کالعدم تنظیموں کے دبائو کے باوجود انتخابی گہما گہمی میں اضافہ

نیشنل پارٹی کے بھی انتخابی اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات ہورہے ہیں۔

جے یو آئی (نظریاتی) کے سربراہ مولانا عصمت اﷲ نے بھی سردار اختر مینگل سے کوئٹہ میں ملاقات کی اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے دونوں کے درمیان حوصلہ افزاء مذاکرات ہوئے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں بھی عام انتخابات کی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر درجنوں اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں جبکہ بعض کالعدم تنظیموں کی جانب سے عوام کو انتخابات سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بلوچ نیشنل فرنٹ نے الیکشن کے بائیکاٹ کے لئے پانچ اپریل سے گیارہ مئی تک پورے بلوچستان میں شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے، بی این ایف کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ انتخابات بلوچوں کے مسائل کا حل نہیں لہٰذا بلوچ عوام اس سے دور رہیں۔

دوسری جانب بلوچ ری پبلکن پارٹی اور بی آر ایس او کی جانب سے بھی انتخابات کو ڈرامے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس انتخابی ڈرامے کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی قوتوں نے بلوچوں کو جبری طور پر پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے لیکن ظلم و جبر کی جارحانہ پالیسیوں سے بلوچ قوم کو ان کی قومی آزادی کی جدوجہد سے نہیں روکا جاسکتا اس حوالے سے بی ۔آر ۔پی اور بی ۔آر ۔ایس ۔او کے زیر اہتمام کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور پریس کلب کے سامنے مظاہرے کئے گئے۔

انتخابات کے حوالے سے جن پارٹیوں کے اُمیدواروں کو پارٹی ٹکٹیں نہیں ملیں ان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور ان کے غم و غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان اُمیدواروں نے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد پارٹی سے منحرف ہو کر آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے، خصوصاً (ن) لیگ کے اندر ایسے بہت سے خواہشمند اُمیدوار موجود تھے جو کہ پارٹی ٹکٹ کیلئے کوشاں رہے لیکن جب انہیں ٹکٹ نہیں ملے تو اُنہوں نے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کے خلاف ہی انتخابات آزاد حیثیت سے لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب پارٹی ٹکٹ ہولڈرز ایسے اُمیدواروں کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر پارٹی کی قیادت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ایسے اُمیدواروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔ انتخابی اتحاد کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت اور رابطوں میں تیزی آگئی ہے اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ان جماعتوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل جو کہ کوئٹہ میں موجود ہیں اس وقت مرکز بنے ہوئے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ان سے یہاں ملاقاتیں کیں۔

جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی کوئٹہ آئے تو انہوں نے یہاں نہ صرف سردار اختر مینگل سے ملاقات کی بلکہ محمود خان اچکزئی، طلال اکبر بگٹی اور ڈاکٹر عبدالمالک سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں، وہ ناراض پارٹی کارکنوں کے غم و غصے پر پانی ڈالنے آئے تھے تاہم انہیں اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ قومی اسمبلی کی نشست این اے259 کوئٹہ سٹی پر (ن) لیگ نے پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے جبکہ این اے 260 کوئٹہ چاغی پر قوی امکان ہے کہ (ن) لیگ بی این پی مینگل کے اُمیدوار کی حمایت کرے گی۔


اسی طرح بی این پی اور پشتونخوامیپ بھی بعض سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) کے اُمیدواروں کی حمایت کریں گی۔ جے یو آئی (نظریاتی) کے سربراہ مولانا عصمت اﷲ نے بھی سردار اختر مینگل سے کوئٹہ میں ملاقات کی اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے دونوں کے درمیان حوصلہ افزاء مذاکرات ہوئے اور دونوں رہنمائوں کی جانب سے مختلف اُمیدواروں کی کامیابی کیلئے مشترکہ الائنس بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل میں بھی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بات چیت جاری ہے۔

نیشنل پارٹی کے بھی انتخابی اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ انتخابی اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے جس بات چیت کا آغاز ہوا ہے آئندہ چند روز میں یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائی گی اور مختلف اتحادوں کے علاوہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ان جماعتوں کی بات چیت مکمل ہوجائے گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں ایک نئے بڑے سیاسی اتحاد کیلئے پیش رفت اور کوششیں ہورہی ہیں یہ اتحاد تین بڑی قوم پرست جماعتوں کے درمیان جو کہ اس سے قبل پونم کی شکل میں بھی رہ چکا ہے، میں ہوگا۔ ان جماعتوں میں پشتونخواملی عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔

اب جبکہ11 مئی عام انتخابات کی تاریخ قریب آگئی ہے، بلوچستان میں نگران کابینہ اب تک تشکیل نہیں پاسکی جس کے باعث سیاسی جماعتوں میں بھی سخت تشویش پائی جاتی ہے اور ان سیاسی جماعتوں کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں مختصر ترین نگران کابینہ بنانے کا فیصلہ جلد سے جلد کیا جائے۔

سیاسی حلقے (ن) لیگ کی مرکزی قیادت پر اس حوالے سے بھی تنقید کررہے ہیں کہ (ن) لیگ کی مرکزی قیادت نے بلوچستان میں اپنے مخلص اور پرانے کارکنوں کو نظر انداز کردیا ہے اور پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں غیر منصفانہ رویہ اپنایا گیا ہے۔ دوسری جانب ماضی میں (ق) لیگ کا حصہ لینے والے سیاسی لوگ اب ن لیگ کا رخ کر چکے ہیں، حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ جان جمالی نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ مزید سیاسی شخصیات بھی (ن) لیگ میں آئندہ چند روز میں شمولیت اختیار کریں گی۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق ان شخصیات کی شمولیت سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید آئندہ ٹرم ملک اور صوبے میں مخلوط حکومتوں کی شکل میں (ن) لیگ کا ہی ہو۔

جعلی ڈگری کیسز میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین سابق اراکین پارلیمنٹ اور ایک موجودہ سینیٹر کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دیتے ہوئے 2008ء سے اب تک کی مراعات اور تنخواہیں واپس کرنے کا حکم دیا ہے، ان سابق اراکین پارلیمنٹ میں بیگم ریحانہ بلوچ، محبت خان مری، نوابزادہ طارق مگسی اور موجودہ سینیٹر میر اسرار زہری شامل ہیں۔ بی این پی عوامی کے مرکزی صدر اور سابق وفاقی وزیر میر اسرار اﷲ زہری کا کہنا ہے کہ وہ نااہلی کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے ان کا یہ موقف ہے کہ انہیں الیکشن سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سابق رکن بلوچستان اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر بھی نامزد وہئے تھے۔ ان کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد 20ویں ترمیم کے تحت نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے لیے کیے گئے ان کے دستخط بھی سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔
Load Next Story