صدر ٹرمپ کا گیم پلان
اوباما دور میں جب یہ جوہری معاہدہ ہوا تو ری پبلیکن اور اسرائیل نے اس معاہدے کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
BAHAWALPUR:
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی وجوہات کو جواز بناکر آیندہ ماہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔
فرانسیسی صدر کا یہ بیان ان کے حالیہ تین روزہ امریکی دورے کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جوہری معاہدہ برقرار رکھنے پر قائل نہیں کرسکے۔و اشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ٹرمپ کسی بہانے معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تاہم خطرہ یہی ہے کہ ٹرمپ معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کریں گے۔
امریکی میڈیا کے مطابق انھوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معاملات میں امریکا کے موقف میں مسلسل تبدیلی کے نتائج محدود مدت کے لیے تو کارگر ہوسکتے ہیں لیکن طویل مدت کے پیش نظر یہ محض پاگل پن ہیں۔
فرانس کے صدر نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر طے پانے والے معاہدے کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی فرانسیسی صدر کے دورے سے جو نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہ حاصل کرسکے۔ بلکہ فرانسیسی صدر نے امریکی خارجہ پالیسی میں عدم تسلسل کو امریکی پاگل پن قرار دیتے ہوئے بڑے سخت الفاظ استعمال کیے۔
یہاں تک کہا کہ کسی اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ صدر ٹرمپ ذاتی وجوہات کی بنا پر اسی امریکا ایران جوہری معاہدے سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں جس پر دنیا کی 6 عالمی طاقتوں کے دستخط ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاہدے کی گارنٹر ہے۔ باوجود اس کے فرانس، جرمنی اور برطانیہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ جوہری معاہدہ نہ صرف دنیا بلکہ امریکا یورپ کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے تاکہ دنیا کا امن خطرے میں نہ پڑے۔
ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ البرادی کہہ چکے ہیں کہ اگر اس معاہدے پر آنچ آئی تو مشرق وسطیٰ آگ کے گولے میں تبدیل ہوجائے گا۔ برطانوی اخبار گارڈین نے تبصرہ کرتے ہوئے چند دن پیشتر کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اس کی اجارہ داری ایٹمی اور دوسرے تباہ کن ہتھیاروں پر برقرار رہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا کوئی اور ملک ایٹمی طاقت حاصل کرسکے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر اپنی بالادستی برقرار رکھی جاسکتی ہے جب کہ طاقت کے نئے مراکز کے ابھار نے دنیا پر امریکا کی بالادستی کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کے لیے وہ ایک بڑی جنگ کی تیاریاں کررہا ہے۔
اسرائیل کا امریکی پالیسیوں پر کس قدر اثرو رسوخ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اسرائیل کے صدر نے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد چند ماہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ امریکا 12 مئی کو جوہری معاہدے سے نکل جائے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل ڈکٹیشن دیتا ہے امریکا اس پر عمل کرتا ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلیکن دونوں ہی اسرائیل نواز ہیں جب کہ ری پبلکن پارٹی اس معاملے میں اپنے حریف سے بہت آگے ہے۔
اوباما دور میں جب یہ جوہری معاہدہ ہوا تو ری پبلیکن اور اسرائیل نے اس معاہدے کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ اسرائیلی صدر اس معاہدے کو رکوانے کے لیے خود واشنگٹن پہنچ گئے۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرکے اس معاہدے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ صدر اوباما کی توہین سے بھی گریز نہ کیا۔ جب بات پھر بھی نہ بنی تو ری پبلیکن نے اعلان کردیا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو اس معاہدے کو ختم کردیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل اس معاہدے کو ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک ایک کرکے عرب مخالف قوتیں ختم ہوچکی ہیں۔ اب آخری رکاوٹ شام ایران ہی رہ گئے ہیں۔ اگر یہ رکاوٹ بھی دور ہوجاتی ہے تو سامنے پاکستان ہے۔ پاکستان پہلے ہی شدید امریکی دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے ہمسائے بھارت اور افغانستان ہیں جن کی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان دونوں کا ایجنڈا بھی وہی ہے جو امریکا اسرائیل کا ہے۔ بیت المقدس کو مدتوں بعد امریکا نے اسرائیل کا دارالحکومت بلاوجہ تسلیم نہیں کیا۔
امریکا و اسرائیل کے مفادات میں کوئی تضاد نہیں۔ دونوں کے مفادات مشرق وسطیٰ میں مشترکہ ہیں۔ اسرائیل کی کامیابی امریکا کی کامیابی اور اس کی ناکامی امریکا کی ناکامی ہے۔ اس بات کو آپ اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسرائیل امریکا کی 53 ویں ریاست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں واقعہ ہے۔امریکی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں بڑی تیز رفتار تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے دورہ روس کے گزشتہ روز آرمی چیف کا دورہ روس انتہائی غیر معمولی ہے۔
امریکی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے روس چین پاکستان ایران کا بلاک بن رہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے ایک بہت بڑی جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس جنگ میں امریکا کی کامیابی کا مطلب ہے کہ طاقت کے نئے مراکز کا اپنی پیدائش سے پہلے ہی خاتمہ اور امریکی غلامی اگلی کئی دہائیوں کے لیے دنیا کا مقصدر بننا۔بات ہورہی تھی فرانسیسی صدر کے دورہ واشنگٹن کی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فرانس ہو یا برطانیہ یا جرمنی کب تک امریکی دباؤ کا مقابلہ کریں گے یا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے۔ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کے حوالے سے چین اور روس کا کردار فیصلہ کن ہوگا جو اس معاہدے کے ضمانتی ہیں۔اس وقت ہمارے خطے کے حوالے سے جو سرگرمیاں ہورہی ہیں وہ نہ صرف یہاں پر موجود ملکوں کے مقدر کا فیصلہ کریں گی بلکہ ان ملکوں کا ناک نقشہ ایسا تبدیل ہوگا کہ پہچانا نہ جائے گا۔ جب کہ ہمارے عوام اس سے بالکل بے نیاز ہیں اور ہمارے سیاسی اور معاشی بحران اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال خطے میں سامراجی ایجنڈے کو بروئے کار لانے میں امریکا کے لیے سنہری موقعہ ہے۔
٭... جون، جولائی امریکی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے پہلا اہم ترین وقت ہے۔
سیل فون: 0346-4527997
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی وجوہات کو جواز بناکر آیندہ ماہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔
فرانسیسی صدر کا یہ بیان ان کے حالیہ تین روزہ امریکی دورے کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جوہری معاہدہ برقرار رکھنے پر قائل نہیں کرسکے۔و اشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ٹرمپ کسی بہانے معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تاہم خطرہ یہی ہے کہ ٹرمپ معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کریں گے۔
امریکی میڈیا کے مطابق انھوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معاملات میں امریکا کے موقف میں مسلسل تبدیلی کے نتائج محدود مدت کے لیے تو کارگر ہوسکتے ہیں لیکن طویل مدت کے پیش نظر یہ محض پاگل پن ہیں۔
فرانس کے صدر نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر طے پانے والے معاہدے کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی فرانسیسی صدر کے دورے سے جو نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہ حاصل کرسکے۔ بلکہ فرانسیسی صدر نے امریکی خارجہ پالیسی میں عدم تسلسل کو امریکی پاگل پن قرار دیتے ہوئے بڑے سخت الفاظ استعمال کیے۔
یہاں تک کہا کہ کسی اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ صدر ٹرمپ ذاتی وجوہات کی بنا پر اسی امریکا ایران جوہری معاہدے سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں جس پر دنیا کی 6 عالمی طاقتوں کے دستخط ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاہدے کی گارنٹر ہے۔ باوجود اس کے فرانس، جرمنی اور برطانیہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ جوہری معاہدہ نہ صرف دنیا بلکہ امریکا یورپ کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے تاکہ دنیا کا امن خطرے میں نہ پڑے۔
ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ البرادی کہہ چکے ہیں کہ اگر اس معاہدے پر آنچ آئی تو مشرق وسطیٰ آگ کے گولے میں تبدیل ہوجائے گا۔ برطانوی اخبار گارڈین نے تبصرہ کرتے ہوئے چند دن پیشتر کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اس کی اجارہ داری ایٹمی اور دوسرے تباہ کن ہتھیاروں پر برقرار رہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا کوئی اور ملک ایٹمی طاقت حاصل کرسکے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر اپنی بالادستی برقرار رکھی جاسکتی ہے جب کہ طاقت کے نئے مراکز کے ابھار نے دنیا پر امریکا کی بالادستی کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کے لیے وہ ایک بڑی جنگ کی تیاریاں کررہا ہے۔
اسرائیل کا امریکی پالیسیوں پر کس قدر اثرو رسوخ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اسرائیل کے صدر نے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد چند ماہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ امریکا 12 مئی کو جوہری معاہدے سے نکل جائے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل ڈکٹیشن دیتا ہے امریکا اس پر عمل کرتا ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلیکن دونوں ہی اسرائیل نواز ہیں جب کہ ری پبلکن پارٹی اس معاملے میں اپنے حریف سے بہت آگے ہے۔
اوباما دور میں جب یہ جوہری معاہدہ ہوا تو ری پبلیکن اور اسرائیل نے اس معاہدے کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ اسرائیلی صدر اس معاہدے کو رکوانے کے لیے خود واشنگٹن پہنچ گئے۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرکے اس معاہدے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ صدر اوباما کی توہین سے بھی گریز نہ کیا۔ جب بات پھر بھی نہ بنی تو ری پبلیکن نے اعلان کردیا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو اس معاہدے کو ختم کردیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل اس معاہدے کو ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک ایک کرکے عرب مخالف قوتیں ختم ہوچکی ہیں۔ اب آخری رکاوٹ شام ایران ہی رہ گئے ہیں۔ اگر یہ رکاوٹ بھی دور ہوجاتی ہے تو سامنے پاکستان ہے۔ پاکستان پہلے ہی شدید امریکی دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے ہمسائے بھارت اور افغانستان ہیں جن کی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان دونوں کا ایجنڈا بھی وہی ہے جو امریکا اسرائیل کا ہے۔ بیت المقدس کو مدتوں بعد امریکا نے اسرائیل کا دارالحکومت بلاوجہ تسلیم نہیں کیا۔
امریکا و اسرائیل کے مفادات میں کوئی تضاد نہیں۔ دونوں کے مفادات مشرق وسطیٰ میں مشترکہ ہیں۔ اسرائیل کی کامیابی امریکا کی کامیابی اور اس کی ناکامی امریکا کی ناکامی ہے۔ اس بات کو آپ اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسرائیل امریکا کی 53 ویں ریاست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں واقعہ ہے۔امریکی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں بڑی تیز رفتار تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے دورہ روس کے گزشتہ روز آرمی چیف کا دورہ روس انتہائی غیر معمولی ہے۔
امریکی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے روس چین پاکستان ایران کا بلاک بن رہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے ایک بہت بڑی جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس جنگ میں امریکا کی کامیابی کا مطلب ہے کہ طاقت کے نئے مراکز کا اپنی پیدائش سے پہلے ہی خاتمہ اور امریکی غلامی اگلی کئی دہائیوں کے لیے دنیا کا مقصدر بننا۔بات ہورہی تھی فرانسیسی صدر کے دورہ واشنگٹن کی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فرانس ہو یا برطانیہ یا جرمنی کب تک امریکی دباؤ کا مقابلہ کریں گے یا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے۔ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کے حوالے سے چین اور روس کا کردار فیصلہ کن ہوگا جو اس معاہدے کے ضمانتی ہیں۔اس وقت ہمارے خطے کے حوالے سے جو سرگرمیاں ہورہی ہیں وہ نہ صرف یہاں پر موجود ملکوں کے مقدر کا فیصلہ کریں گی بلکہ ان ملکوں کا ناک نقشہ ایسا تبدیل ہوگا کہ پہچانا نہ جائے گا۔ جب کہ ہمارے عوام اس سے بالکل بے نیاز ہیں اور ہمارے سیاسی اور معاشی بحران اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال خطے میں سامراجی ایجنڈے کو بروئے کار لانے میں امریکا کے لیے سنہری موقعہ ہے۔
٭... جون، جولائی امریکی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے پہلا اہم ترین وقت ہے۔
سیل فون: 0346-4527997