عوام کا امتحان
جمہوری ملکوں میں کسی کو بھی ملک کا سربراہ چن لیا جاتا ہے تو جمہوری اخلاقیات کے مطابق اس کی سربراہی قبول کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان 1971 کے بحران کے بعد ایک بار پھر اسی قسم کے بحران میں پھنستا محسوس ہو رہا ہے، 1971 کا بحران اور آج کے بحران میں فرق یہ ہے کہ 1971 کے بحران میں ملک دو حصوں پاکستان اور بنگلہ دیش میں بدل گیا تھا، آج کے بحران میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت اور عدلیہ شامل نظر آرہی ہیں۔ 1971 کا بحران بھی بنیادی طور پر اقتدار کا بحران تھا جس میں مشرقی پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو فریق تھے۔
بھٹو صاحب ہر حال میں وزیر اعظم بننا چاہتے تھے، آج کے بحران کی نوعیت یہ ہے کہ نواز شریف کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح نااہلی کے حصار سے نکل کر دوبارہ وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ جائیں، ان دونوں بحرانوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ 1971 کے بحران کے نتیجے میں ملک ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا۔ آج کے بحران کے حوالے سے فہمیدہ حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ 2017 کا یہ بحران خدانخواستہ 1971 کے بحران کی طرف نہ چلا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1971 کے بحران میں بھی پنجاب کو کلیدی حیثیت حاصل تھی، آج کے بحران میں بھی پنجاب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ پنجاب کی آبادی ہے۔ 1971 کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے چار صوبوں کی آبادی کی غیر متوازنی کا عالم یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی ملک کے تین صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ یعنی کل آبادی کا 63 فیصد حصہ ہے۔ آبادی کے اس تناظر میں ملک کی تقدیر اور سیاسی طاقت پنجاب کے ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے اور خطرہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ غیر متوازن آبادی ملک کو کسی مشکل بحران کی طرف نہ دھکیل دے۔
جمہوری ملکوں میں کسی کو بھی ملک کا سربراہ چن لیا جاتا ہے تو جمہوری اخلاقیات کے مطابق اس کی سربراہی قبول کرنا پڑتی ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے باشعور عوام نے ٹرمپ جیسے غیر متوازن شخصیت کے مالک کو صدر منتخب کرلیا تو امریکا سمیت ساری دنیا کو ٹرمپ کی صدارت کو قبول کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں دستور کے مطابق کوئی پارٹی صرف دو بار اپنے ایم این اے کو وزیر اعظم نامزد کرسکتی ہے یعنی کوئی شخص دو بار سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا۔ لیکن اقتدار کی دیوانہ وار خواہش کی وجہ آئین میں ترمیم کرکے دو بار سے زیادہ وزیر اعظم بنے رہنے کی گنجائش نکالی گئی۔ یوں پاکستان خصوصاً پنجاب میں 30 سال سے ایک ہی خاندان برسر اقتدار ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ایک ذہین انسان ہیں، انھوں نے لاہور میں ترقیاتی کام کرائے اور ان کا اس طرح بھرپور پروپیگنڈا کرایا کہ پنجاب کے عوام ان کی گرفت میں آگئے۔
یہ پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت رکھنے والے ہر ملک کا مسئلہ ہے کہ برسر اقتدار ہی نہیں بلکہ اس کے مصاحب طبقات بھی قومی دولت کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں۔ پاناما لیکس نے ساری دنیا کے کرپٹ حکمرانوں کے بارے میں تفصیلات عام کردیں، ان تفصیلات کے مطابق حکمرانوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کیا بدقسمتی سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ بھی پاناما لیکس میں شامل ہے۔ یہاں میں 1971 سے پہلے کے حالات کا سرسری ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
پاکستان کی تشکیل میں کچھ ایسے قدرتی لیکن غیر منطقی عوامل شامل ہوگئے جس کی وجہ سے سیاسی طاقت کا توازن اس طرح بگڑ گیا کہ اس کے دوررس اور منطقی نتائج کا سامنا پاکستان خصوصاً چھوٹے صوبوں کے عوام کو 70 سال سے کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی 1971 میں تقسیم سے قبل اگرچہ مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کے صوبوں سے زیادہ تھی لیکن مشرقی پاکستان کو مسلسل یہ شکایت رہی کہ اس کا سیاسی اور اقتصادی استحصال کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوجی اشرافیہ نے جغرافیائی تقسیم کی غیر متوازن صورتحال سے عاقلانہ طور پر نمٹنے کے بجائے غیر منصفانہ طریقوں سے آبادی کی غیر متوازن صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی۔
تقسیم پاکستان یا پاکستان کے ٹوٹنے سے پہلے پاکستان کے چار مغربی صوبوں کی آبادی مشرقی پاکستان کی آبادی سے کم تھی، آبادی کی اس غیر متوازنی کا حل یہ نکالا گیا کہ مغربی پاکستان کو ایک یونٹ میں بدل کر آبادی کو ''توازن'' میں لانے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی بدظنی میں اضافے کی شکل میں نکلا اور یہ بدظنی 1971 کے المیے میں بدل گئی۔ بدقسمتی سے اقتدار کی بے مہابہ ہوس نے مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کو اس قدر اندھا کردیا کہ وہ خود پاکستان کو توڑنے کا اصل سبب بن گئے۔
بلاشبہ اقتصادی اور سیاسی عدم توازن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں بے چینی پائی جاتی تھی لیکن اس کا کوئی عاقلانہ حل نکالا جاسکتا تھا لیکن اقتدار کی خواہش میں اندھی مغربی پاکستان کی قیادت نے ''ادھر تم ادھر ہم'' کا نعرہ لگا کر پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
ہم نے سابق مشرقی پاکستان کی سائیکی کا ذکر اس لیے کیا کہ ایک بار پھر اسی صورتحال کا پاکستان کو سامنا ہے۔ مشرقی پاکستان میں پنجاب کو ساری خرابیوں کا ذمے دار سمجھا جاتا تھا۔ 1970 میں ہم ایک وفد کے ساتھ ڈھاکا گئے تھے، پلٹن میدان میں بھاشانی صاحب کا ایک جلسہ تھا، ہم بھی اسٹیج پر بیٹھے تھے جو بنگالی دوست ہمارے ساتھ بیٹھے تھے وہ مستقل پنجاب کی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی شکایت کر رہے تھے۔
ان حقائق کا اعادہ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور الزامات اور تردید کا ایک افسوسناک سلسلہ چل پڑا ہے۔ برسر اقتدار اشرافیہ کرپشن کے حوالے سے احتساب کی زد میں ہے اور اس مصیبت سے بچنے کے لیے جو جو راستے تلاش کر رہی ہے اسی میں ایک راستہ پنجاب کے سادہ لوح عوام کی سیاسی طاقت کا استعمال بھی ہے سیاسی اشرافیہ جب مشکلات میں گھر جاتی ہے تو عوام کو اپنے دفاع کے لیے آگے لاتی ہے۔
پنجاب آبادی کے حوالے سے ملک کا 63 فیصد حصہ ہے، جمہوری حوالے سے بھی پنجاب کے عوام کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، جمہوری ملکوں میں جو بھی ترقیاتی کام ہوتے ہیں، وہ عوام کے پیسے سے ہوتے ہیں لیکن حکمران تاثر یہ دیتے ہیں کہ سارے ترقیاتی کام وہ اپنی جیب سے کر رہے ہیں۔ حکمران صرف عوام کی دولت سے ہی ترقیاتی کام کرتے ہیں۔ اقتدار کا تسلسل لوٹ مار کو بڑھاتا ہے۔ نچلے طبقات اگر برسر اقتدار آئیں تو جمہوریت بھی عوامی ہوتی ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ بھی بند ہوسکتا ہے اب پنجاب کے عوام کا امتحان ہے کہ وہ کیا اشرافیہ کی حمایت کرکے ولی عہدی نظام کو مضبوط کریں گے یا اپنے طبقات کے اہل لوگوں کو آگے لاکر اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے؟