یونیورسٹیوں میں نئی پابندیاں

کراچی کی سماجی علوم کی معروف نجی یونیورسٹی میں ایک سیمینار ہونے والا تھا۔

tauceeph@gmail.com

اساتذہ کو اپنے نظریات کی وجہ سے اکثر اوقات مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کئی اساتذہ ملازمتوں سے محروم بھی ہوئے۔ عمارعلی خان اسی پالسی کا شکار ہوئے اور ملازمت سے محروم کردیے گئے۔

ڈاکٹر عمار نے یورپ کی ایک معروف یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی، وہ پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ ڈاکٹر عمارکا ایکٹو ازم ان کے لیے مشکل بن گیا ۔ وہ طلبہ کو نئی ابھرنے والی سیاسی اور سماجی تحریکوں کی وجوہات اور ان تحریکوں کے اثرات کے بارے میں سوچنے کی مشق کراتے تھے اور طالب علموں کے لیے بہت سی سیاسی اور سماجی تحریکوں کا بغور مطالعہ کرنے کو انتہائی اہمیت دیتے تھے۔

وہ طلبہ کے حلقوں اور سول سوسائٹی کے دائرے میں خاصے جانے جاتے تھے جو طاقتور حلقوں کو پسند نہیں تھے۔کہا جاتا ہے کہ ان کی سرگرمیوں پر خوب نظر رکھی گئی۔جب ان قوتوں نے محسوس کیا تو انھیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ ڈاکٹر عمار چونکہ باقاعدہ ملازم نہیں تھے، اس بناء پر ان سے امتناعی سلوک کا موقع مل گیا۔

کراچی کی سماجی علوم کی معروف نجی یونیورسٹی میں ایک سیمینار ہونے والا تھا جس کو نامعلوم طاقتوں کے دباؤ کی بناء پر منسوخ کردیا گیا۔ گزشتہ سال کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد نے کراچی یونیورسٹی کی اساتذہ کی انجمن کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر عارف کے لیے آواز اٹھائی تھی ، وہ کراچی کی مرکزی جیل میں مقید کیے گئے۔ ڈاکٹر ریاض احمد کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا الزام تھا۔

الزام لگایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ریاض نے ان بلاگرز کے لیے تحریک چلائی جنھیں نامعلوم افراد سیاہ رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی میں اپنے ساتھ نامعلوم سمت کی طرف لے گئے تھے مگر اساتذہ اور طلبہ کے احتجاج اور سول سوسائٹی کے متحرک ہونے پر ضمانت پر انھیں رہائی ملی اور جھوٹا مقدمہ عدالتی ریکارڈ پر ہے۔ وہ ایک سال سے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اساتذہ کو ان کے نظریات کی بناء پر سزا دینے کا معاملہ خاصا قدیم ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ یورپ اور امریکا میں ترقی پسند اساتذہ پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کیے گئے تھے۔ پروفیسر حمزہ علوی تاریخ سیاسیات اور سماجی علوم کے بے مثل استاد تھے۔ وہ برطانیہ میں مقیم تھے اور وہاں تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے مگر اپنے مارکسزم سے متاثرہ خیالات کی بناء پر ہمیشہ معتوب رہے۔

پروفیسر حمزہ علوی کو امریکا اورکینیڈا کی معروف یونیورسٹیوں میں تدریس کی دعوت ملی ۔ان بین الاقوامی یونیورسٹیوں کا اساتذہ کے لیے تنخواہوں اور مراعات کا پیکیج بہت بہتر تھا اورکینیڈا کی یونیورسٹی نے پروفیسر حمزہ علوی کو اپنی فیکلٹی کے رکن کی حیثیت سے منتخب کرلیا تھا مگر کینیڈا کی حکومت نے حمزہ علوی کو کینیڈا آنے اور یونیورسٹی میں تدریس کی اجازت نہیں دی تھی۔

برصغیرکے بٹوارے کے نتیجے میں 14اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا اور پھر پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکا کا اتحادی بن گیا جس کے بعد پاکستان سرد جنگ کے اہم ستون کی حیثیت اختیارکرگیا۔ نتیجتاً بنیادی شہری آزادیوں پر قدغن لگنا شروع ہوگئیں۔ کمیونسٹ پارٹی، ادیبوں کی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین، بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (D.S.F) اور مزدور تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی ۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کے تقرر کے لیے انٹیلی جنس بیورو (I.B) سے کلیئرنس کو لازمی قرار دیا گیا۔


پروفیسر ایرک اسپیئرمین اور پروفیسر امین مغل کا شمار انگریزی کے معروف اساتذہ میں ہوتا تھا۔ ان دونوں اساتذہ نے اپنے نظریات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں وہ تدریس نہ کرسکے اور ہمیشہ معتوب رہے۔ پروفیسر ممتاز حسین اردو کے نامور نقاد تھے۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف بھارت، یورپ اور امریکا میں بھی کیا جاتا ہے۔

1960ء میں پروفیسر ممتاز حسین کا تقررکراچی یونیورسٹی میں ہوا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پروفیسر ممتاز حسین کو تقرر نامہ جاری نہیں کیا۔ انتظامیہ نے اس کی وجہ پروفیسر ممتاز حسین کا کمیونسٹ ہونا اور خفیہ ایجنسی سے اجازت نہ ملنا بتائی تھی۔ اسی طرح پروفیسر کرار حسین کو بھی کراچی یونیورسٹی میں تدریس کا موقع نہیں دیا گیا۔ پروفیسر کرار حسین نے سندھ کے مختلف کالجوں میں انگریزی زبان کی تدریس کے فرائض انجام دیے۔

پیپلز پارٹی کی جب پہلی حکومت قائم ہوئی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی بلوچستان اور سرحد کی اسمبلیوں میں اکثریت کو تسلیم کیا اور معروف قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجوکو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا۔ میر غوث بخش بزنجو کراچی میں پروفیسرکرار حسین کی قیام گاہ پرگئے اور کوئٹہ میں قائم ہونے والی پہلی بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کی تحریری پیشکش کی، یوں پروفیسر کرار حسین کی قیادت میں بلوچستان یونیورسٹی قائم ہوئی۔

اسی طرح برطانیہ سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر م ر حسان کے لیے کراچی یونیورسٹی کے دروازے نہ کھل سکے۔ انھوں نے لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض کی نگرانی میں لیاری میں عبداﷲ ہارون کالج کی بنیاد رکھی۔ کراچی شہر کے پسماندہ علاقے لیاری میں ایک جدید کالج کے قیام سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بھٹو حکومت میں ڈاکٹر م ر حسان کو عبداﷲ ہارون کالج کی پرنسپل شپ سے ہٹا دیا گیا اور اردو کالج بھیج دیا گیا جہاں ان کے ایک شاگرد پروفیسر خلیل اﷲ پرنسپل تھے۔

پاکستان میں اپنی تحقیق کی بناء پر سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے والے استاد ڈاکٹر مبارک علی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی نے سندھ یونیورسٹی شعبہ تاریخ سے ایم اے کیا۔ اپنی کوششوں سے برطانیہ اور پھر جرمنی پی ایچ ڈی کرنے گئے جہاں سے انھوں نے مغل دربار پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔ جب 1973ء میں وہ پاکستان واپس آئے تو سندھی زبان کے معروف شاعر شیخ ایاز وائس چانسلر تھے۔

شیخ ایاز نے ڈاکٹر مبارک علی کو ملازمت پر نہیں لیا اور ڈاکٹر مبارک علی برسوں تک معطل رہے ، پھر انھیں ملازمت پر بحال کیا گیا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے عوامی تاریخ کا ایک نیا تصور رائج کیا۔ انھوں نے انسانی تاریخ میں شخصیت پرستی کے نقصانات کو خوبصورت طریقے سے اجاگر کیا اور محمد بن قاسم سمیت بہت سوں کے بارے میں حقائق عوام کے سامنے اجاگر کیے، سندھ یونیورسٹی کے حالات انتہائی خراب ہوگئے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کی اور لاہور چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا مگر پنجاب کی کسی یونیورسٹی میں انھیں تدریس کا موقع نہیں دیا گیا۔

ڈاکٹر مبارک علی ایک نجی یونیورسٹی میں کام کررہے تھے۔ گزشتہ برس 23 مارچ کو ایک ٹی وی چینل میں انٹرویو کے دوران قرارداد لاہور سے متعلق کچھ حقائق بیان کیے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے خلاف ذرایع ابلاغ پر ایک مذموم مہم پھر شروع ہوئی۔

اس مہم کی بناء پر ڈاکٹر صاحب کو ایک اور ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ انھوں نے تاریخ کے موضوع پر صرف اردو میں سیکڑوں کتابیں لکھی ہیں، انگریزی میں کتابوں اور تحقیقی مقالات کی تعداد علیحدہ ہے مگر ڈاکٹر مبارک علی مسلسل معتوب ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ آزادئ اظہار اور تحقیق پر پابندی کے باعث فکری حبس میں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں رجعت پسندانہ سوچ کو زندگی ملتی ہے اور یونیورسٹیوں پر مذہبی انتہاپسندوں کا غلبہ ہوتا ہے جس کا نقصان ماضی میں بھی ہوا اور مستقبل میں بھی ہوگا ۔
Load Next Story