ٹھٹھہ کے اہم سیاسی خاندان کی پیپلزپارٹی سے علیحدگی

شیرازی برادران چاہتے تھے کہ انہیں ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دی جائیں۔


G M Jamali April 16, 2013
یہ بات واضح ہے کہ شیرازی برادران پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہ سکتے تھے جو اختلافات سامنے آئے، وہ ٹھٹھہ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر تھے۔ فوٹو: فائل

حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے ٹھٹھہ کے شیرازی برادران زیادہ دیر اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔

اس طرح پیپلز پارٹی ٹھٹھہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خدشات درست ثابت ہوئے، جو کہتے تھے کہ شیرازی برادران پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے کارکنوں کی ناراضگی اور احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے شیرازی برادران کو گلے لگایا تھا اور اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت انہیں پارٹی میں زبردست اہمیت دی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ پارٹی کارکنوں کے اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔

سندھ کی سیاست میں ٹھٹھہ پیپلز پارٹی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ٹھٹھہ نہ صرف کراچی سے قریب ہے بلکہ اس کا طویل ساحلی علاقہ پاکستان کی ترقی کے لئے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس ضلع میں شیرازی برادران نے اپنا سیاسی تسلط برقرار رکھنے کے لئے ہر سیاسی حربہ استعمال کیا۔ شیرازی برادران اس سے پہلے پیپلز پارٹی میں بھی شامل رہے۔ بعد ازاں وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ پھر وہ دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔

اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس طرح 1985 ء سے 2013ء تک انہوں نے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ 2002ء میں انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹس پر الیکشن لڑا تھا۔ مسلم لیگ ق کے کوٹے پر ہی انہوں نے سندھ کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ شیرازی برادری کے سربراہ سید اعجاز علی شاہ شیرازی مسلم لیگ ق کے کوٹے پر سندھ میں مشیر رہے لیکن انہوں نے اسی دوران ہی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اس وقت شیرازی برادران سے سخت ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر شیرازی مسلم لیگ ق کو چھوڑ گئے ہیں تو انہیں سندھ کابینہ سے استعفیٰ دے دینا چاہیے کیونکہ وہ سندھ کابینہ میں مسلم لیگ ق کے کوٹے پر شامل ہیں لیکن اعجاز شاہ شیرازی نے آخر وقت تک صوبائی مشیر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ پیپلز پارٹی ضلع ٹھٹھہ کے عہدیداروں اور کارکنوں نے اپنی پارٹی قیادت سے کہا تھا کہ جن لوگوں کا سیاسی کردار نہ ہو، انہیں پارٹی میں شامل نہ کیا جائے۔

دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ شیرازی برادران اس ملک کے غیر سیاسی حلقوں کے اشارے پر چلتے ہیں۔ انہیں جب بھی وہاں سے اشارہ ملے گا، وہ پیپلز پارٹی کو دھوکہ دے کر چلے جائیں گے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی ٹھٹھہ کے عہدیداروں کی بات درست ثابت ہوئی یا نہیں اور شیرازی برادران کسی کے اشارے پر پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے یا انہیں کہیں سے اشارہ نہیں ملا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ شیرازی برادران پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہ سکتے تھے جو اختلافات سامنے آئے، وہ ٹھٹھہ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر تھے۔

شیرازی برادران چاہتے تھے کہ انہیں ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دی جائیں۔ اگر پیپلز پارٹی یہ بات مان لیتی تو ٹھٹھہ سے اسے اپنے تمام امیدواروں کو دستبردار کرانا پڑتا۔ اس طرح پیپلز پارٹی ٹھٹھہ ضلع کو مکمل طور پر شیرازی برادران کے حوالے کردیتی اور اس کا وجود وہاں ختم ہوجاتا۔ پیپلز پارٹی نے شیرازی برادران کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں لے لیں۔ لیکن شیرازی برادران اس پر راضی نہیں ہوئے۔ دوسری طرف ٹھٹھہ کی سیاست پر نظر رکھنے والے بعض حلقے شیرازی برادران پیپلز پارٹی سے علیحدگی کی وجہ کچھ اور بتارہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے ٹھٹھہ کے صوبائی حلقہ پی ایس۔ 88 سے آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اور پیپلز پارٹی کے رہنماء سید اویس مظفر کو ٹکٹ دیا ہے۔ یہ بات شیرازی برادران کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے کیونکہ انہیں ضلع میں اپنی اجارہ داری ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ٹھٹھہ کی سیاست میں سید اویس مظفر کا داخلہ شیرازی برادران کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ سید اویس مظفر کی موجودگی میں شیرازی برادران کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اپنی من مانی نہیں کرسکتے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انہوںنے پیپلز پارٹی کی قیادت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ سید اویس مظفر کو ٹھٹھہ سے الیکشن نہ لڑائے بلکہ انہیں کسی اور ضلع میں الیکشن لڑایا جائے۔

اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور شیرازی برادران پیپلز پارٹی سے الگ ہوگئے۔ سید اویس مظفر نے ٹھٹھہ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ہر جگہ وہاں کے لوگوں سے یہی بات کی کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر ٹھٹھہ سے شیرازیوں کی اجارہ داری ختم کرے گی اور اس علاقے کو کراچی کے برابر ترقی دی جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ٹھٹھہ میں طویل عرصے سے شیرازی برادران کی قائم سیاسی اجارہ داری ختم کرسکتی ہے یا نہیں؟

صرف ٹھٹھہ ہی نہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی کچھ اسی طرح کے فیصلے کئے اور شیرازی برادران کی طرح ان اضلاع میں بھی بااثر سیاسی خاندانوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کیا۔ گھوٹکی میں مہر برادران، نوشہروفیروز میں سید برادران اور لاڑکانہ میں انڑ خاندان کو پیپلز پارٹی میں شامل کیا گیا۔

مذکورہ تینوں اضلاع میں پیپلز پارٹی نے ان خاندانوں کو''اکاموڈیٹ '' کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیئے۔ ان تینوں اضلاع میں بھی پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں نے زبردست احتجاج کیا اور پارٹی قیادت کو یہ بات باور کرائی کہ یہ خاندان کسی کے سیاسی وفادار نہیں ہیں ۔ پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سیاسی خاندانوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اس لئے اختیار کی کہ انہیں یہ محسوس ہورہا تھا کہ آئندہ حکومت بھی پیپلز پارٹی کی بنے گی۔

عہدیداروں اور کارکنوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی نہیں بنی تو یہ سیاسی خاندان پیپلز پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے کے باوجود اسے چھوڑ دیں گے۔ اور پیپلز پارٹی کو ان خاندانوں کی سیاسی تاریخ کا علم بھی ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا مہر، سید اور انڑ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا لیکن پیپلز پارٹی ٹھٹھہ کے عہدیداران اور کارکنان اس بات پر خوش ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کم از کم ایک ضلع کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے بچالیا اور شیرازی برادران سے آئندہ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں