ٹنڈو محمد خان NA222 پیپلزپارٹی ہمیشہ اس حلقہ سے ناقابل شکست رہی

1988سے 1997 تک انتخابات کا جائزہ لیں تو قومی اسمبلی حلقہ این اے 222 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ناقابل شکست رہے ہیں۔


Abdul Karim Shaikh April 16, 2013
1990 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید نوید قمر نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے 56ہزار 9سو2 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ فوٹو : فائل

حیدرآباد سے جنوب میں 36کلو میٹر کے فاصلے پر حیدرآباد بدین مین روڈ پرواقع ضلع ٹنڈو محمد خان 2005 ء سے پہلے ضلع حیدرآباد کی ایک تحصیل تھی جسے ارباب غلام رحیم دور حکومت میں ضلع کا درجہ دے کر بلڑی شاہ کریم،ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو غلام حیدر کو اسکی تحصیل کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

2010 کی مردم شماری کے مطابق اسکی مجموعی آبادی 5 لاکھ47ہزار دو سو 15 ہے اور اسکا مجموعی رقبہ 1733مربع کلو میٹر ہے۔سیاسی طور پر یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم اس علاقے میں ٹالپر خاندان کے سیا سی اثر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور 1988سے اب تک یہ خاندان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں الیکشن لڑتا آرہا ہے ،تحصیل ٹنڈو محمد خان اور تحصیل بلڑی شاہ کریم میں تحصیل حیدرآباد دیہی کی یونین کونسلیں مولاں ،ہوسڑی، سیری،ٹنڈو حیدر اور ٹنڈو فضل کے علاقوں کو شامل کرکے قومی اسمبلی کا ایک حلقہ NA-222 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی ایس53اور پی ایس54 بنائے گئے ہیں۔

1988سے 1997 تک کے عام انتخابات کا اگر جائزہ لیں تو قومی اسمبلی حلقہ این اے 222 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ناقابل شکست رہے ہیں۔ 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار قاضی عبدالمجید عابد نے50ہزار8 سو69 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ آزاد امیدوار میر عنایت علی ٹالپر 15287 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے ،1990 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید نوید قمر نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے 56ہزار 9سو2 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔



جبکہ آزاد امیدوار میر مشتاق علی ٹالپر 16ہزار5سو63ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے ،1993 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر46ہزار8سو8 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار میر حیدر ٹالپر 16ہزار 7سو20 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پررہے تھے اس حلقے میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک نہیں تھا تاہم میاں نواز شریف کے 1990 کے پہلے دور حکومت میں سندھ سے ڈاکو فیکٹر کے خاتمے اور زیادتی کا شکار غریب خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے ٹنڈو محمد خان میں خصوصی عدالتیں لگا کر متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کرنے کی وجہ سے 1993 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میںغیر معمولی اضافہ ہوا تھا ،شہید ذوالفقار علی کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد 1997 میں ہونے والے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔

ان انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سید نوید قمرنے 39ہزار2سو25ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرلی جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار میر حیدر ٹالپر 15 ہزار 9سو پچاس ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے امیدوار یوسف کوثر بھٹی 14 ہزار 9 سو 20 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے ، 2002 کے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سید نوید قمر نے 53ہزار سات سو پانچ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی ان کے مد مقابل پیر سجاد جان سرہندی قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے 34ہزار 6 سو ستائیس ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے ان عام انتخابات میں بھی جب پیپلز پارٹی کے مخالف اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکتے تھے پیر سجاد جان سرہندی نے سید نوید قمر کے 84041 ووٹوں کے مقابلے میں 26 ہزار تین سو 91 ووٹ حاصل کئے تھے ۔اس مرتبہ پیپلز پارٹی سے مقابلے کے لئے مخالف اتحاد بن جانے سے پیر سجاد جان سرہندی جواب فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پرامیدوارہیں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔جہاں تک اس نششت پر پیپلز پارٹی کے ناقابل شکست رہنے والے امیدوار سید نوید قمر کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی سابقہ روایت سے ہٹ کر اپنے اس پانچ سالہ دور حکومت میں اس حلقہ کے عوام سے اپنے تعلق کو جوڑے رکھا۔



انہوں نے بجلی کی سہولت سے محروم ایک سو سے زائد دیہات کو بجلی فراہم کی پندرہ سے زائد گوٹھوں تک گیس پہنچائی تعلیمی حوالے سے پبلک سکول، دیہی علاقوں میں سٹیزن فاؤنڈیشن سکولز اورشہر میں زیبیسٹ جیسے اعلی تعلیمی اداروں کے کیمپس کھلوائے ،تین سو بستروں پر مشتمل جدیدڈسٹرکٹ ہیڈ کورٹرز ہسپتال کی تعمیراور حیدرآباد روڈ پر ٹبہ ہسپتال کی طرز پر امرض قلب کے جدید ہسپتال کاسنگ بنیاد رکھنا،شہر میں اسفالٹ سڑکوں کی تعمیر ان کے کارناموں میں شمار کئے جاسکتے ہیں گزشتہ انتخابات میں اس حلقے کے شہری علاقے میں سب سے موثر سیاسی قوت رکھنے والی تاجر برادری کے نمائندوں پر مشتمل تاجران فیڈریشن اور سٹیزن فورم نے سید نوید قمر کی غیر مشروط حمایت کی تھی جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کو اس حلقے کے شہری علاقے سے بھی واضح برتری ملی تھی۔

تاہم اپنے دور حکومت میں ان تنظیموں کو مسلسل نظر انداز کرنے اور ان کی جانب سے شہر میں نکاسی آب اور ایمر جنسی رین واٹر آؤٹ ڈرین سکیمیں منظور کئے جانے کے باوجود اس پر کام نہ کرانے،نوکریاں نہ دینے اور وعدے کے باوجود واٹر سپلائی سکیم پر فلٹر پلانٹ نہ لگانے کے باعث تاجر برادری اور پیپلز پارٹی کے مابین رنجش پائی جاتی ہے جبکہ پیر سجاد جان سرہندی نے سٹیزن فورم سے اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے اور پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں بھی سٹیزن فورم کی حمایت حاصل کرنے لئے کوشاں ہیں۔

اسی حلقے سے جماعت اسلامی نے جعفر نظامانی ،ایس ٹی پی نے محمد بخش نوناری،عوامی تحریک نے ڈاکٹر عزیر ٹالپر،جمعیت علماء اسلام ف نے مولانامحمد صدیق زئنورکے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقا بلے کیلئے یہ تما م پارٹیا ں پیر سجاد جان سرہندی کے نام پر متفق ہو جائیں گی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس حلقے سے اپنے امیدوار محمد انور راجپوت کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ فی الوقت اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید نوید قمر کی پوزیشن انتہائی مستحکم نظر آرہی ہے۔

صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 53 ٹنڈو محمد خان سٹی پیپلز پارٹی کیلئے ہمیشہ درد سر بنا رہا ہے،شہری حصے میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹ زیادہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک مستحکم ہے۔1988ء میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید محسن شاہ بخاری 22ہزار 2 سو14 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ آزاد امیدوار میر اعجاز علی ٹالپر 9ہزار6سو12ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ،1990 کے عام انتخابات میں دوبارہ سید محسن شاہ بخاری کامیاب قرار پائے ،1997 کے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے سید محسن شاہ بخاری 11ہزار ایک سو63ووٹ لے کر جیت گئے جبکہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے امیدوار میر عنایت علی ٹالپر 7ہزار6سو 43ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

2002 ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے سٹیزن فورم سے اختلافات پیدا ہوگئے جس پر سٹیزن فورم نے قومی اتحاد کے امیدوار میر علی نواز ٹالپر کی حمایت کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے اس الیکشن میں پہلی مرتبہ کانٹے کے مقابلے کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدوار سید محسن شاہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جیتنے والے قومی اتحاد کے امیدوار میر علی نواز ٹالپر 20ہزار 5سو49ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ سید محسن شاہ نے 20ہزار 83ووٹ حاصل کئے۔ 2008 کے انتخابات میں سٹیزن فورم نے دوبارہ پیپلز پارٹی سے اتحاد کرلیا۔

اورپیپلز پارٹی کے امیدوار سید محسن شاہ بخاری نے 39 ہزار 6 سو 47 ووٹ حاصل کرکے یہ نشست دوبارہ حاصل کرلی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار میر علی نواز ٹالپر 14ہزار154 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، 2011 میں سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کے بعد 25فروری2012کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی نے اس نششت پر سید محسن شاہ کی بیوہ بی بی وحیدہ شاہ کو ٹکٹ جاری کردیا ۔بی بی وحیدہ شاہ نے اپنے مد مقابل میر مشتاق علی ٹالپر کے حاصل کردہ 13ہزار2سو 92ووٹوں کے مقابلے میں 30ہزار ایک سو 91ووٹ حاصل کرکے واضح برتری تو حاصل کرلی تھی تاہم ووٹنگ ٹائم ختم ہونے سے صرف دو گھنٹے پہلے پریذائیڈنگ آفیسر اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر کو تھپڑ مارنے پر وہ اپنی جیتی ہوئی بازی ہار گئیں ۔

الیکشن2013 کے لئے اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے سید محسن شاہ بخاری کے کزن سید اعجاز شاہ بخاری کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے جس کے بعد بخاری ہاؤس میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی ہے جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر حاجی امین لاکھو بھی غیر مطمیئن دکھائی دے رہے ہیں۔دوسری جانب فنکشنل مسلم لیگ کی جانب سے اس نشست کے لئے میر عنایت علی ٹالپر کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے جو پیپلز پارٹی کے مدمقابل سب سے مضبوط امیدوار مانے جارہے ہیں۔

جبکہ اسی نشست پر آزاد امیدوار میر مشتاق علی ٹالپر ،میر علی نواز ٹالپر،سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر احمد نوناری، قومی عوامی تحریک کے نور احمد کاتیار، جمعیت علماء اسلام ف کے مفتی رمضان سومرو، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عزیز گدی، مسلم لیگ ن کے پیر معصوم جان سرہندی، عوامی نیشنل پارٹی کے رازق حسین، مجلس وحدت مسلمین کے مولانا محمد بخش لغاری، تحریک انصاف کے محمد حسن پٹھان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں تاہم سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد بننے سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیگر تمام جماعتیں پیپلز پارٹی سے ون ٹو ون مقابلے کے لئے کسی ایک نام پر متفق ہو جائیں گی۔

صوبائی اسمبلی حلقہ PS-54 میں 1988سے پیپلز پارٹی ناقابل شکست رہی ہے اس کا مقابلہ ہمیشہ علاقے کی طاقتور سیاسی شخصیت سید قبول محمد شاہ سے رہا ہے جبکہ سید قبول محمد شاہ نے گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے جس سے اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے جبکہ ان کے بھانجے سید ذوالفقار علی شاہ فنکشنل مسلم لیگ کی جانب سے اس حلقے سے امیدوار ہیں تاہم سندھ ترقی پسند پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر احمد نوناری بھی پر امید ہیں کہ اگر انہیں پی ایس 53 سے امیدوار نامزد نہیں کیا گیا تو وہ پی ایس 54 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالکریم سومرو کے مدمقابل امیدوار ضرور ہوں گے اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ امیدوار کون ہوگاتاہم اس حلقے میں بظاہر پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالکریم سومرو کی پوزیشن مستحکم دکھائی دے رہی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں