الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواروں کے لئے نیا ہدایت نامہ
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نیا ہدایت نامہ ہر جگہ موضوع بحث ہے۔
سابق حکمرانوں اور اہم شخصیات کی سکیورٹی کے نام پر تاحیات غیر معمولی مراعات اور پروٹوکول اور اس کے قومی خزانے پر بوجھ کا اگر دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے حکمرانوں کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہو گا۔
جہاں سابق وزرائے اعظم، سابق وزرائے اعلیٰ ، سابق اراکین پارلیمنٹ اور دیگر شخصیات نے اقتدار کے رخصت ہوتے وقت اپنے آپ کو تاحیات غیر معمولی مراعات کا مستحق ٹھہراتے ہوئے خود ہی فیصلے صادر کر دیئے، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سابق حکمرانوں کو غیر معمولی سکیورٹی اور تاحیات مراعات کا از خود نوٹس لے لیا ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کروڑوں لوگوں کو روز مرہ زندگی کی اشیائے ضروریہ دستیاب نہیں اور لاتعداد مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اس ملک میں ہمارے سابق حکمران سکیورٹی کے نام پر شاہانہ ٹھاٹ باٹھ اور پروٹوکول کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں، یہ ایک ناقابل رشک مثال ہے، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے جہاں اس ملک کو اندھیروں کی نذر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہاں موصوف نے پارلیمنٹ کی 5 سالہ مدت کی تکمیل سے ایک دن قبل اپنے آپ کو سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر سابق وزراء اور شخصیات کو سکیورٹی کے نام پر تاحیات غیر معمولی سکیورٹی اور دیگر مراعات دینے کا حکم صادر فرما دیا۔
سابق وزیر اعظم نے اقتدار سے رخصت ہونے سے قبل کروڑوں روپے مالیت کی بلٹ پروف گاڑیاں حتیٰ کہ اسلام آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ کی کروڑوں روپے کی لاگت سے سرکاری اخراجات پر مکمل تزئین و آرائش کرا لی، عدالت عظمیٰ نے سابق حکمرانوں کی تاحیات غیر معمولی مراعات اور سکیورٹی کا از خود نوٹس لے کر ایک صحت مند روایت قائم کر دی ہے، سیاسی حلقوں اور معاشرے کے تمام طبقات نے سابق حکمرانوں کی مراعات کا عدالت کی طرف سے نوٹس لئے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلاشبہ ایسی تاحیات مراعات کا قانون میں کوئی جواز نہیں ہے۔
سابق حکمرانوں کی ان مراعات اور سکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے جا رہے ہیں اور یہ قومی خزانے پر ناقابل بیان بوجھ ہے، اگر دنیا کے خوشحال، جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا طرز زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان ممالک کے حکمران ہمارے ملک کے حکمرانوں جیسا شاہانہ پروٹوکول نہیں رکھتے، پاکستان کے کروڑوں عوام یہ سمجھتے ہیں کہ سکیورٹی کے نام پر یہ پروٹوکول کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
آئین پاکستان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خلاف ضابطہ اپنے آپ کو ان مراعات کا مستحق ٹھہرانے والے سابق حکمرانوں سے یہ ساری مراعات واپس لے کر عدالت عظمیٰ کو ایک ایسی مثال قائم کرنی چاہیے کہ مستقبل میں کوئی اس طرح آئین کی دھجیاں نہ اڑا سکے، غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خطرات کے باعث سیاستدانوں کو سکیورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم سکیورٹی کے نام پر شاہانہ مراعات کا حصول ہر لحاظ سے سوالیہ نشان ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مذہب اور فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا جرم قرار دے دیا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نیا ہدایت نامہ ہر جگہ موضوع بحث ہے، اس ہدایت نامہ میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی انتخابی امیدوار مذہب یا فرقہ کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتا، ووٹر کو پولنگ سٹیشن سے بھگانا ،ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو پہلی مرتبہ قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
ووٹر کو کشتی میں بٹھا کر پولنگ سٹیشن تک لانے پر بھی سزا ہو گی، مذہبی جماعتوں کے قائدین نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے پر عائد کردہ پابندی پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پابندی کو نہیں مانتے، الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرنے کے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ موثر انداز میں ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرایا جا سکے، مذہبی جماعتوں کے قائدین نے یہ معاملہ سینٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انتخابی امیدواروں پر شرپسند عناصر کے حملوں نے ایک بار پھر غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے، سوات اور چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے ایک بار پھر یہ خطرات بڑھ گئے ہیں کہ ایک منظم منصوبہ بندی کی وجہ سے بعض جماعتوں کے امیدواروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اے این پی کے رہنماؤں پر حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے، نگراں حکومت کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج لاء اینڈ آرڈر ہے۔
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے وفاقی وزیر داخلہ ملک محمد حبیب خان کو یہ ہدایات جاری کردی ہیں کہ تمام امیداروں کو انتخابی مہم کے دوران ہر قسم کی سکیورٹی فراہم کی جائے، بعض ملک دشمن عناصر انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں اور انتخابات کے پر امن فضاء میں انعقاد کو یقینی بنانا نگران حکومت کا اولین فریضہ ہے۔ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کابینہ کے اجلاس کے دوران تمام ارکان کو مکمل غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کی ہے ۔
بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے نگران وزیرداخلہ ملک محمد حبیب خان کے ایک بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے اگر دیکھا جائے تو وزیر داخلہ کا بیان کوئی متنازعہ نہیں تھا ، اسی بیان پر سیاسی رہنماؤں کا واویلااور انہیں ہٹانے اور متنازعہ بنانے کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا نا قابل فہم ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسی معاملے پر الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کی روشنی میں بعدازاںسیکرٹری الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعظم کوایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ نگران وزراء غیر جانبدار ہیںاور سیاسی بیانات سے گریز کریں، نگران وزیرداخلہ محمد حبیب خان نے نگران وزیراعظم سے ملاقات کر کے اپنے بیان کی وضاحت کردی ہے نگران وزیراعظم ، وزیرداخلہ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔
لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کیلئے نگران وزیر داخلہ کو مکمل اختیار دیئے گئے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کر دیئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ انتخابات میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میںآتی ہے یا کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کررکھا ہے ۔
جہاں سابق وزرائے اعظم، سابق وزرائے اعلیٰ ، سابق اراکین پارلیمنٹ اور دیگر شخصیات نے اقتدار کے رخصت ہوتے وقت اپنے آپ کو تاحیات غیر معمولی مراعات کا مستحق ٹھہراتے ہوئے خود ہی فیصلے صادر کر دیئے، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سابق حکمرانوں کو غیر معمولی سکیورٹی اور تاحیات مراعات کا از خود نوٹس لے لیا ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کروڑوں لوگوں کو روز مرہ زندگی کی اشیائے ضروریہ دستیاب نہیں اور لاتعداد مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اس ملک میں ہمارے سابق حکمران سکیورٹی کے نام پر شاہانہ ٹھاٹ باٹھ اور پروٹوکول کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں، یہ ایک ناقابل رشک مثال ہے، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے جہاں اس ملک کو اندھیروں کی نذر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہاں موصوف نے پارلیمنٹ کی 5 سالہ مدت کی تکمیل سے ایک دن قبل اپنے آپ کو سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر سابق وزراء اور شخصیات کو سکیورٹی کے نام پر تاحیات غیر معمولی سکیورٹی اور دیگر مراعات دینے کا حکم صادر فرما دیا۔
سابق وزیر اعظم نے اقتدار سے رخصت ہونے سے قبل کروڑوں روپے مالیت کی بلٹ پروف گاڑیاں حتیٰ کہ اسلام آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ کی کروڑوں روپے کی لاگت سے سرکاری اخراجات پر مکمل تزئین و آرائش کرا لی، عدالت عظمیٰ نے سابق حکمرانوں کی تاحیات غیر معمولی مراعات اور سکیورٹی کا از خود نوٹس لے کر ایک صحت مند روایت قائم کر دی ہے، سیاسی حلقوں اور معاشرے کے تمام طبقات نے سابق حکمرانوں کی مراعات کا عدالت کی طرف سے نوٹس لئے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلاشبہ ایسی تاحیات مراعات کا قانون میں کوئی جواز نہیں ہے۔
سابق حکمرانوں کی ان مراعات اور سکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے جا رہے ہیں اور یہ قومی خزانے پر ناقابل بیان بوجھ ہے، اگر دنیا کے خوشحال، جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا طرز زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان ممالک کے حکمران ہمارے ملک کے حکمرانوں جیسا شاہانہ پروٹوکول نہیں رکھتے، پاکستان کے کروڑوں عوام یہ سمجھتے ہیں کہ سکیورٹی کے نام پر یہ پروٹوکول کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
آئین پاکستان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خلاف ضابطہ اپنے آپ کو ان مراعات کا مستحق ٹھہرانے والے سابق حکمرانوں سے یہ ساری مراعات واپس لے کر عدالت عظمیٰ کو ایک ایسی مثال قائم کرنی چاہیے کہ مستقبل میں کوئی اس طرح آئین کی دھجیاں نہ اڑا سکے، غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خطرات کے باعث سیاستدانوں کو سکیورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم سکیورٹی کے نام پر شاہانہ مراعات کا حصول ہر لحاظ سے سوالیہ نشان ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مذہب اور فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا جرم قرار دے دیا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نیا ہدایت نامہ ہر جگہ موضوع بحث ہے، اس ہدایت نامہ میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی انتخابی امیدوار مذہب یا فرقہ کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتا، ووٹر کو پولنگ سٹیشن سے بھگانا ،ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو پہلی مرتبہ قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
ووٹر کو کشتی میں بٹھا کر پولنگ سٹیشن تک لانے پر بھی سزا ہو گی، مذہبی جماعتوں کے قائدین نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے پر عائد کردہ پابندی پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پابندی کو نہیں مانتے، الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرنے کے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ موثر انداز میں ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرایا جا سکے، مذہبی جماعتوں کے قائدین نے یہ معاملہ سینٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انتخابی امیدواروں پر شرپسند عناصر کے حملوں نے ایک بار پھر غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے، سوات اور چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے ایک بار پھر یہ خطرات بڑھ گئے ہیں کہ ایک منظم منصوبہ بندی کی وجہ سے بعض جماعتوں کے امیدواروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اے این پی کے رہنماؤں پر حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے، نگراں حکومت کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج لاء اینڈ آرڈر ہے۔
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے وفاقی وزیر داخلہ ملک محمد حبیب خان کو یہ ہدایات جاری کردی ہیں کہ تمام امیداروں کو انتخابی مہم کے دوران ہر قسم کی سکیورٹی فراہم کی جائے، بعض ملک دشمن عناصر انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں اور انتخابات کے پر امن فضاء میں انعقاد کو یقینی بنانا نگران حکومت کا اولین فریضہ ہے۔ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کابینہ کے اجلاس کے دوران تمام ارکان کو مکمل غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کی ہے ۔
بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے نگران وزیرداخلہ ملک محمد حبیب خان کے ایک بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے اگر دیکھا جائے تو وزیر داخلہ کا بیان کوئی متنازعہ نہیں تھا ، اسی بیان پر سیاسی رہنماؤں کا واویلااور انہیں ہٹانے اور متنازعہ بنانے کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا نا قابل فہم ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسی معاملے پر الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کی روشنی میں بعدازاںسیکرٹری الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعظم کوایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ نگران وزراء غیر جانبدار ہیںاور سیاسی بیانات سے گریز کریں، نگران وزیرداخلہ محمد حبیب خان نے نگران وزیراعظم سے ملاقات کر کے اپنے بیان کی وضاحت کردی ہے نگران وزیراعظم ، وزیرداخلہ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔
لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کیلئے نگران وزیر داخلہ کو مکمل اختیار دیئے گئے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کر دیئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ انتخابات میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میںآتی ہے یا کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کررکھا ہے ۔