تعمیراتی صنعت کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک آباد بجٹ سے مایوس
تعمیراتی سامان کی درآمدپرآرڈی ختم کی نہ ریلیف دیا،جائیدادپر1فیصدٹیکس کا صوبوں کو پابند نہیں کیاگیا،چیئرمین آباد
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے بجٹ 2018-19 کو تعمیراتی شعبے کے لیے مایوس کن قراردیتے ہوئے کہا ہے بجٹ میں تعمیراتی صنعت کو یکسرنظر اندازکرکے وفاق نے اس شعبے کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہے جس سے ملکی معیشت پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، ضمنی بجٹ کے آنے کا خدشہ ہے۔
آباد کے چیئرمین محمد عارف یوسف جیوا نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا پیش کردہ بجٹ سیاسی اور انتخابی بجٹ ہے، تعمیراتی شعبہ معیشت کی ترقی کا محرک ہے، بجٹ میں تعمیراتی شعبے سے متعلق واضح پالیسی کا اعلان نہ کرنا معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، اسٹیل، سینیٹری ویئرز، ٹائلز کی درآمد پر غیرمنصفانہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم نہیں کی گئی حالانکہ ہم نے بارہا حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ آرڈی کے نفاذ سے مقامی مینوفیکچررز ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں۔
آر ڈی کے نفاذ کے بعد اسٹیل کی فی ٹن قیمت 72 ہزار روپے سے 98 ہزار فی ٹن کردی گئی ہے، اتنا ہی نہیں خودحکومت نے بجلی کے نرخ میں فی یونٹ 2.50 روپے سیلز ٹیکس لاگو کیا جس کی وجہ سے سریے کی قیمت 1 لاکھ 2 ہزار روپے فی ٹن پر پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب سیمنٹ مینوفیکچررز 50 کلو سیمنٹ کی بوری پر ایف ای ڈی کی مد میں 20 روپے وصول کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے 13 روپے کا اضافہ کیا تھا، اسی طرح دیگر تعمیراتی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے تعمیراتی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہورہاہے جبکہ پاکستان میں پہلے ہی 1کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے، حکومت نے تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔
آباد نے بجٹ سے قبل جائیدادوں کی ویلیوایشن کے تہرے نظام پر حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل بیٹھ کو جائیدادوں کی قدر کا ایک نظام نافذ کر کے 1فیصد ٹیکس لاگو کریں، حکومت نے بجٹ میں جائیدادوں کی خرید و فروخت پر مارکیٹ فیئر ویلیو پر 1فیصد ٹیکس کا اعلان تو کردیا ہے تاہم صوبائی حکومتوں کو اس کا پابند نہیں کیا گیا جس کے باعث یہ اعلان غیر موثر رہے گا۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ آباد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل و دیگر متعلقہ حکام کو بجٹ کے لیے تجاویز پیش کی تھیں تاہم بجٹ میں آباد کی تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا جو تعمیراتی صنعت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ ایمنسٹی اسکیم میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے اور پہلے یونٹ کی تعمیر اور خرید پر ان سے آمدن کے ذرائع نہ پوچھیں جائیں لیکن افسوس کہ حکومت نے ہماری تجویز کو شامل نہیں کیا۔
عارف جیوا نے 4 ماہ بعد آنے والی نئی حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم سے ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ضمنی بجٹ پیش کرے کا خدشہ بھی ظاہر کیا اور کہاکہ حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں تعمیراتی صنعت کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر سوچ بچار کرنے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلیے آباد کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
آباد کے چیئرمین محمد عارف یوسف جیوا نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا پیش کردہ بجٹ سیاسی اور انتخابی بجٹ ہے، تعمیراتی شعبہ معیشت کی ترقی کا محرک ہے، بجٹ میں تعمیراتی شعبے سے متعلق واضح پالیسی کا اعلان نہ کرنا معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، اسٹیل، سینیٹری ویئرز، ٹائلز کی درآمد پر غیرمنصفانہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم نہیں کی گئی حالانکہ ہم نے بارہا حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ آرڈی کے نفاذ سے مقامی مینوفیکچررز ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں۔
آر ڈی کے نفاذ کے بعد اسٹیل کی فی ٹن قیمت 72 ہزار روپے سے 98 ہزار فی ٹن کردی گئی ہے، اتنا ہی نہیں خودحکومت نے بجلی کے نرخ میں فی یونٹ 2.50 روپے سیلز ٹیکس لاگو کیا جس کی وجہ سے سریے کی قیمت 1 لاکھ 2 ہزار روپے فی ٹن پر پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب سیمنٹ مینوفیکچررز 50 کلو سیمنٹ کی بوری پر ایف ای ڈی کی مد میں 20 روپے وصول کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے 13 روپے کا اضافہ کیا تھا، اسی طرح دیگر تعمیراتی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے تعمیراتی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہورہاہے جبکہ پاکستان میں پہلے ہی 1کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے، حکومت نے تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔
آباد نے بجٹ سے قبل جائیدادوں کی ویلیوایشن کے تہرے نظام پر حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل بیٹھ کو جائیدادوں کی قدر کا ایک نظام نافذ کر کے 1فیصد ٹیکس لاگو کریں، حکومت نے بجٹ میں جائیدادوں کی خرید و فروخت پر مارکیٹ فیئر ویلیو پر 1فیصد ٹیکس کا اعلان تو کردیا ہے تاہم صوبائی حکومتوں کو اس کا پابند نہیں کیا گیا جس کے باعث یہ اعلان غیر موثر رہے گا۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ آباد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل و دیگر متعلقہ حکام کو بجٹ کے لیے تجاویز پیش کی تھیں تاہم بجٹ میں آباد کی تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا جو تعمیراتی صنعت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ ایمنسٹی اسکیم میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے اور پہلے یونٹ کی تعمیر اور خرید پر ان سے آمدن کے ذرائع نہ پوچھیں جائیں لیکن افسوس کہ حکومت نے ہماری تجویز کو شامل نہیں کیا۔
عارف جیوا نے 4 ماہ بعد آنے والی نئی حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم سے ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ضمنی بجٹ پیش کرے کا خدشہ بھی ظاہر کیا اور کہاکہ حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں تعمیراتی صنعت کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر سوچ بچار کرنے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلیے آباد کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔