کہاں کوریا اور کہاں ہم لوگ

خواہشات اپنی جگہ مگر کوریا کی مثال پاک بھارت تعلقات پر فٹ نہیں بیٹھتی۔


Wasat Ullah Khan May 01, 2018

ISLAMABAD: چار دن سے میں سوشل میڈیا پر پڑھ پڑھ کے اوبھ گیا ہوں کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں فاتح سوویت یونین اور امریکا کی بٹر نائف کے ذریعے جزیرہ نما کوریا کی دو حصوں میں تقسیم، اس تقسیم کے نتیجے میں بڑھنے والی دو طرفہ غلط فہمیوں اور ایک دوسرے کو بزور طاقت متحد کرنے کے شبہے میں انیس سو پچاس سے تریپن تک ہونے والی خونریز جنگ میں دس لاکھ کوریائیوں کی ہلاکت، اور بعد کے پینسٹھ برس میں ایک دوسرے کو نیست و نابود اور جلا کر راکھ کردینے کی ان گنت دھمکیوں، دونوں کوریاؤں کو تہتر برس سے بانٹنے والی خارداری لکیر (اڑتیس عرض البلد)کے دونوں طرف کے ایک ایک انچ پر سپاہیوں کے پہرے اور لاؤڈ اسپیکرزکے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف نظریاتی تبلیغ اور جوش و غصہ دلانے والے گیتوں کی دن رات کان پھاڑ آواز کے بعد بھی اگر شمالی کوریا کے رہنما کم یونگ ان اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دشمنی کا لامتناہی سلسلہ ختم کرنے کے لیے ایک نہ ایک دن کیمروں کے سامنے ہاتھ تو ملانا ہی پڑتا ہے تو پھر انڈیا پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔

خواہشات اپنی جگہ مگر کوریا کی مثال پاک بھارت تعلقات پر فٹ نہیں بیٹھتی۔اس بارے میں خامخواہ آس امید کی دلدل میں غوطے کھانے سے خود کو نہ تھکانا زیادہ بہتر ہے۔سبب یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کو دو الگ الگ خودمختار ممالک کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اور ان میں سے کسی ملک کا دوسرے ملک پر کوئی ملکیتی دعویٰ نہیں۔ جب کہ کوریا کے دونوں حصے خود کو پورے جزیرہ نما کی قانونی حکومت سمجھتے ہیں۔

ان کی مثال دوسری عالمی جنگ کے بطن سے پیدا ہونے والے مشرقی اور مغربی جرمنی جیسی ہے۔جنھیں سرد جنگ کی ضرورتوں نے الگ الگ خانوں میں رکھا اور جیسے ہی سوویت یونین ٹوٹنے کے عمل میں سرد جنگ کی اٹھائی دیوار میں شگاف پیدا ہوا تو دونوں حصوں نے پہلی فرصت میں خود کو ایک متحدہ جرمنی میں ڈھال لیا۔شمالی و جنوبی کوریا بھی یہی چاہتے ہیں۔ پہلے طاقت کے بل پر اب شائد بات چیت کے بل پر۔

جس دن بھی دونوں کوریاؤں نے متحد ہونے کا سنجیدگی سے فیصلہ کیا اس دن مرحلہ وار روڈ میپ پر بھی کام شروع ہو جائے گا۔کام آسان نہ ہوگا۔کیونکہ دونوں خطوں کی موجودہ نسل الگ الگ نظریاتی سانچوں میں ڈھلی ہے۔معاشی فرق بہت زیادہ ہے۔لہذا اتحاد کے بعد بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے ایک اور نسل تک کا سفر درکار ہے۔وہ بھی اس شرط پہ اگر کوریا کی سابق نوآبادیاتی طاقت جاپان(جس نے انیس سو دس سے انیس سو پینتالیس تک کوریا کو اپنی کالونی بنا کے رکھا ) ، کوریا کی تقسیم کرنے والی فاتح طاقتیں امریکا اور روس اور شمالی کوریا کے روایئتی اتحادی چین نے کوریائی اتحاد کو اپنے الگ الگ مفادات کے لیے شطرنج کی علاقائی بساط میں تبدیل کرنے اور مشرقِ بعید کا افغانستان بنانے کی کوشش نہ کی۔

فی الحال تو دونوں کوریاؤں کا زور اس پر ہے کہ جزیرہ نما ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دے دیا جائے۔ اگر شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے مشروط یا غیر مشروط انداز میں دستبردار ہونے پر آمادہ ہوگیا تو پھر جنوبی کوریا بھی امریکی فوجوں کی اپنے ملک سے واپسی کا مطالبہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

کوریا کے دونوں حصوں کے تعلقات معمول پر لانے کا موازنہ بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات و حالات سے کرنا اس لیے بھی درست نہ ہوگا کیونکہ بھارت اور پاکستان کے برعکس شمالی کوریا کے کیمونسٹ اور جنوبی کوریا کے سرمایہ دارانہ ریاستی نظریے اور معاشی ترقی کے فرق کے باوجود دونوں کوریاؤں کی زبان، نسل، رنگ ، مذہبی رجحانات ،کھانا پینا اور تاریخ اپنے خمیر میں ایک ہی جیسی ہے۔سوچئے اگر شمالی کوریا میں مسلمان اور جنوبی کوریا میں ہندو اکثریت ہوتی تو آج دو ہزار اٹھارہ کی دنیا میں تہتر برس پرانی تقسیم کو لے کر وہ ایک دوسرے کے بارے میں کس طرح سوچ رہے ہوتے ؟

اس کے علاوہ طبیعت اور نفسیات میں بھی نمایاں فرق ہے۔کورینز کی ناک ایسی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے آسانی سے ملا سکتے ہیں۔جب کہ بھارت اور پاکستان کی ناکیں اتنی لمبی ہیں کہ کٹ تو سکتی ہیں مل نہیں سکتیں، ٹوٹ سکتی ہیں پر نیچی نہیں ہو سکتیں۔

کورینز میں بہت زیادہ مونچھیں رکھنے کا بھی رواج نہیں لہذا ان کی زبان میں شائد مونچھ اونچی اور نیچی کرنے کا محاورہ نہ ہو اور وہ باآسانی تعلقات کا پلِ صراط عبور کر پائیں۔اس کے برعکس اپنے ہاں تو سرحد کے دونوں طرف بھلے عسکری پالیسی ہو کہ خارجہ پالیسی، دونوں کی دونوں تاؤ زدہ مونچھوں سے لٹکی ہوئی ہیں اور بیچ میں کشمیر کا پتھر الگ سے گڑا ہوا ہے۔

تو کیا اتنی لمبی ناکوں اور کڑکیلی مونچھوں کے باوجود ہم دو نارمل ممالک کی طرح نہیں رہ سکتے ؟ جیسے چین اور جاپان ، جیسے فرانس اور جرمنی ، جیسے امریکا اور ویتنام یا امریکا اور کیوبا۔ہم بالکل نارمل انداز میں رہ سکتے ہیں مگر کیوں رہیں ؟ اس کے بعد زندگی میں بوریت کے سوا کیا بچے گا۔ باقی دنیا اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔ویسے بھی غالب بھارت اور پاکستان کی مشترکہ میراث ہے اور غالب نے کورینز کے لیے نہیں اپنے آجو باجو والوں کے بارے میں ہی فرمایا ہے کہ

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد

گر نہیں وصل عداوت ہی سہی

کورینز کا تو صرف ایک مسئلہ ہے یعنی اوپر سے تھوپی گئی تقسیم۔ہمارے پاس تو ایک سے بڑھ کر ایک خونی سرحدی و تاریخی شخشخا اور پنج شاخہ ہے ، ایٹمی ہتھیار ہیں ، اکھنڈتا کا جن سنگھی نظریہ ہے، بھارت فتح کرنے کا جہادی نظریہ ہے ، را ہے،آئی ایس آئی ہے، افغانستان کی شطرنج ہے، وہاگہ اٹاری سرحد پر ہر شام منعقد ہونے والی جناتی دھمک سے لتھڑی گھورم گھاری والی سینہ و مکہ تانی پریڈ ہے۔

خدانخواستہ کہیں مسائل واقعی حل نہ شروع ہونے ہو جائیں، اس نوبت سے بچنے کے لیے سیول اور پیانگ یانگ کے برعکس دلی اور اسلام آباد کے پاس ایک دوسرے سے ملاقات نہ کرنے کے سو بہانے ہر وقت تیار ہیں، طنز کے زہریلے تیر ترکش میں بھرے رہتے ہیں، اپنی اپنی موجودہ اور اگلی نسلوں کو الو بنانے کے لیے نقلی یا ملاوٹی تاریخ اور قصے گھڑنے والی بیسیوںدانشورانہ فیکٹریاں ہیں۔ان میں سے کئی تو تین تین شفٹوں میں چلتی ہیں۔

کورینز کے پاس کیا ہے ؟ لکیر کے آرپار پتھرائی آنکھوں والی بوڑھی ماؤں ، باپوں ، قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے اپنے سرحد پار بھائیوں، بیٹیوں یا لگڑ پوتوں کی ایک جھلک دیکھنے کی حسرت کے سوا ؟ لہذا کہاں کورینز کہاں ہم۔ ان کی دشمنی صنعتی سماج ہونے کے باوجود زرعی انداز کی ہے، ہماری دشمنی زرعی سماج ہونے کے باوجود صنعتی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں