پٹرول کی ممکنہ مہنگائی کے اشارے

پٹرولیم لیوی کے ذریعے حکومت کو 480ارب روپے کا ریونیو ملے گا۔

پٹرولیم لیوی کے ذریعے حکومت کو 480ارب روپے کا ریونیو ملے گا۔فوٹو : فائل

ATTOCK:
وفاقی حکومت نے چند روز قبل مالی سال2018-19کے لیے 5ہزار 932ارب50کروڑ روپے حجم کا بجٹ پیش کیا تھا جس کے بارے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر نے ہفتے کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ متوازن، حقیقت پسندانہ اور مراعات و سہولیات کا حامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کی طرف نہیں جا رہے، بجٹ خسارے کو ساڑھے 5 فیصد پر روکیںگے، بجلی کی پیدوار بڑھ رہی ہے توگردشی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں، سرکلر ڈیٹ 350 ارب روپے کی حقیقی سطح پر برقرار رکھیں گے، رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس گروتھ 11 فیصد ہوگی، نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانیکی کوشش کی گئی ہے، بجٹ کے بعد کسی محکمے کے اخراجات نہیں بڑھیںگے، ہر مہینے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سے چھٹکارے کے لیے لیوی بڑھا دی ہے، حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوکم کرنے کے لیے برآمدات پیکیج دیا۔

امسال حکومت نے اپنی انتخابی مدت ختم ہونے کے پیش نظر وفاقی بجٹ کچھ جلدی ہی پیش کر دیا' حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ حکومت چار ماہ کا بجٹ پیش کرے۔ جب وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا تو اس وقت اپوزیشن نے احتجاج بھی کیا، بہرحال حکومت نے درست انداز میں بجٹ کی کارروائی مکمل کرلی۔

اس بجٹ کے اثرات تو آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہوئے، اگرچہ حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لیے وسیع سطح پر ٹیکس عائد نہیں کیے لیکن پٹرولیم لیوی کی مد میں اضافے کی خبروں نے عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے' تجزیہ نگاروں کے مطابق پٹرولیم لیوی کی مد میں اضافے سے پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتوں میں 20روپے فی لٹر کا اضافہ ہو جائے گا جس میں کرایوں سمیت روز مرہ زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہونے سے مہنگائی کا طوفان برپا ہو جائے گا۔

پٹرولیم لیوی کے ذریعے حکومت کو 480ارب روپے کا ریونیو ملے گا' پٹرولیم لیوی کا شمار ایسے ٹیکسوں کی کیٹیگری میں ہوتا ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان 7ویں قومی مالیاتی ایوارڈ کمیشن کے تحت تقسیم ہونے والے ٹیکسوں میں شامل نہیں' یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ ٹیکس نافذ ہو جاتا ہے تو 20روپے تک فی لٹر پٹرول مہنگا ہونے سے جہاں افراط زر میں اضافہ ہو گا وہاں ملکی معیشت کے ایک بڑے مالی بحران کی زد میں آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔


یوں لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے پٹرول' گیس اور بجلی کا شعبہ ہی بچا ہے جس پر باآسانی کوئی نہ کوئی ٹیکس عائد کر کے عوام کی جیبوں سے بزور قوت پیسہ نکلوایا جاتا ہے۔ ان شعبوں میں پہلے ہی ٹیکسوں کی بھرمار ہے جس کے لیے حکومت سالانہ کھربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کر رہی ہے۔ ریونیو میں اضافے کے لیے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانا اشد ضروری ہے چند لاکھ ٹیکس دہندگان سے اکٹھا ہونے والا ریونیو ملکی معاشی نظام میں انقلاب لانے کے لیے ناکافی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ارکان اسمبلی' سیاستدانوں اور جاگیرداروں کی بڑی تعداد حکومتی مراعات اور سہولیات سے تو بھرپور مستفیض ہوتی ہے مگر وہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتی ہے اگر ان افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو جہاں حکومت کے ریونیو میں خاطرخواہ اضافہ ہو گا وہاں اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یوٹیلٹی بلز اور پٹرولیم کے شعبے میں بے جا ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو آدھے سے زائد ملک کا ایریا ایسا ہے جہاں سے ٹیکس کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان میں فاٹا، پاٹا، بلوچستان ، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں سے حکومت کو ریونیو کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورتحال کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ان علاقوں سے ٹیکس وصولی کے لیے کوئی میکنزم تیار کرے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا وہاں تک ٹیکس نیٹ کو لے جانے میں آئینی اور قانونی مشکلات حائل ہیں۔ جب تک پورا ملک اپنے اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرے گا .

یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی عوام میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی 'ملک میں لاہور اوروسطیٰ و شمالی پنجاب 'جنوبی پنجاب کا شہری علاقہ 'سندھ میں کراچی 'حیدر آباداور سکھر کا شہری علاقہ جب کہ خیبرپختونخوا میں پشاور 'ایبٹ آباد وغیرہ کا شہری ایریا اور بلوچستان میں کوئٹہ کا شہری علاقہ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں جب کہ باقی علاقے تقریباً ہر قسم کے ٹیکس سے باہر ہی ہیں۔اس صورت حال کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

 
Load Next Story