بھارتی میڈیا کے عزائم
بھارت اپنی ننگی بے ہودہ اور تاریخ کے برعکس فلموں کے ذریعے پاکستانیوں کے دل جیتنا چاہتا ہے۔
بلاشبہ میڈیا براہ راست لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور رائے عامہ کو ہموارکرنے میں اس کا اہم کردار ہے، اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ معاشرے کے بگاڑ وسنوار میں میڈیا متحرک شعبہ ہے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا سماج کا عکاس ہوتا ہے لیکن بعض پروفیشنل مجبوریاں بسا اوقات اصل عکس کو مسخ کرنے کا باعث بنتی ہیں جو بالآخر معاشرے کے بگاڑ کے اسباب بن جاتے ہیں۔
فلم انڈسٹری ، ٹی وی ، ریڈیو، اخبارات و رسائل ، ڈش انٹینا سیٹلائٹ ، وی سی آر، ڈی وی ڈی پلئیر، اسٹیج پروگرامز ان سب کا شمارمیڈیا میں ہوتا ہے۔ میڈیا لوگوں کے ذہنوں میں جس رفتاری سے تاثرات بہم پہنچتا ہے دیگر شعبہ ہائے زندگی اپنی پوری قوت کے ساتھ بامشکل پہنچا سکتے ہیں، انھیں بھی بالآخر میڈیا کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے یہ میڈیا کا ہی اثر اورکرشمہ ہوتا ہے کہ لوگ بالخصوص نئی نسل عام زندگی میں وہی کچھ عملی طور پر کرنے لگتے ہیں ،جو انھیں میڈیا سے میسر ہوتا ہے خواہ وہ تاثر منفی ہو یا کہ مثبت اسے باآسانی اپنا لیا جاتا ہے۔
اس طرح معاشرے کے بگاڑوسنوار میں میڈیا کے کردار سے انکار ممکن نہیں ۔آج کا دور میڈیا وار ہے اور اسی میدان میں ہر سطح کی جنگیں لڑی جارہی ہیں اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ہمارا میڈیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اندرونی و بیرونی محاذ پر مجاہدانہ کردار سے غافل نہیں ہے لیکن تاسف کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا کا ایک پہلو ایسا بھی نظر آتا ہے کہ جو نئی نسل کو وہی کچھ پیش کررہے ہیں جس کے ذریعے تجوریاں بھری جاسکتی ہیں لیکن ملک و قوم کی خدمت نہیں کی جاسکتی یہ قو می المیہ ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ کسی بھی کاروبارکو اگر بددیانتی کے ساتھ کیا جائے تو وہ نہ صرف معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات غیر اخلاقی کاروبارکے زمرے میں بھی آجاتا ہے، بدقسمتی سے طبلے کی تھاپ پرگائیک کی سریلی آواز پر نیم عریاں جسم کی ہیروئن کے دل فریب رقص ، ذومعنی مکالمے، غیر اخلاقی بے ہودہ مناظر ، ماردھاڑ ، خوف ودہشت پر مبنی کہانیاں جس میں ڈاکوؤں ، لٹیروں اور دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو عوام کے مسائل کا حل نہیں ہیں اور بد قسمتی سے کچھ شوبز کے اخبارات و رسائل ان کی بھر پور تشہیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں اور ایسا تاثر ابھارتے ہیں جیسے یہ بے ہودہ چیزیں ہمارا کلچرہو جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ میڈیا تو سچائی امن وآشتی عفو درگزرکا پیامبر و علمبردار ہے میڈیا عوام کی آواز اور ترجمان ہے جو لوگ میڈیا کی آڑ میں معاشرے کے بگاڑکے اسباب پیدا کررہے ہیں وہ کسی طور پر بھی ملک وقوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ۔
گزشتہ دوعشروں سے بھارت اپنے میڈیا بالخصوص اپنی فلموں وڈراموں کے ذریعے بر صغیر کی تاریخ ، تقسیم ہند ، پاکستان اور بھارت کے مابین جنگوں اورکشمیر کے حریت پسندوں کی جد و جہد آزادی کو مسخ کرکے پیش کررہا ہے اور اس میڈیا وار کے ذریعے دشمن بڑی ہوشیاری، چا لاکی وعیاری کے ساتھ اپنی ہیروئنوں کی اداؤں اور زلفوں کی چھاؤں سے ہمارے جذبہ ایمانی پر وار کررہا ہے اور احساس سے عاری ان بے ہودہ مسخ شدہ فلموں کو ہم اپنی فیملی کے ہمراہ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور داد وتحسین پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جو قومی و ملی غیرت کے منافی عمل ہوتا ہے ۔ ایک طرف ہماری کمزور فلم انڈسٹری کی آڑ میں پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلمیں دکھائی جارہی ہیں تو دوسری طرف بھارت ان کی آمدنی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔
ان حالات میں وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستانی میڈیا دشمن ملک بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے اقدامات کرے اور ایسے اقدامات اٹھائیں جائیں کہ جس سے نہ صرف ملک دشمن عناصر بے لقاب ہوجائیں بلکہ عوام الناس میں یہ شعوروآگہی پیدا ہوجائے کہ جس سے انھیں اندازہ ہوجائے ہمارے دشمن کس کس روپ میں اور کن کن ہتھکنڈوں کے ساتھ ہماری صفحوں میں موجود رہ کر ہماری جڑیں کاٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو میڈیا کو ہر لحاظ سے تعاون فراہم کرنا ہوگا ۔
فلم انڈسٹری اور ٹی وی چینلز بھی اس اسلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اندرونی و بیرونی ملکی و قومی حالات کے پیش نظر تاریخی ، اصلاحی، معاشرتی اور حب الوطنی کے موضوعات پر مبنی فلمیں و ڈرامے وقت کی اشد ضرورت ہیں ۔ ہمارے فلمسازوں، ہدایتکاروں، تقسیم کاروں، فنکاروںاور شوبز سے وابستہ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ کی طرح مادر وطن کی دفاع ، آزادی، خودمختاری ، سلامتی و استحکام کے لیے آگے بڑھیں اور 1965کی طرح ایک بار پھر اپنے خدا داد فن کے ذریعے دشمنوں کو لرزاں دیں ۔
آج پھر بیداری ، یہ امن ، خاک و خون ، مادر وطن ، غرناطہ ، حیدر علی ، ٹیپو سلطان ، غازی صلاح الدین ایوبی ، وطن کا سپاہی ، آزادی یا موت ، فرنگی ، نواب سراج الدولہ ، قسم اس وقت کی ، زرقا ، شہید ، غریبوں کا بادشاہ ، انسانیت کے دشمن اور جناح جیسی تاریخی فلموں کی ضرورت ہے ۔ آج پھر میڈم نورجہاں ، مہدی حسن ، استاد امانت علی خان ، حبیب ولی محمد ، مسعود رانا ، شوکت علی ، غلام عباس ، نیرہ نور ، ناہید اختر ، محمد علی شہکی ، عالمگیر ، علن فقیر جیسے گلوکاروں کی ملی نغمات کی ضرورت ہے ۔
میں اپنے ہم وطنوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ جو بھارتی فلموں کے دلدادہ اور بھارتی ننگی ومتعصب فنکاروں کے پرستار ہیں اور ملک دشمن فلموں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انھیں دیکھ کر غیر محسوس طور پر ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کیا ایسا کرتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے ؟ کبھی غوروفکرکیا ہے کہ بھارت کا ہمارے ساتھ کیا رویہ رہا ہے اور ہے؟کیا بھارتی رویے کے مد نظر ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم بھارتی ثقافتی یلغارکا نشانہ بنیں؟ ان کی فنکاراؤں اور متعصب تنگ نظر فنکاروں کے پرستار بن کر ان کی تعریفیں کرتے پھریں ؟جب کہ بھارت ہر سطح پر پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک کوشش کرتا رہا ہے اور اب بھی کررہا ہے ۔
بھارت اپنی ننگی بے ہودہ اور تاریخ کے برعکس فلموں کے ذریعے پاکستانیوں کے دل جیتنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو نظریاتی طور پر کمزور کیا جاسکے اور پاکستان حالت جنگ میں اندرونی طور پر کمزور کیا جاسکے اور وہ ان حالات سے بھر پور طور پر فائدہ اٹھا سکیں اور ہم ہیں کہ اس کی پھیلائی ہوئی ثقافتی یلغار میں چند سو ہزار روپیوں اور سستی تفریح کے حصول کی خاطر یر غمال ہوتے جارہے ہیں ہمیں بھارت کی اس ثقافتی یلغار کو توڑنا ہوگا اور اس سے بچنا ہوگا۔
بھارت کی اس ثقافتی سازش کو ناکام بناتے ہوئے ہمیں بھارتی فلموں کا ہر سطح پر بائیکاٹ کرنا ہوگا اس کی ثقافت اور اس کے فنکاروں سے یکسر منہ پھیر لینا ہو گا ۔ ہم محب وطن پاکستانی ہیں اس ناتے ہمارا قومی فریضہ ہے کہ آج ہمارے کشمیری بھائیوں پر جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جو تشدد کیا جا رہا ہے ان کے بہتے ہوئے لہو سے سر سبز شاداب جنت نظیر وادی کشمیر کو سرخ کیا جارہا ہے، ان کا مکمل طور پر ساتھ دیں اور ان کے تحریک آزادی میں دامے درمے سخنے شریک ہوجائیں اون کی سیاسی اور اخلاقی مدد کریں ۔