پرسان حال نہیں اور وہ غربت کے ہاتھوں اپنے میڈلز بیچنے پر مجبور ہیں۔
اب قومی کھیل سے وابستہ پلیئرز کے لیے پاکستان پلیئرز ایسوسی ایشن کی تشکیل کی خبریں ہیں، اللہ کرے کہ یہ ادارہ ہی ماضی کے سٹار پلیئرز کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہو جائے۔ حکومت اور دیگر ادارے بھی کرکٹ سے باہر نکل کر دیکھیں، پاکستان میں اور بھی بہت سے کھیل ہیں، ان پر بھی توجہ دیں، کرکٹرز پر کروڑوں نچھاور کرنے والوں کے ہاتھ دوسری گیمز کے میڈلسٹ کھلاڑیوں کو دیتے ہوئے کیوں تنگ ہو جاتے ہیں۔
اگر ماضی کی طرح قومی کھیل کو بام عروج پر پہنچانا ہے تو فیڈریشن میں ایئرمارشل نور خان اور بریگیڈیئر (ر) عاطف جیسے محب وطن، ایماندار اور کھیل کا درد رکھنے والوں کو سامنے لانا ہو گا، اقربا پروری، میرٹ کا قتل عام اور بنا سوچے سمجھے نت نئے تجربات کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو پاکستان ہاکی کا دوبارہ ابھرنا امر محال ہو گا۔