مزدوروں کا عالمی دن
عالمی ادارہ محنت اور سول سوسائٹی کے ادارے عورتوں اور مردوں کے لیے ڈلیسنٹ کام کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ISLAMABAD:
مزدورں کے بارے میں لکھنے بیٹھی ہوں ، تو جی چاہاکہ آغاز گھر مزدور خواتین سے کیا جائے ۔ یعنی وہ عورتیں جوگھر بیٹھ کر مزدوری کرتی ہیں ، خواہ گھر بیٹھ کر گیس کے ننھے سے شعلے پرکانچ کی چوڑی کے دونوں کنارے جوڑنے والی خواتین ہوں یا انتہائی معمولی اجرت پر درجنوں کے حساب سے پاجامے سینے والی خواتین ہوں یا گھروں میں مہندی تیار کرنے والی خواتین ہوں، ان سب کو ہوم بیسڈ ورکرکہا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اب ان کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھنے لگی ہے۔
محنت کش خواہ گھر بیٹھ کر کام کریں، یا کارخانوں میں، یا کھیتوں میں، وہ مرد ہوں یا عورتیں، ان کاکام صرف ان کے اور ان کے کنبوں کے لیے ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ملکی معیشت کی بڑھو تری کا انحصار بھی اسی پر ہوتا ہے، اسی لیے حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ روزگارکے مواقعے پیدا کرے۔
کسی بھی ملک میں روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کی استعداد کا انحصار اس کے پاس موجود وسائل ، ٹیکنالوجی اور اس کی ترقی اور اداروں کی حکمت عملی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی وسائل ، مہارتیں اور تکنیکی اہلیت ورزگار کی نوعیت کا تعین کرتی ہیں جن کے ذریعے پائیدار ترقی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس عمل میں عورتیں اور مرد براہ راست شامل ہوتے ہیں ۔ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے میں دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔
روز گار اقتصادی بڑھو تری کا نتیجہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ روزگار کی فراہمی سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ خاندان کی آمدنی اور صرف (consumption) میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔افراد کی عزت نفس کی ضمانت ملتی ہے۔ آمدنی کے تفاوت میں کمی ہوتی ہے اور یوں سماجی تارو پود محفوظ رہتا ہے۔
دوسرے عوامل کے ساتھ کاروبارکو فروغ دینے کی صلاحیت بھی معیشت میں روزگار کے مواقعے کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور کاروباری اداروں کو فروغ دینے سے بے روزگار ی کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی لیبر فورس دنیا بھر میں نویں نمبر پر آتی ہے۔ 2013-2014کے لیبر سروے کے مطابق ہماری کل لیبر فورس 60.74 ملین جس میں سے 57.1ملین ( 94 فیصد) برسر روز گار ہے گویا2013-14ء میں بے روزگاری کی شرح چھ فیصد تھی۔ 2010-11 میں مردوں کی بے روزگاری کی شرح 5.4 فیصد تھی جو کم ہو کر 2013-14 میں 5.1 فیصد ہوگئی۔
جب کہ عورتوں کی بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے گھٹ کر8.7 فیصد ہوگئی۔اس عرصہ میںدیہی علاقوں میں بے روگاری کی شرح میں اضافہ اور شہری علاقوں میں کمی ہوئی۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور آبادی میں اضافہ کی شرح 1.9 فیصد سالانہ ہے جو لیبر فورس میں اضافہ کا سبب بنتی ہے ۔کام کے قابل عمر والی آبادی میں اضافہ ملک کے لیے ایک اثاثہ بھی بن سکتا ہے، اگر اسے موثر طور پر استعمال کیا جائے۔ دوسری طرف بے روزگاری کا سبب بھی آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ، مجموعی پیداوار میں اضافے کی کم شرح اور لااینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہے، اگر ہم پاکستان میں تعلیم کے مطابق بے روزگاری کی شرح کاجائزہ لیں تو پاکستان کی پرائمری پاس لیبر فورس کی بے روز گاری میں کمی آئی ہے۔
1999-2000 میںیہ شرح سات فیصد تھی جو 2012-2013 میں گھٹ کر 5.2 فیصد رہ گئی۔ اسی طرح مڈل کلاس اور میٹرک پاس بے روزگار ۔ افراد کی تعداد بھی کم ہوئی ہے، لیکن ڈگری یافتہ افراد کی بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر سال یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر نکلنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے اتنے مواقعے پیدا نہیں ہو رہے کہ ان سارے نوجوانوں کی کھپت ہوسکے۔
زراعت کے شعبے میں بھی روزگار کے مواقعے کم ہوئے ہیں ، جب کہ سروس سیکٹر بشمول ٹرانسپورٹ اورکمیونیکیشن اور تعمیراتی سیکٹر میں روزگارکے مواقعے پیدا ہوتے رہے ہیں(پلاننگ کمیشن)۔ پاکستان میںغیر رسمی شعبوں میںکام کرنے والوںکی صورت حال پر عالمی ادارہء محنت نے بھی تحقیق کی ہے۔ اس ادارے نے خاص طور پر پاکستان کی ٹیکسٹائل اورگارمنٹس انڈسٹریز پر توجہ دی ہے، اگر ہم صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں کی غیر رسمی معیشت میں آپ کوبہت سے ایسے ادارے یا فیکٹریاں ملیں گی جوکہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ غیر رجسٹرڈ ہول سیلرز اور ریٹیلرز بھی ہیں۔ غیر رسمی اداروں میں کام کرنے والے مزدور اور ہوم بیسڈ ورکرز بھی غیر رسمی معیشت کے لینڈاسکیپ کا حصہ ہیں ۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹ انڈسٹری میںرسمی اور غیر رسمی دونوں معیشتیں شامل ہیں اور یہ انٹر نیشنل برانڈز کے لیے بھی چیزیں تیار کرتی ہیںجو امریکا اور یورپی یونین کی مارکیٹوں میںفروخت ہوتی ہیں۔ کم ویلیو والی چیزیں ٹھیکیداروں یا مڈل مین کے ذریعے ہوم بیسڈ ورکرزکو تیار کرنے کے لیے دی جاتی ہیں، جب کہ فیکٹریاں عام طور پر انڈسٹریل زون میں لگائی جاتی ہیں کیونکہ وہاں بجلی کی سپلائی نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔ یہاں سے ٹھیکیدار عورتوں کو گھروں پرلے جا کے کام دیتے ہیں۔
پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد میں اضافہ کی وجہ انڈسٹری کی گلوبلائزیشن ہے اور باہر کے صنعتکار مزدوروں کی کم اجرت کی وجہ سے اپنا کا م یہاں سے کرانا پسند کرتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے اعداد وشمارکے مطابق پاکستان میں دس لاکھ سے زائد خواتین گھر مزدور ہیں جوگارمنٹس، چوڑیوں کی صنعت، جوتوں کی سلائی، کشیدہ کاری، قالین بافی وغیرہ میںکام کرتی ہیں۔پاکستانی معیشت میں ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود ان عورتوں کوکوئی سماجی اور قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ان عورتوں کا شمار معاشرے کے انتہائی غیر مراعات یافتہ لوگوں میںہوتا ہے۔ انھیں سو شل سیکیورٹی نہیں ملتی اورنہ ہی ان کے کام کی جگہ پرآپریشنل سیفٹی اور ہیلتھ اسٹینڈرڈز کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ پاکستان کے لیبر قوانین میں بھی ہوم بیسڈ ورکرز کو شامل نہیں کیا گیا۔ یعنی ان کو مزدور مانا ہی نہیںجاتا۔
عالمی ادارہ محنت اور سول سوسائٹی کے ادارے عورتوں اور مردوں کے لیے ڈلیسنٹ کام کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں چار چیزیں شامل ہیں۔ روزگارکے مواقع، کام کے حوالے سے حقوق ، سماجی تحفظ اور ڈائیلاگ سول سوسائٹی کی کوششوں سے اب ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے پالیسی بن چکی ہے اور قانون بھی جلد متوقع ہے۔ اس پالیسی کے مطابق حکومت کو گھرمزدور خواتین ، این جی اوز اور نجی شعبے کے ساتھ مل کے کام کرنا چاہیے ، ہم توقع رکھتے ہیں کہ جلد ہی گھر مزدور خواتین کو وہ ساری سہولتیں مل جائیں گی جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہر مزدور کوملنی چاہئیں۔