تیسرا حصہ

دولت کاتیسراحصہ عام لوگوں پر صَرف نہیں کرتے۔ پھرپوچھتے ہیں کہ مصیبتیں ختم نہیں ہوتیں!

raomanzar@hotmail.com

رفیع مجھے چاردہائیاں پہلے ملاتھا۔نیم خواندہ بے چین نوجوان۔بس ایک سوال پوچھتا تھاکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کیاکرناچاہیے۔ہاسٹل میں اس سے صرف شناسائی تھی۔وزیرآبادسے تعلق رکھنے والے روم میٹ کا پرانادوست تھا۔سال میں تین چار بار لاہور آکر کمرے میں ٹھہرتا تھا۔ ہر بار سوال وہی ہوتاتھا۔جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔پانچ سال بعدہم سارے اپنے اپنے مقدرکی پنسل سے کھینچی ہوئی لکیروں پرتنہاچل پڑے۔ کون کہاں گیا،کیوں گیا،بالکل معلوم نہ ہوا۔ رفیع بھی ذہن سے فراموش ہوگیا۔

چندمہینے قبل،لاہورجمخانہ کلب کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے گیاتووہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔جم خانہ کامسئلہ یہ ہے کہ اس کی ممبرشپ اتنی کثیرتعداد میں ہے کہ رش بے انتہا بڑھ چکاہے۔ میں اکثرممبران کونہیں جانتا۔حالانکہ ممبربنے تیس سال گزرچکے ہیں۔ہرطرف نئے اور اجنبی چہرے نظر آتے ہیں۔ مرد اور عورتوں کامینا بازارسا لگا رہتا ہے۔ خیر سیڑھیاں چڑھ رہاتھاتوکسی نے دورسے نام لے کر پکارا۔ نام سے آوازصرف بے تکلف دوست ہی دے سکتے ہیں۔ ایک دم ایک ناشناساشخص گلے لگ گیا۔عجیب کیفیت تھی۔اسکونہ جانتاتھانہ پہچانتاتھا۔

مجھے تذبذب میں دیکھ کر بولا، رفیع ہوں۔ہوسٹل میں آتاتھا۔ایک دم سب کچھ ذہن میں آگیا۔ ہوسٹل،رفیع اوراس کا وزیرآبادی دوست۔رفیع نے انتہائی شاندارسوٹ پہن رکھاتھا۔بیش قیمت گھڑی کلائی میں تھی اوراٹلی کے جوتے پہن رکھے تھے۔ رفیع بھی اسی تقریب میں مدعوتھاجہاں میں جارہاتھا۔خیراب اس جگہ کیا بیٹھنا تھا۔ حاضری لگائی،میں اوررفیع باہرنکل کر جمخانہ کے لان میں بیٹھ گئے۔ رفیع سادگی سے بات کرتا تھا۔وہی چالیس برس پرانا لب ولہجہ۔کافی دیرتک باتیں کرتارہا۔میں خاموشی سے سن رہاتھا۔

رفیع کہنے لگا۔جب تمام لوگ ہاسٹل چھوڑکراپنے اپنے مقام پرچلے گئے تومیں اکیلارہ گیا۔وزیرآباد والا دوست سعودی عرب چلاگیا۔کچھ سمجھ نہ آیاکہ کیا کروں۔ سرکاری ملازمت کے لیے جوتعلیم چاہیے تھی،میرے پاس نہیں تھی۔ایک دوسال دھکے کھاکرمعلوم ہوگیاکہ سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی۔اب دیکھتاہوں توسرکارکی ملازمت نہ ملنامیری سب سے بڑی خوش قسمتی تھی۔ بے روزگار تھا۔

جیب میں صرف پندرہ ہزارروپے تھے۔اتنے کم پیسوں سے کوئی بھی کاروبارنہیں ہوسکتاتھا۔مایوسی تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔ایک دن بیٹھے بیٹھے ذہن میں خیال آیاکہ کیوں نہ کڑھے ہوئے کپڑوں کاکام شروع کیاجائے۔چندمقامی دوستوں سے ذکرکیاتومذاق اُڑاناشروع کردیاکہ تمہاری سات پشتوں نے کبھی کوئی کاروبارنہیں کیا۔تمہارے پاس توکسی قسم کاکوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔مگر ٹھان لی کہ میں ملبوسات کاکام ہی کرونگا۔

کپڑابیچنے والے دکاندارکے پاس گیا اورکہاکہ پندرہ ہزار کا کپڑا چاہیے۔ اَن سلا کپڑا لیا جو مشکل سے چندتھان بنے۔خریداری کے بعد بہاولپور جا پہنچا۔ وہاںخواتین گھروں میں کڑھائی شدہ عمدہ ملبوسات بناتی ہیں۔یہ ہنر وسیب کا ایک جادوہے۔خیرمیرے پاس پچاس جوڑے تیار ہوگئے۔ ایک تھیلے میں کپڑے بندکیے اورلاہور آگیا۔ یہاں بڑے بڑے شورومز پرگیا۔اکثرجگہ سے انکار ہوگیا۔ کوئی بھی سلے ہوئے کُرتوں کے جائزپیسے نہیں دے رہاتھا۔

سوچتا رہا کہ کیا کرناچاہیے۔لبرٹی مارکیٹ کے ایک تاجر کو کہا کہ اپنی دکان پر ملبوسات رکھ لواورپیسے اس وقت دینا،جب یہ فروخت ہوجائیں۔یعنی مال مکمل اُدھار پردیدیا۔تاجرمان گیا۔بیس دن بعدواپس لاہور آیا تو تاجر نے کہاکہ دیرسے آئے ہو۔ تمہارے دیے ہوئے کُرتے توتین دن میں بک گئے ہیں۔ اس نے سترہزارروپے میرے حوالے کردیے۔یہ زندگی کی پہلی کمائی تھی۔اب سمجھ آگئی کہ کیاکرناہے۔

اب میں نے کاروبارکی اسی لائن کواپنامقدرسمجھ کرکام کرناشروع کردیا۔کپڑاخریدتاتھا۔مضافاتی علاقوں سے دیدہ زیب کڑھائی کراتاتھااورلاہورکے بڑے بڑے شورومز پرفروخت کردیتاتھا۔دوسال کے بعدیہی کام کراچی میں شروع کردیا۔حالت یہ ہوگئی کہ کپڑافروخت کرنے والوں نے مجھے اُدھاردیناشروع کردیا۔اگرمیں چالیس لاکھ کاکورا کپڑامانگتاتھاتوآنکھیں بندکرکے دے دیتے تھے۔اس کی وجہ بہت سادہ تھی۔جس تاریخ کومیں نے پیسے دینے ہوتے تھے۔

ایک دن پہلے ان کی دکان کھلنے سے پہلے سامنے کھڑا ہوجاتا تھا۔جیسے ہی سیٹھ دکان پرآتاتھا،پیسے واپس کرتاتھا اور خاموشی سے واپس چلاجاتاتھا۔تاجروں کواس عادت کی وجہ سے میرے اوپراندھااعتمادہوگیا۔چندبرسوں میں لاکھوں میں منافع چلاگیا۔اب ملازم بھی رکھ لیے۔ ہر شہر میں کاروبار پھیلتاگیا۔پہلے آبائی گھرکی توسیع کی۔اس کے بعدگلبرگ لاہورمیں بڑاگھربناکروالدین کے ساتھ منتقل ہوگیا۔


ہر طرح کاسکھ آرام میرے پاس تھا۔اچانک ایک نوجوان تاجرجس سے کپڑااُدھارپرلیتاتھا،فوت ہوگیا۔میں نے اس کے ساٹھ لاکھ دینے تھے۔چالیس دن کے بعد،اس نوجوان تاجرکے گھرگیااوراہل خانہ کوساٹھ لاکھ روپے دیکرواپس آگیا۔مگرپہلی باراحساس ہواکہ ٹھیک ہے دولت بھی اہم ہے، مگر موت توکسی بھی پل آسکتی ہے۔جاناتوقبرہی میں ہے۔

گھربیٹھ کرسوچ میں ڈوبارہا۔پہلی بارایک عالم دین کے پاس گیا۔پوچھاکہ دولت کاصحیح مصرف کیاہے۔سمجھاکہ چندہ دینے آیاہوں۔لہذا اپنے ادارے کے متعلق مدد کا تقاضا کیا۔ذہنی کیفیت مزیداُلجھ گئی۔گھرآیااوردوفیصلے کیے۔ سب سے پہلے فیصلے کے تحت اپنی دولت کوتین حصوں میں تقسیم کر دیا۔کسی نے یہ نہیں کہاکہ اپنی دولت کاکثیرحصہ لوگوں کے لیے کیوں خرچ کررہے ہیں۔یہ میری زندگی کوتبدیل کرنے والا پہلا فیصلہ تھا۔سب سے پہلے اپنے ان رشتہ داروں کی طرف دھیان گیاجوزندگی کی دوڑمیں پیچھے رہ گئے تھے۔ان کی ضروریات پوری کرنی شروع کردیں۔

بچوں اوربچیوں کواعلیٰ تعلیم دلوانی شروع کر دی۔فیس میری جانب سے جاتی تھی۔ اپنے رشتہ داروں اور قرابت داروں کی زندگی بدل دی۔ بالکل اسی طرح،مختلف کالجوں اوریونیورسٹیوں کے منتظمین سے رابطہ کیا۔اعتمادمیں لے کرپوچھاکہ کتنے ایسے سفیدپوش طلباء اورطالبات ہیں، جو تعلیمی اخراجات دینے سے قاصر ہیں۔ان کے کوائف معلوم کیے۔ پھرمعلوم کرایاکہ کیاواقعی ضرورت مند ہیں بھی کہ نہیں۔

ان تمام کے خاموشی سے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے شروع کر دیے۔ تعداددن بدن بڑھتی گئی۔درجنوں سے لے کرسیکڑوں تک یاشائد زیادہ۔ بالکل اسی طرح، متعدد غریب خاندانوں کی کفالت شروع کر دی۔کوشش کی کہ ان کے بچوں کوکوئی ایسا ہنرآجائے کہ ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہ رہے۔اس میں بھی بھرپورکامیابی ہوئی۔ایک دن دفترمیں میرامنیجر آیا اور اس نے آمدنی کا تخمینہ میرے سامنے رکھ دیا۔

حیران رہ گیا کہ آمدن توقع سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔دوگنی بھی نہیں، چوگنی بھی نہیں،بلکہ ایسے لگتاتھاکہ ہن برس رہا ہے۔ زیادہ دولت ہونے کی وجہ سے میں نے لوگوں پر خرچنے والے تیسرے حصے کوبھی اتناہی بڑھادیا۔کسی کو بتائے بغیر،کسی تشہیرکے بغیر۔اب میں اَن گنت خاندانوں کا عملی وارث بن چکاتھا۔

دوسرافیصلہ بہت عجیب تھا۔گھرکے نزدیک قبرستان گیااورایک چھوٹی سی جگہ خریدلی۔گورکن کوکہاکہ یہاں میرے لیے قبربنادو۔خالی قبر۔ہفتہ میں ایک بارآیا کرونگا۔ گورکن سمجھاکہ میں ایک دیوانہ آدمی ہوں۔زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قبر بنوا رہا ہوں۔ مگرانکارنہیں کرسکتا تھا۔ قبرستان کے ایک کونے میں میری خالی قبرتیارکردی گئی۔ ہفتہ میں ایک باروہاں جاتاہوں۔قبرکودیکھتاہوں اوراپنے آپکو سمجھاتا ہوں کہ تیرامستقل ٹھکانہ تویہی ہے۔

یہاں توتیرے ساتھ کوئی نہیں ہوگا۔نہ بیوی،نہ بچے،نہ عزیزاورنہ ہی کوئی اور۔ یہاں گرمی سے بچنے کے لیے بھی ائیرکنڈیشنرنہ ہوگااورسردیوں میں یہ برف کی سِل بن جائے گی۔اس سوچ کے بعد میری ضروریات بھی خودبخودکم ہونی شروع ہوگئیں۔سادگی کی طرف چلاگیا۔اپنے پاس صرف ایک دوسوٹ رکھ لیے تاکہ تقریبات میں جانے کے لیے استعمال کرلوں۔ دفتربے حدسادہ ساکُرتاشلواریا پینٹ شرٹ پہن کرچلاجاتاہوں۔

گھرمیں کھڑی ہوئی مرسیڈیزاس وقت استعمال کرتا ہوں،جب خاندان سمیت یاکسی سماجی تقریب میں جاناہو۔دفترجانے کے لیے چھوٹی گاڑی استعمال کرتاہوں۔اکثراوقات رکشہ استعمال کرلیتاہوں۔اب توخوراک بھی کم استعمال کرتاہوں۔خالی قبردیکھ کربھوک بھی کم ہوگئی ہے۔دن میں صرف ایک بار کھانا کھاتا ہوں۔ دوماہ پہلے،میرے اکاؤنٹنٹ نے بتایاکہ دولت میں بے حساب اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

شوروم پرہمارے ملبوسات کی ڈیمانڈحددرجہ بڑھ چکی ہے۔ اپنی دولت کوتین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے نے مجھے بدل کررکھ دیا۔باقی کسر،خالی قبرنے پوری کردی۔رفیع تھوڑی دیرکے بعدچلاگیا۔میں لان میں بیٹھا سوچتا رہا کہ ہم اپنی دولت کی کتنی حفاظت کرتے ہیں۔چھپاتے ہیں۔

اگررفیع کی طرح اس کا تیسراحصہ لوگوں میں آسانیاں بڑھانے کے لیے مختص کر دیں، تو خدا ہماراکفیل خودبخودبن جاتاہے۔پھروہ دولت میں اضافہ،اس لیے کرتاہے کہ ہم اس کی مخلوق پرمزیدخرچ کریں۔مگریہاں کون مرنے پریقین رکھتا ہے۔ یہاں تواپنی دولت کی خاطرلوگ بھرپور ذلت مول لے لیتے ہیں۔مگردولت کاتیسراحصہ عام لوگوں پر صَرف نہیں کرتے۔ پھرپوچھتے ہیں کہ مصیبتیں ختم نہیں ہوتیں!
Load Next Story