عمران خان کے گیارہ نکات اور متوقع ٹیم

حقیقت میں عوام روایتی سیاستدانوں سے اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ کسی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


[email protected]

لاہور: بالآخر گزشتہ روز 29اپریل کو عمران خان لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، ہوتے بھی کیوں ناں،الیکشن سے پہلے ''سونامی پلس''کے لیے تمام قیادت نے جتنی محنت کی، تشہیر و انتظامات پر جتنا خرچ ہوا، اس کے بعد بھی اگر یہ جلسہ ناکام ہوتا تو پیچھے کچھ نہیں بچنا تھا۔ لاہور کی تمام بڑی سڑکوں پر تحریک انصاف کے پرچموں کی بہار تھی،جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی،خاصی گرمی ہونے کے باوجود شرکاء عمران خان کی تقریر تک بیٹھے رہے۔

تقریرمیں کپتان نے11نکات بھی پیش کیے جنھیں تحریک انصاف کے انتخابی منشور کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان نکات میں تعلیم، صحت، ملکی قرضوں کا خاتمہ، کرپشن کا خاتمہ، سرمایہ کاری، روزگار، سیاحت کا فروغ، زراعت کی ترقی، مضبوط وفاق، ماحولیات، پولیس اور شعبہ انصاف میں اصلاحات اور خواتین کی فلاح و بہبود شامل ہیں۔ ان نکات پرعمل درآمد ہوگا یا نہیں، کیا یہ نکات الیکشن اسٹنٹ تو نہیں؟ کیا زمینی حقائق کی روشنی میں ان حقائق کو پورا کیا جاسکتا ہے؟

اس پر بات کرنے سے پہلے اتنا ضرورکہوں گا کہ عمران خان کا پنجاب میں اتنا بڑا کراؤڈ اکٹھا کر لینا ہی بڑی بات ہے،تحریک انصاف اس دفعہ کے ''دو نہیں ایک پاکستان''کے حوالے سے نیا آئیڈیا لے کر پیش ہوئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ کبھی بھی ایک پاکستان نہیں رہا۔ پاکستان کہنے کو ایک ہے، یہ ایک طرف ظالم تو دوسری طرف مظلوموں کا پاکستان ہے۔

حقیقت میں اس پاکستان کو سرکار نہیں مددگار اور سہولت کار درکار ہیں، ہمیں وہ اقتصادی پالیسیاں چاہئیں جو امرا کے لیے نہیں غریب کے لیے ہوں۔آج تحریک انصاف کا حامی اور ووٹر عمران خان کو اپنی آخری اُمید سمجھ رہاہے۔ عمران خان نے 11نکاتی ایجنڈا دیا ہے جو عوام میں مقبول بھی ہوسکتا ہے کیونکہ تمام نکات کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی الیکشن جیتنے کے بعد ان نکات کو یاد رکھیں گے؟

کیوں کہ یہ روایت شروع دن سے ہی رہی ہے کہ الیکشن سے پہلے دعوے کیے جاتے ہیں ، لیکن الیکشن کے بعد سب بھول جاتے ہیں، موجودہ11 نکات تو اچھے ہیں، عمران خان کی نیت بھی صاف ہے،عوام کو ان کی ضرورت بھی ہے، لیکن ایک اور سوال عوام کے ذہنوں میں اُبھر رہا ہے کہ کیا جو ٹیم عمران خان نے اکٹھی کر رکھی ہے وہ ان کے ساتھ ان نکات کو پورا کر پائیں گے؟

کیوں کہ ہیں تو یہ سب وہی سیاستدان جو ''لُوٹر '' جماعتوں سے آئے ہیں، پی پی پی سے آنے والوں میں شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، شفقت محمود، راجہ ریاض، اشرف سوہنا، ندیم افضل چن، صمصام بخاری، فواد چوہدری،امتیاز صفدر وڑائچ، نور عالم خان، رانا آفتاب۔ ق لیگ سے آنے والوں میں عبدالعلیم خان، جہانگیر ترین، عامر ڈوگر، غلام سرور، ظہیر الدین، طاہر صادق، ریاض فتیانہ، سعید ورک۔ ن لیگ سے آنے والوں میں اختر کانجو، لیاقت علی جتوئی، ممتاز بھٹو، چوہدری محمد سرور، رمیش کمار شامل ہیں جب کہ ان کے علاوہ ڈاکٹر عامر لیاقت، اعظم سواتی،فیاض چوہان، سمیع الحق وغیرہ سیاستدان بھی مختلف جماعتوں سے شامل ہوئے ہیں۔

کیا تحریک انصاف ان 11نکات پر عمل درآمد مذکورہ بالا ٹیم سے کرائے گی؟ ان کے تو پہلے ہی اخراجات آمدن سے زیادہ ہیں، کیا حالیہ جلسے میں لگنے والے 25سے 50کروڑ روپے انھی لوگوں نے ادا کیے ہیں،اور آیندہ بھی اربوں روپے جلسوں پر خرچ ہونے ہیں تو کیا جب یہ لوگ اقتدار میں آئیں گے تو وہ روایتی سیاست کو فروغ دے کر اپنے پیسے پورے نہیں کریں گے؟ ابھی تک الیکشن مہم کا آغاز ہوا ہے اور الیکشن تک نہ جانے کتنے 26کروڑ خرچے جائیں گے۔

حقیقت میں عوام روایتی سیاستدانوں سے اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ کسی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تھا، کیا وہ پورا ہوا؟پی پی پی نے 3دفعہ اقتدار سنبھالا، ن لیگ نے 3مرتبہ اقتدار سنبھالامگر مجال ہے کہ اپنے منشور پر یا وعدوں پر عمل درآمد کیا۔ لہٰذاعمران خان کو اگلے چند دنوں میں یہ دکھانا پڑے گا کہ اس کے پاس کو نسی ٹیم ہے جو ملک کو بہتر کر سکتی ہے، کونسی ٹیم ہے جو صحت اور تعلیم پر کام کر سکتی ہے؟ کونسی ٹیم '''ایک نصاب'' پر کام کرے گی، کونسی ٹیم پاکستان کے قرضوں پرکام کرے گی، کیا شیخ رشید قرض اُتارنے کے لیے چندہ وصول کریں گے۔

ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کئی ماڈلز کا سہارا کیا جاسکتا ہے ۔ سنگا پور کے سابق وزیراعظم لی کوان یو کی مثال موجود ہے ۔ اس نے سنگا پور کے عوام کو خوشحال قوم بنایا۔ اسی طرح ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی کے سفر پر رواںدواں رکھا۔ آج ملائیشیا انتہائی مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے۔ کیا پاکستان میں ایسے حکمران نہیںا ٓسکتے؟70سال بعد بھی ہماری جمہوریت عوامی جمہوریت نہیں۔ ظلم دیکھیں کہ فلاحی منصوبوںاور ترقیاتی پروگراموں میں بھی کمیشن لی جاتی۔ بڑی بڑی عمارتوں کو ترقی کا معیار بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن اصل میں حقیقی ترقی انسانوں کی ترقی ہونی چاہیے۔ تعلیم کا حصول عام ہو اور دولت کی مساوی تقسیم ہو لیکن یہ سب کچھ جان بوجھ کر حکمران ہونے نہیں دیتے۔

لہٰذاکپتان کا امتحان ہے کہ ان 11 نکات پر عملدرآمد کرانے کے لیے وہ اچھی ٹیم کا انتخاب کرے۔ ہم تو ان کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں ۔ خدا نخواستہ اگر عمران خان سے بھی ٹارگٹ پورے نہ ہوسکے تو میرے خیال میں عمران خان بھی بھولی بسری داستان بن جائیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں