پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں ڈاکٹروں کی بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس

نوٹس میں آیا ہے کہ ’پی کے ایل آئی‘ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے، چیف جسٹس

نوٹس میں آیا ہے کہ ’پی کے ایل آئی‘ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے، چیف جسٹس فوٹو:فائل

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں ڈاکٹروں کو بھاری تنخواہوں کی ادائیگی کا ازخود نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) میں بھاری تنخواہوں کی ادائیگی کا ازخود نوٹس لے لیا۔

سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کے بجٹ اور بھرتی کیے گئے ڈاکٹرز اور عملے کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے پی کے ایل آئی میں ملازمین کے سروس اسٹرکچر کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔


چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کا سربراہ کون ہے؟۔ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر پی کے ایل آئی کے سربراہ ہیں اور وہ عمرے کی ادائیگی پر گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے ڈاکٹر سعید کی اہلیہ بھی وہاں تعینات کی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ شام تک تمام تر تفصیلات میرے گھر پر فراہم کی جائیں، عدالت کے نوٹس میں آیا ہے کہ وہاں پندرہ پندرہ لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے۔

این سی اے پرنسپل کی خلاف ضابطہ تقرری


چیف جسٹس نے نیشنل کالج آف آرٹس ( این سی اے) کے پرنسپل مرتضی جعفری کی میرٹ کے برعکس تقرری کا بھی ازخود نوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کرلیں۔ این سی اے کے پروفیسر راؤ دلشاد نے بتایا کہ مرتضی جعفری کے عہدے کی معیاد پوری ہونے کے باجود ان کی تقرری میں توسیع کی گئی ہے، مرتضی جعفری کی خاطر عمر کی حد بڑھانے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی جارہی ہے۔

پبلک سیکٹر یونیورسیٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرریاں


چیف جسٹس نے پنجاب کی 37 پبلک سیکٹر یونیورسیٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرریوں کے طریقہ کار پر بھی ازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کہ وائس چانسلر کی تقرریوں کے لیے پنجاب بھر کی جامعات میں یکساں پالیسی کو کیوں نہیں اپنایا گیا۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں بنائی جانے والی جامعات میں جانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خود سے کیسے رائے قائم کر لیتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں کوئی جانے کو تیار نہیں۔
Load Next Story