اوپر کا آرڈر
کب ہمیں ہوش آئے گا، کب حالات بدلیں گے؟ ملک نے ترقی نہیں کی تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہم ہیں۔
یہ اوپر کیا ہے؟ بظاہر تو مراد آسمان سے ہی لی جاسکتی ہے، یعنی آسمانی حکم۔ لیکن کیا مان لیا جائے کہ آسمان، اپنے سینیٹ کے الیکشن میں مداخلت کا ارادہ رکھتا تھا؟ یا بلوچستان کی حکومت بدلنے میں، یا جو کچھ ان دنوں ملک میں ہورہا ہے، اس میں آسمان کی کوئی دلچسپی ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ تو پھر یہ اوپر کیِا ہے، کہاں سے اس کا وجود عمل میں آیا؟
یہ قوم مہنگائی اور نا انصافی کے ہاتھوں اس قدر لاغر اور کمزور ہوگئی کہ یہ اب کسی احتجاج کے کرنے سے بھی معذور ہے، لیکن یہی عوام سیاسی جلسوں میں تو لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتی ہے، وہاں ان کا جوش و خروش دیدنی، نعرے فلک شگاف، رقص ایسا کہ رقاصہ شرما جائے، پھر یہی لوگ خود اپنے لیے کیوں نہیں نکلتے؟ کیوں نہیں یہ مطالبہ کرتے کہ چناؤ کا حق آئین نے ہمیں دیا ہے، لہٰذا ہمارے منتخب کیے ہوئے کسی شخص کو کوئی غیر جمہوری قوت کیسے حکومت سے باہر نکال سکتی ہے؟
کیسے چند لوگ مل کر کسی بھی اوپر نیچے والے کے حکم کو مان سکتے ہیں؟ ہم عوام کل تعداد کا 98 فیصد ہیں تو کیسے جائز ہوا کہ ذمے دار ان کو قرار دیا جائے جو صرف 2 فیصد ہیں۔ کیوں نہ مان لیں کہ خراب ہم ہیں، خرابی ہم میں ہے۔ اگر آج بھی ہم جتنی تعداد میں سیاسی جلسوں، جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں، صرف اتنے لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئیں خود اپنے لیے، اپنی بقا، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تو ظالم دم دباکر بھاگ جائیں گے، اور نظر نہیں آئیں گے۔
لیکن ایسا تب ہوگا جب ہم ایک قوم میں ڈھل جائیں، ایک ہوجائیں۔ ویسے بھی اگر سوچیں تو یہ ایک بہت بڑا مذاق نہیں کہ ہم اٹھانوے فیصد انتہائی غریب لوگ اپنی ساری زندگی ان دو فیصد انتہائی امیر لوگوں کو مزید امیر بنانے کے لیے باقاعدہ جنگ لڑتے ہیں اور انھیں امیر بناکر ہی چھوڑتے ہیں، اور اپنے لیے کچھ نہیں کرتے۔ آخر ہم کیسے ڈرامہ قسم کے لوگ ہیں۔ اور کب ہم اپنی اصلاح کریں گے؟
کب ہمیں ہوش آئے گا، کب حالات بدلیں گے؟ ملک نے ترقی نہیں کی تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہم ہیں، نظام نہیں بدلا تو اس کے ذمے دار بھی صرف اور صرف ہم۔ مثال کے طور پر آنے والے الیکشن میں ہم تمام بہنوں، بھائیوں نے ابھی سے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہوا ہے، کسی کا لیڈر شیر ہے، کسی کا بلا، کسی کا کتاب، تو کسی کا ہلاگلا، یہ کیا طرفہ تماشا ہے؟
وہ کون ہے جو ان دنوں ببانگ دہل کہتا پھِرتا ہے میں انصاف کرنے نکلا ہوں اور مجھے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے، اور اس کا بھائی دعویٰ کرتا ہے کہ قوم آج بھی ہم سے محبت کرتی ہے، اس لیے فیصلہ سازی کا اختیار ہمیں حاصل ہے، یہ منتخب لوگ ان کا کیا ہے جو یہ مداخلت کرتے ہیں، بھلے سے اسمبلیاں ہوں، الیکشن ہوئے ہوں لیکن قوم تو ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن عملاً جب وہی اسمبلی کوئی قانون پاس کرتی ہے تو جھٹ سے مسترد، کہ یہ تو فطرت سے متصادم ہے، یعنی جھوٹ کی ایک لمبی قطار، مسلسل جھوٹ، دروغ گوئی، قوم کو بیوقوف بنانے کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ، قسموں پر قسمیں، حتیٰ کہ ایک وفاقی وزیر کے بھائی سے دوران وزٹ کہا گیا کہ اپنے بھائی کو پیغام دے دینا ''کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے''۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہے کہ کیا وہاں عدالت لگی ہوئی تھی؟ سمجھ سے کہیں بالاتر، یہ سب کیا ہورہا ہے؟
کیا یہی پاکستان ہے؟ قائداعظم کا پاکستان۔ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کے استحکام کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں۔ میری نظر میں آج اس سے بڑا بیوقوف نہیں جو ایمان رکھتا ہے کہ ہم ایک ایٹم بم کے باعث کسی بیرونی حملے سے محفوظ رہ پائیں گے۔ کیسے ایک بم ہماری حفاظت کرسکتا ہے، جب کہ ہم اندر سے بالکل ٹوٹے پھوٹے ہوں۔ یاد رکھیے صرف ایک مضبوط معاشرہ ہی ایک خطے کی حفاظت کرسکتا ہے، جو ہم نہیں بناسکے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیِا ہے؟ کہ ہم وہ کبھی نہیں کرتے جو ہماری ڈیوٹی ہے، مطلب یہ کہ وہ، وہ نہیں کر رہا جو اسے کرنا ہے، جس کا اس نے حلف اٹھایا، بلکہ وہ کام سر انجام دے رہا ہے جو اس کی ذمے داری کا حصہ ہی نہیں۔
مثال کے طور پر آج ملک میں پی آئی اے کس کے ذمے؟ صحت، ابلاغ عامہ، پاکستان اسٹیل مل، عدل و انصاف، ریلویز، دفاع... سب کو چیف جسٹس صاحب دیکھ رہے ہیں جب کہ پارلمنٹ ہے، کابینہ ہے، اسمبلیز ہیں، لیکن صرف ایک محکمہ پورا ملک چلا رہا ہے، نتیجہ کیِا نکلا؟
جب اداروں کی ساکھ ہی باقی نہ رہے گی، وہ آپس میں برسر پیکار ہوں گے تو باقی رہ کیا جائے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ ہم اپنے سماج کی اکائیوں سے کھیل رہے ہیں، ملک ٹوٹنے کے بعد بھی تعمیر ہوسکتے ہیں لیکن جب کوئی معاشرہ تباہ ہوجائے تو اس کا اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا تقریبًا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور ہم نہیں جانتے، ہم نہیں جانتے، ہم کیوں نہیں جانتے کہ ہم کہاں جارہے ہیں، بس ایک ہی بات بار بار سننے کو ملتی ہے کہ ''یہ ملک تو یونہی چلتا رہا ہے، اور یونہی چلتا رہے گا''۔ جیسے ہم 1971 کی انڈیا پاکستان جنگ میں سنتے تھے، دشمن کا جہاز آیا، اس نے سو بم برسائے، لیکن کراچی میں حضرت عبداﷲ شاہ غازی نے سارے بم زمین پر گرنے سے پہلے ہی ہاتھ میں لے کر سمندر میں پھینک دیے، لاہور میں یہی کام حضرت داتا علی ہجویریؒ نے کیا''۔ آج بھی صورتحال سابقہ سے کچھ زیادہ مختلفن ہیں۔
پاکستان چلتا رہے گا، کوئی اسے لوٹتا رہے، کھسوٹتا رہے، اس کے سینے پر بدترین مظالم ہوں، ایک سات سالہ معصوم بچی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا جائے اور اس کا قاتل عدالتی طریقہ کار کا فائدہ اٹھا کر بھی زندہ رہے اور کئی سال تک زندگی کا لطف اٹھاتا رہے۔ حالانکہ جب ثبوت، اعتراف جرم، گواہیاں سب کچھ مکمل ہوچکا تو وہ درندہ کیوں زندہ ہے؟ پھر کیا ہوا؟ ایسی ڈھیلی ڈھالی کارروائی سے اور درندوں کو شہ ملی، درجنوں مزید جرائم ہوئے، ابھی چند روز پہلے ہی ضلع لاڑکانہ میں ایک نہایت بہیمانہ جرم ہوا اور ایک آٹھ سالہ بچی صائمہ کو اسی درندگی کے ساتھ جنسی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔
میں مسیحائے پا کستان سے درخواست کروں گا کہ حضور جب آپ، بس آپ ہیں تو ذرا یہاں بھی ایکشن لیجیے۔ میں ملک کے دانشور حضرات سے مخاطب ہوکر کہنا چاہتا ہوں اگر وہ ملک میں باقی رہ گئے ہیں کہ حضور والا کیا آپ جانتے ہیں، ہم نے اپنا ملک کھوکھلا کردیا، ہم نے عملاً اسے توڑ دیا، اس کی اکائیاں برباد کردی ہیں، شاید آپ جانتے ہوں یا شاید نہیں۔ کوئی الیکشن ہمیں کیا دے گا؟
ایک نئی مصیبت، ایک نیا امتحان، مشقت، اور کیا؟ کیونکہ ہم نکلنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ ہم ہنوز دلی دور است کے عظیم فارمولے پر عمل پیرا ہیں، اور سرگوشیوں میں کہتے ہیں، مانتے ہیں ''ارے جانے دو، اپنا کیا بگڑا اب تک؟ سب ٹھیک چل رہا ہے''۔ اﷲ رکھے یونہی چلتا بھی رہے گا۔ کیونکہ اوپر کا آرڈر ہے کہ میرے فلاں بندے پر کوئی آزمائش نا آئے، وہ خاص ہے میرا، پورا رمضان روزے رکھتا ہے، تراویح کے ساتھ، کئی عمرے کرچکا اب تک، مزید کی تیاری ہے۔ اب یہ تو راؤ نے ملک کا قصہ چھیڑ دیا، میاں بھلا ملک بھی کسی سے سنبھلا ہے، ملک تو اللہ ہی سنبھالتا ہے۔
اس تحریر کے اختتام پر بھی یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ کون ہے؟ صرف ہم، ہم بائیس کروڑ عوام۔ ہم نہیں جاگتے، نہ بیدار ہوتے ہیں، نہ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، نا مانتے ہیں۔ پھر انتخاب کا مرحلہ ہے، اپنے مستقبل کی بقا کا مرحلہ ہے، ملک کو بچانے کا، سنوارنے کا مرحلہ ہے۔ آخری مواقع قدرت ہمیں فراہم کر رہی ہے، آؤ نکلتے ہیں، آؤ ایک قوم میں ڈھلتے ہیں اور اندر و باہر کے دشمنوں کو بتادیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں، پایندہ قوم ہیں۔
یہ قوم مہنگائی اور نا انصافی کے ہاتھوں اس قدر لاغر اور کمزور ہوگئی کہ یہ اب کسی احتجاج کے کرنے سے بھی معذور ہے، لیکن یہی عوام سیاسی جلسوں میں تو لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتی ہے، وہاں ان کا جوش و خروش دیدنی، نعرے فلک شگاف، رقص ایسا کہ رقاصہ شرما جائے، پھر یہی لوگ خود اپنے لیے کیوں نہیں نکلتے؟ کیوں نہیں یہ مطالبہ کرتے کہ چناؤ کا حق آئین نے ہمیں دیا ہے، لہٰذا ہمارے منتخب کیے ہوئے کسی شخص کو کوئی غیر جمہوری قوت کیسے حکومت سے باہر نکال سکتی ہے؟
کیسے چند لوگ مل کر کسی بھی اوپر نیچے والے کے حکم کو مان سکتے ہیں؟ ہم عوام کل تعداد کا 98 فیصد ہیں تو کیسے جائز ہوا کہ ذمے دار ان کو قرار دیا جائے جو صرف 2 فیصد ہیں۔ کیوں نہ مان لیں کہ خراب ہم ہیں، خرابی ہم میں ہے۔ اگر آج بھی ہم جتنی تعداد میں سیاسی جلسوں، جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں، صرف اتنے لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئیں خود اپنے لیے، اپنی بقا، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تو ظالم دم دباکر بھاگ جائیں گے، اور نظر نہیں آئیں گے۔
لیکن ایسا تب ہوگا جب ہم ایک قوم میں ڈھل جائیں، ایک ہوجائیں۔ ویسے بھی اگر سوچیں تو یہ ایک بہت بڑا مذاق نہیں کہ ہم اٹھانوے فیصد انتہائی غریب لوگ اپنی ساری زندگی ان دو فیصد انتہائی امیر لوگوں کو مزید امیر بنانے کے لیے باقاعدہ جنگ لڑتے ہیں اور انھیں امیر بناکر ہی چھوڑتے ہیں، اور اپنے لیے کچھ نہیں کرتے۔ آخر ہم کیسے ڈرامہ قسم کے لوگ ہیں۔ اور کب ہم اپنی اصلاح کریں گے؟
کب ہمیں ہوش آئے گا، کب حالات بدلیں گے؟ ملک نے ترقی نہیں کی تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہم ہیں، نظام نہیں بدلا تو اس کے ذمے دار بھی صرف اور صرف ہم۔ مثال کے طور پر آنے والے الیکشن میں ہم تمام بہنوں، بھائیوں نے ابھی سے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہوا ہے، کسی کا لیڈر شیر ہے، کسی کا بلا، کسی کا کتاب، تو کسی کا ہلاگلا، یہ کیا طرفہ تماشا ہے؟
وہ کون ہے جو ان دنوں ببانگ دہل کہتا پھِرتا ہے میں انصاف کرنے نکلا ہوں اور مجھے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے، اور اس کا بھائی دعویٰ کرتا ہے کہ قوم آج بھی ہم سے محبت کرتی ہے، اس لیے فیصلہ سازی کا اختیار ہمیں حاصل ہے، یہ منتخب لوگ ان کا کیا ہے جو یہ مداخلت کرتے ہیں، بھلے سے اسمبلیاں ہوں، الیکشن ہوئے ہوں لیکن قوم تو ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن عملاً جب وہی اسمبلی کوئی قانون پاس کرتی ہے تو جھٹ سے مسترد، کہ یہ تو فطرت سے متصادم ہے، یعنی جھوٹ کی ایک لمبی قطار، مسلسل جھوٹ، دروغ گوئی، قوم کو بیوقوف بنانے کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ، قسموں پر قسمیں، حتیٰ کہ ایک وفاقی وزیر کے بھائی سے دوران وزٹ کہا گیا کہ اپنے بھائی کو پیغام دے دینا ''کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے''۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہے کہ کیا وہاں عدالت لگی ہوئی تھی؟ سمجھ سے کہیں بالاتر، یہ سب کیا ہورہا ہے؟
کیا یہی پاکستان ہے؟ قائداعظم کا پاکستان۔ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کے استحکام کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں۔ میری نظر میں آج اس سے بڑا بیوقوف نہیں جو ایمان رکھتا ہے کہ ہم ایک ایٹم بم کے باعث کسی بیرونی حملے سے محفوظ رہ پائیں گے۔ کیسے ایک بم ہماری حفاظت کرسکتا ہے، جب کہ ہم اندر سے بالکل ٹوٹے پھوٹے ہوں۔ یاد رکھیے صرف ایک مضبوط معاشرہ ہی ایک خطے کی حفاظت کرسکتا ہے، جو ہم نہیں بناسکے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیِا ہے؟ کہ ہم وہ کبھی نہیں کرتے جو ہماری ڈیوٹی ہے، مطلب یہ کہ وہ، وہ نہیں کر رہا جو اسے کرنا ہے، جس کا اس نے حلف اٹھایا، بلکہ وہ کام سر انجام دے رہا ہے جو اس کی ذمے داری کا حصہ ہی نہیں۔
مثال کے طور پر آج ملک میں پی آئی اے کس کے ذمے؟ صحت، ابلاغ عامہ، پاکستان اسٹیل مل، عدل و انصاف، ریلویز، دفاع... سب کو چیف جسٹس صاحب دیکھ رہے ہیں جب کہ پارلمنٹ ہے، کابینہ ہے، اسمبلیز ہیں، لیکن صرف ایک محکمہ پورا ملک چلا رہا ہے، نتیجہ کیِا نکلا؟
جب اداروں کی ساکھ ہی باقی نہ رہے گی، وہ آپس میں برسر پیکار ہوں گے تو باقی رہ کیا جائے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ ہم اپنے سماج کی اکائیوں سے کھیل رہے ہیں، ملک ٹوٹنے کے بعد بھی تعمیر ہوسکتے ہیں لیکن جب کوئی معاشرہ تباہ ہوجائے تو اس کا اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا تقریبًا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور ہم نہیں جانتے، ہم نہیں جانتے، ہم کیوں نہیں جانتے کہ ہم کہاں جارہے ہیں، بس ایک ہی بات بار بار سننے کو ملتی ہے کہ ''یہ ملک تو یونہی چلتا رہا ہے، اور یونہی چلتا رہے گا''۔ جیسے ہم 1971 کی انڈیا پاکستان جنگ میں سنتے تھے، دشمن کا جہاز آیا، اس نے سو بم برسائے، لیکن کراچی میں حضرت عبداﷲ شاہ غازی نے سارے بم زمین پر گرنے سے پہلے ہی ہاتھ میں لے کر سمندر میں پھینک دیے، لاہور میں یہی کام حضرت داتا علی ہجویریؒ نے کیا''۔ آج بھی صورتحال سابقہ سے کچھ زیادہ مختلفن ہیں۔
پاکستان چلتا رہے گا، کوئی اسے لوٹتا رہے، کھسوٹتا رہے، اس کے سینے پر بدترین مظالم ہوں، ایک سات سالہ معصوم بچی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا جائے اور اس کا قاتل عدالتی طریقہ کار کا فائدہ اٹھا کر بھی زندہ رہے اور کئی سال تک زندگی کا لطف اٹھاتا رہے۔ حالانکہ جب ثبوت، اعتراف جرم، گواہیاں سب کچھ مکمل ہوچکا تو وہ درندہ کیوں زندہ ہے؟ پھر کیا ہوا؟ ایسی ڈھیلی ڈھالی کارروائی سے اور درندوں کو شہ ملی، درجنوں مزید جرائم ہوئے، ابھی چند روز پہلے ہی ضلع لاڑکانہ میں ایک نہایت بہیمانہ جرم ہوا اور ایک آٹھ سالہ بچی صائمہ کو اسی درندگی کے ساتھ جنسی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔
میں مسیحائے پا کستان سے درخواست کروں گا کہ حضور جب آپ، بس آپ ہیں تو ذرا یہاں بھی ایکشن لیجیے۔ میں ملک کے دانشور حضرات سے مخاطب ہوکر کہنا چاہتا ہوں اگر وہ ملک میں باقی رہ گئے ہیں کہ حضور والا کیا آپ جانتے ہیں، ہم نے اپنا ملک کھوکھلا کردیا، ہم نے عملاً اسے توڑ دیا، اس کی اکائیاں برباد کردی ہیں، شاید آپ جانتے ہوں یا شاید نہیں۔ کوئی الیکشن ہمیں کیا دے گا؟
ایک نئی مصیبت، ایک نیا امتحان، مشقت، اور کیا؟ کیونکہ ہم نکلنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ ہم ہنوز دلی دور است کے عظیم فارمولے پر عمل پیرا ہیں، اور سرگوشیوں میں کہتے ہیں، مانتے ہیں ''ارے جانے دو، اپنا کیا بگڑا اب تک؟ سب ٹھیک چل رہا ہے''۔ اﷲ رکھے یونہی چلتا بھی رہے گا۔ کیونکہ اوپر کا آرڈر ہے کہ میرے فلاں بندے پر کوئی آزمائش نا آئے، وہ خاص ہے میرا، پورا رمضان روزے رکھتا ہے، تراویح کے ساتھ، کئی عمرے کرچکا اب تک، مزید کی تیاری ہے۔ اب یہ تو راؤ نے ملک کا قصہ چھیڑ دیا، میاں بھلا ملک بھی کسی سے سنبھلا ہے، ملک تو اللہ ہی سنبھالتا ہے۔
اس تحریر کے اختتام پر بھی یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ کون ہے؟ صرف ہم، ہم بائیس کروڑ عوام۔ ہم نہیں جاگتے، نہ بیدار ہوتے ہیں، نہ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، نا مانتے ہیں۔ پھر انتخاب کا مرحلہ ہے، اپنے مستقبل کی بقا کا مرحلہ ہے، ملک کو بچانے کا، سنوارنے کا مرحلہ ہے۔ آخری مواقع قدرت ہمیں فراہم کر رہی ہے، آؤ نکلتے ہیں، آؤ ایک قوم میں ڈھلتے ہیں اور اندر و باہر کے دشمنوں کو بتادیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں، پایندہ قوم ہیں۔