واٹر کمیشن کے مثبت نتائج
کمیشن کے سربراہ خود اندرون سندھ ایسے ایسے علاقوں میں گئے جن کی حالت زار پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی۔
پانی صحت و صفائی سے متعلق سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر مسلم ہانی نے کہا ہے کہ چند سو افراد کی بے روزگاری کے خدشے پر ہزاروں انسانوں کو نہیں مارا جاسکتا اورکوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے۔ انھوں نے کراچی میں پینے کے شدید بحران سے متعلق پانی کی ترسیل اور تقسیم کے لیے ایک مرکزی نظام بھی قائم کرنے کاحکم دیا ہے ۔
سندھ واٹرکمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چند ماہ قبل کراچی کے دورے میں فراہمی آب اور شہریوں کو ناقص ہی نہیں بلکہ مضر صحت پینے کے پانی کی فراہمی کے معاملات کی شکایات کی از خود نوٹس کی سماعت کے دوران قائم کیا تھا ، جس نے ایک مختصر عرصے میں کراچی ہی نہیں پورے سندھ کے دورے کرکے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
کمیشن کے سربراہ خود اندرون سندھ ایسے ایسے علاقوں میں گئے جن کی حالت زار پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی دس سالہ حکومت میں اپنے ہی صوبے کے مضر صحت پانی پینے والے کروڑوں افراد کا خیال آیا ہی نہیں تھا کیونکہ انھیں تو پینے ہی نہیں نہانے دھونے کے لیے بھی صاف و شفاف پانی سرکاری طور پر میسر ہے۔
پیپلز پارٹی کو پہلی بار سندھ میں دس سال سے مکمل بااختیار ہوکر حکومت کرنے کا موقعہ ملا ہوا ہے ، جب کہ اس سے قبل 5 سال تک وفاق میں پی پی کی مکمل حکومت رہی اور کراچی اور نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری ملک کے بااختیار صدر رہے ہیں اور ایک طویل عرصے سے ہی سندھ کے معاملات آصف زرداری کی قابل اعتماد ہمشیرہ فریال تالپور کے ہاتھ میں ہیں ۔
سندھ کا اصل حکمران بھی انھیں ہی قرار دیا جاتا ہے جو نوابشاہ ضلع کی ناظمہ رہ چکی ہیں اور دس سال سے قومی اسمبلی کی بھی رکن چلی آرہی ہیں مگر وہ اتنے بااثر اقتدار کے باوجود سندھ کے لوگوں کو صاف و شفاف تو کیا ایسا پانی بھی فراہم نہیں کراسکی ہیں جو استعمال کرکے لوگ بیمار نہ ہوں۔ سندھ میں صاف پانی تو کیا گھریلو استعمال کے لیے مضر صحت پانی بھی میسر نہیں ہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں ضلع غربی میں پانی کا شدید بحران چلا آرہا ہے جب کہ اندرون سندھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں آبادی کے قریب پانی موجود نہیں اور لوگوں خصوصاً خواتین کو میلوں دور جاکر پانی لانا پڑتا ہے مگر اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو اپنے ہی ووٹروں کے اس سب سے اہم مسئلے کا احساس نہیں ہے تو وہ کراچی کے لوگوں کا کیوں احساس کریں گے جو پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک نہیں ہے جو تین دہائیوں سے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک قرار دیے جاتے ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ کراچی کے چھ اضلاع میں ایم کیو ایم کے پاس تین اور پیپلز پارٹی کے پاس دو ڈی ایم سیز کی چیئرمین شپ ہے جب کہ ضلع غربی کا بلدیہ ٹاؤن جو پانی کے شدید بحران کا شکار ہے وہاں ڈی ایم سی ایڈمنسٹریٹر سرکاری ہے اور چند روز قبل ہی ڈی ایم سی ویسٹ کا چارج وائس چیئرمین نے قائم مقام کے طور پر سنبھالا ہے مگر وہ بھی دیگر چیئرمینوں کی طرح واٹر بورڈ کے رحم و کرم پر ہیں جو سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اس کے ایم ڈی صاف کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ضرورت کا صرف چالیس فیصد پانی مل رہا ہے ۔ 2019 میں کے فور منصوبے کی تکمیل تک پانی کا مسئلہ یوں ہی برقرار اور پانی کی قلت رہے گی۔
واٹر کمیشن کے چیئرمین نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے پوچھا کہ ضلع غربی میں پانی کیوں نہیں آرہا تو انھوں نے وضاحت میں صفائی پیش کی جس پر جسٹس (ر) مسلم نے ان پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ واٹر کمیشن کو علاقہ مکینوں نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن کا پانی بھاری رقم پر فروخت کیا جا رہا ہے اور ہائیڈرنٹس اور ٹینکر مافیا نے اپنے مالی مفاد کے لیے بلدیہ ٹاؤن کو پانی سے محروم کر رکھا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن میں پانی کی قلت کے ذمے دار واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران بھی ہیں جن سے ملی بھگت کے بغیر پانی فروخت ہو ہی نہیں سکتا۔
واٹر کمیشن کے سربراہ نے چار آر او پلانٹس کی بجلی منقطع کرنے پر کے الیکٹرک کے نمایندے سے پوچھا کہ کیا کے الیکٹرک قانون سے ماورا ہے ہم کے الیکٹرک کا آڈٹ کرا لیتے ہیں۔
کے الیکٹرک بھی جب چاہے واٹر بورڈ کے پانی فراہم کرنے والے پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ دیتا ہے اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے 80 ارب روپے ادا نہ کرنے کے باوجود چاہتا ہے کہ اسے گیس کی فراہمی بند نہ ہو برقرار رہے۔
سندھ واٹر کمیشن صحت و صفائی، فراہمی نکاسی و آب کے معاملات پر خصوصی توجہ دے رہا ہے اور جس کے الیکٹرک سے کبھی وفاقی حکومت نے نہیں پوچھا اسی کے الیکٹرک پر واٹر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ کے الیکٹرک نے شہر تباہ کر رکھا ہے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر بجلی کی تاریں پڑی ہیں اور کے الیکٹرک کراچی میں وہ کچھ کر رہی ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔
واٹر کمیشن کے سربراہ بلدیہ عظمیٰ کے ڈی اے، واٹر بورڈ، ڈی ایم سیز، ایس بی سی اے، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں سے جواب طلبی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جب کہ سندھ حکومت ان اداروں سے صرف اپنے مطلب کی بات پوچھتی ہے۔ یہ سارے ادارے محکمہ بلدیات کے ماتحت ہیں جہاں لاکھوں روپے کی رشوت پر تقرر و تبادلے ہوتے ہیں اور واٹر کمیشن ہی عوام کے بنیادی معاملات کے حل کی کوشش میں ان سے باز پرس کرکے عوامی مسائل کے حل کی کوشش کر رہا ہے۔