عدل و انصاف کی ضرورت
اسلام کی بنیاد پرقائم ہونے والی اس مملکت میں اسلامی نظام عدل و انصاف قائم نہ ہوسکا جس کا خمیازہ پوری قوم کوبھگتنا پڑا۔
RAWALPINDI:
کسی بھی معاشرے میں انسانی حقوق کا تحفظ اس کی بقا اور ترقی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ قانون کی حکمرانی اس کے لیے لازم و ملزوم ہے ۔ اس سلسلے میں عدلیہ کے کردارکو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔
وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جو خود بھی عدل وانصاف کے زبردست حامی تھے دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، مگر بد قسمتی سے اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس مملکت میں اسلامی نظام عدل و انصاف قائم نہ ہوسکا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا ۔ عدم مساوات اور حقوق کی پامالی ہی کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان جیسا المناک سانحہ بھی پیش آگیا لیکن ہمارے بے حس حکمرانوں نے اس سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ قانون کو گھر کی لونڈی بنا دیا گیا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا جنگل کا قانون لاگو رہا۔ نام نہاد جمہوری اور کبھی غیر جمہوری حکمرانیوں کا تماشا دیکھتے دیکھتے اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ:
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے' انجامِ گلستاں کیا ہوگا
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو جس کی خاطر بے شمار اور بے دریغ قربانیاں دی گئی تھیں اپنے باپ دادا کی جاگیر اور اس کے عوام کو اپنی رعایا اور رعیت سمجھ رکھا ہے اور ہرکوئی اس کی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ عدالت عظمیٰ عوامی نوعیت کے مسائل کا از خود نوٹس لے رہی ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کے مرتکب حکمرانوں اور اہلکاروں کو قانون کے شکنجے میں لے کر ان سے باز پرس کر رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بڑی مچھلیوں بلکہ مگرمچھوں پر سب سے پہلے ہاتھ ڈالا جا رہا ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک انتہائی جرأت مندانہ اور لائق تحسین اقدام ہے جسے عوامی حلقوں میں بہت سراہا جا رہا ہے، چونکہ اس اقدام کی زد میں آنے والے بدعنوان لوگ اس غیر متوقع صورتحال سے بری طرح گھبرائے ہوئے ہیں اس لیے وہ اس اقدام کے خلاف نہ صرف واویلا کر رہے ہیں بلکہ عوام الناس کو گمراہ کرنے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عدلیہ سیاست میں ملوث ہو رہی ہے۔
یہ حرکت جان بوجھ کر اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ عدالت عظمیٰ دباؤ میں آکر ان کے راستے سے ہٹ جائے اور کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث لوگوں کے چہرے بے نقاب ہونے سے بچ جائیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس بات کی قطعی وضاحت کرچکے ہیں کہ ان کا مقصد مظلوم عوام کی داد رسی کرنا اورکرپشن میں ملوث تمام افراد کو بلاامتیاز اور بغیر رو رعایت کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت اس سے بڑھ کر بھلا اورکیا ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلے کا آغاز میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی سے کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے شہریوں کے حقوق اور آئین کا تحفظ کرنا عدلیہ کی اولین اور سب سے بڑی ذمے داری ہے۔ معاشرے میں عدالتوں کا قیام اور ان کی فعال کارکردگی مظلوموں کو ظالم کے پنجہ ستم سے نجات دلانے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کی ضامن ہے ۔ اس لحاظ سے کسی بھی معاشرے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عدلیہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
ہمارے ملک اور اس کے عوام کی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ادارے رشوت ستانی، اقربا پروری، سفارش کلچر اور سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ کر تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ ان میں سب سے برا حال صحت اور تعلیم سے متعلق اداروں کا ہے جو قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کے حوالے سے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔ صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ کہنا پڑا کہ پنجاب حکومت نے تعلیم کا بیڑا غرق کردیا ۔ یہ اس صوبے کا حال ہے جس کی ترقی کے بڑے ڈھنڈورے پیٹے جا رہے ہیں۔ ملک کے باقی تین صوبوں کی حالت تو اس سے بھی بدتر ہے۔
چیف جسٹس نے فاطمہ جناح یونیورسٹی، راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی اور فیصل آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا حکم دیتے ہوئے 6 ہفتوں میں میرٹ کی بنیاد پر مستقل وائس چانسلرز کی تقرری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرٹ کے خلاف وزرا کے کہنے پرکوئی تعیناتی برداشت نہیں کروں گا، چیف جسٹس نے وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان سے کہا کہ جو کچھ محکمہ صحت میں ہو رہا ہے اس کو نوٹ کرتے جائیں، یہی آپ کے خلاف چارج شیٹ بنے گی۔
عدالت نے پیدائشی طور پر کولیسٹرول کی بیماری میں مبتلا بچوں کا علاج نہ ہونے کا ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے 10 روز میں علاج کے لیے مطلوبہ مشین منگوانے کا حکم صادر کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے کسی اسپتال میں یہ مشین کیوں نہیں ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا انتظامیہ کا کام نہیں کہ علاج کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں؟ انھوں نے بالکل بجا فرمایا کہ مرض کا علاج نہیں تو مریض کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چیف جسٹس انتظامیہ کی نااہلی اور ناکامی کے باعث عوام کی بھلائی کی خاطر اسپتالوں کی دگرگوں صورتحال کا بذات خود جائزہ لے کر شہریوں کے زندہ رہنے کے بنیادی حق کا تحفظ کر رہے ہیں جو عدلیہ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
افسوس کہ ہمارے نااہل حکمران اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے اور اس پر اپنی شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے عدالت عظمیٰ کے بارے میں غلط اور گمراہ کن باتیں کرکے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن شاید انھیں اس حقیقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کے عوام کا شعور اب بہت بیدار ہوچکا ہے اور وہ رہبر اور رہزن کے فرق کو خوب اچھی طرح پہچاننے کے قابل ہوچکے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیزکے عوام کی غالب اکثریت کو علاج معالجے کی مناسب سہولتیں تو درکنار بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ جب لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں تو بھلا ان کی صحت کیونکر بہتر ہوسکتی ہے۔ حکمرانوں کی یہ مجرمانہ غفلت عوام کو جینے کے حق سے محروم کردینے کے مترادف ہے ۔ حکمرانوں کے دوغلے پن کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان والوں کا علاج تو بیرون ملک جاکر کراتے ہیں اور جن کے ووٹوں کے بل بوتے پر برسر اقتدار آتے ہیں انھیں ملک کے خستہ حال اسپتالوں میں مرنے کے لیے بے آسرا روتا سسکتا چھوڑ دیتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے اور حکمرانوں کی نااہلی کا مداوا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے تو حکمرانوں کے ہوش اڑ رہے ہیں اور وہ عدالت عظمیٰ کو بدنام کرنے کے لیے نت نئے افسانے تراش رہے ہیں۔ کبھی مارشل لا اور کبھی جوڈیشل مارشل لا کے نفاذ کے من گھڑت خدشات کے اظہار سے عوام کو بہکایا اور ڈرایا جا رہا ہے۔ لیکن چیف جسٹس نے بالکل واضح الفاظ میں یہ کہہ کر غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے کہ سپریم کورٹ کے 17 جج مارشل لا نہیں لگنے دیں گے۔ انھوں نے جوڈیشل مارشل لا کو بعض ذہنوں کی اختراع قرار دیا۔ افسوس صد افسوس کہ اس کے باوجود بھی شور پر شور مچایا جا رہا ہے اور یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ مارشل لا سے زیادہ پابندیاں اب لگ رہی ہیں۔
جوڈیشل ایکٹیوزم کے ناقدین کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ملک کا نظام انصاف سب سے زیادہ اصلاح طلب ہے اور یہ کہ چیف جسٹس جوکہ عدالتی نظام کے سربراہ ہیں اپنے اس شعبے کی جانب بھی توجہ فرمائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تھانہ اور کچہری اس ملک کے کرپٹ ترین ادارے مانے جاتے ہیں جن کے نام سے ہی شریف شہری اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔
عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور فوجداری اور دیوانی کے مقدمات کے فیصلوں میں برسوں بیت جاتے ہیں۔ Charity Begins at Home والی کہاوت کے مصداق چیف جسٹس اگر اس صورتحال کا بھی ازخود نوٹس لے لیں تو اس سے نہ صرف ناقدین کے منہ بند ہوجائیں گے بلکہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب ملک میں نظام انصاف درست ہوگا تو اس کے گہرے اور مثبت اثرات دیگر مختلف اداروں پر بھی یقینا مرتب ہوں گے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ چیف جسٹس ماتحت عدالتوں کے اچانک دورے کریں اور زمینی حقائق سے براہ راست آگاہی حاصل کریں ان کا یہ ملک و قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔